قاضی فائز عیسیٰ: ‘اینٹی اسٹیبلشمنٹ’ جج جن کا دور سیاسی اور عدالتی تنازعات میں گزرا
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ 13 ماہ تک پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس رہنے کے بعد 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔
وہ پاکستان کی واحد عدالتی شخصیت ہیں جن کی تقرری بھی بطور چیف جسٹس ہوئی اور اب وہ چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنا جوڈیشل کیرئیر ختم کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ 2009 میں بلوچستان کے چیف جسٹس بنے اور پھر 2024 میں پاکستان کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
قاضی فائز عیسیٰٰ ایک ہنگامہ خیز سیاسی دور میں چیف جسٹس بنے جب عدلیہ میں تقسیم بھی واضح تھی۔ اسی لیے ان کا عدالتی دور تنازعات سے بھرپور رہا۔
گذشتہ برس ستمبر میں جب قاضی فائز عیسیٰٰ نے پاکستان کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تو وکلا میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ جج ہیں اور وہ نہ صرف عدلیہ میں موجود ججز کے درمیان اختلافات کو ختم کروائیں گے بلکہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کا بھی خاتمہ کریں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر اس وقت بنا تھا جب انھوں نے کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے خود کش حملوں سے متعلق قائم کمیشن کی سربراہی کرتے ہوئے اس واقعے کو ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا تھا۔
اس کے بعد فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ اور پھر ان کے خلاف سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دائر کیے گئے ریفرنس کی وجہ سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی تھی۔ لیکن اسی ریفرنس کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تعلقات ان ججوں کے ساتھ ان کی ریٹائرمنٹ تک مثالی نہیں رہے جنھوں نے صدارتی ریفرنس میں انھیں یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مشکل وقت دیا تھا۔
ان میں سپریم کورٹ کے مستعفی ہونے والے جج اعجاز الااحسن کے علاوہ جسٹس منیب اختر اور برطرف کیے جانے والے جسٹس مظاہر اکبر نقوی شامل ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عائشہ ملک کے ساتھ بھی کمرہ عدالت میں ان کے تعلقات بہتر نہیں رہے۔
اس تحریر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان دور کا احاطہ کیا گیا ہے کہ ان کا دور کیسا تھا اور انھیں کیسے جج کے طور پر یاد رکھا جائے گا لیکن پہلے قاضی فائز عیسیٰ کے سپریم کورٹ تک کے سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔
بلوچستان کے سیاسی گھرانے سے تعلق
قاضی فائز عیسیٰٰ کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے علاقے قندھار سے تھا۔ بعد میں وہ بلوچستان کے علاقے پشین میں آ کر آباد ہوئے، ان کے دادا قاضی جلال الدین قلات ریاست کے وزیراعظم رہے جبکہ والد قاضی محمد عیسیٰٰ تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔
انھیں آل انڈیا مسلم لیگ بلوچستان کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور بعد میں جب پاکستان کے قیام کے لیے ریفرنڈم ہوا تو انھوں نے اس میں بھرپور تحریک چلائی۔
امریکہ اور انڈیا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں مندوب جہانگیر اشرف قاضی ان کے کزن ہیں، جبکہ مرحوم بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری سے بھی ان کی قریبی رشتے داری تھی۔
قاضی فائز عیسیٰٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ بعد میں کراچی گرامر سکول سے اے لیول کرنے کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن چلے گئے جہاں سے 1985 میں واپس آئے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر کیریئر شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: انسٹا پر 14 ملین فالورز رکھنے والی ایشوریا کس ایک شخصیت کو فالو کرتی ہیں؟
براہ راست بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے پہلے جج
سنہ 1985 میں وہ بطور ہائی کورٹ وکیل رجسٹر ہوئے اور سنہ 1998 میں ان کی بطور وکیل سپریم کورٹ انرولمنٹ ہوئی۔ اس عرصے کے دوران وہ مختلف عدالتوں میں عدالتی معاون کے طور پر بھی پیش ہوتے رہے جبکہ مختلف معاملات میں بین الاقوامی عدالت انصاف بھی جاتے رہے۔
جب سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کو 2009 میں سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا تو جن ججز نے سابق فوجی صدر کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھایا تھا، وہ تمام اپنے عہدوں سے فارغ ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام ججز کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
یوں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی جسے منظور کر لیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کو پانچ اگست سنہ 2009 کو بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔ اس طرح ان کی پہلی تعیناتی ہی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ جب بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوئے تو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے ان کی تعیناتی کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی۔
اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جسٹس عیسیٰٰ کی تعیناتی آئین کے خلاف ہے کیونکہ کسی بھی شخص کی بطور جج تعیناتی کے لیے اعلیٰ عدالت میں دس سالہ پریکٹس کا تجربہ ہونا ضروری ہے جبکہ ان کی تعیناتی ایڈہاک بنیادوں پر ہوئی تھی مستقل بنیادوں پر نہیں۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
بلوچستان ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی سے قبل وہ انگریزی اخبارات میں آئین و قانون، تاریخ اور ماحولیات پر تجزیاتی آرٹیکلز بھی لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ’ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشن کے مشترکہ مصنف، بلوچستان کیس اینڈ ڈیمانڈ‘ کے بھی لکھاری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: محمد رضوان کے کپتان بننے پر شعیب ملک کا رد عمل
اینٹی اسٹیبلشمنٹ جج
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کو سنیارٹی کی بنیاد پر پانچ دسمبر سنہ 2014 کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔
ابھی انہیں سپریم کورٹ میں جج تعینات ہوئے دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ آٹھ اگست سنہ 2016 میں کوئٹہ میں خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے ان کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔
اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور ساتھ میں کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی تھی۔
جسٹس عیسیٰٰ کی سربراہی میں قائم اس کمیشن نے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار سے کالعدم تنظیم اہل سنت و الجماعت کے سربراہ علامہ یوسف لدھیانوی سے ملاقات پر بھی سوال اٹھایا تھا۔
چوہدری نثار نے الزامات کو ذاتی قرار دیا تھا جبکہ حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جب 2015 میں چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ ان چھ ججوں میں شامل تھے جنہوں نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کی تھی۔
ان ججوں کا موقف تھا کہ ان عدالتوں کا قیام عدلیہ کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تاہم مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس فیصلے کو قوم کی فتح قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ان عدالتوں کی مدد سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔
بعد میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے خلاف از خود نوٹس کیس میں جسٹس عیسیٰٰ کے فیصلے نے سول اداروں کے ساتھ عسکری اداروں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔
تحریکِ لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر انتخابی حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے متنازع ترمیم کے خلاف نومبر 2017 میں دھرنا دیا تھا جس کا اختتام وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد ہوا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں آرمی چیف، اور بحری اور فضائی افواج کے سربراہان کو وزارتِ دفاع کے توسط سے حکم دیا کہ وہ فوج کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی جماعت یا گروہ کی حمایت کی۔
عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں: بیماری اور اموات کا سبب بننے والے 17 خطرناک جرثوموں کی فہرست جاری
سابق چیف جسٹسز سے اختلافِ رائے
چاہے چیف جسٹس کی جانب سے از خود نوٹس لینے کا معاملہ ہو یا بینچوں کی تشکیل کے اختیارات، بطور جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ سپریم کورٹ کے متعدد سابقہ سربراہان سے اختلافِ رائے کا برملا اظہار اپنے اختلافی نوٹس میں کرتے رہے۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کے مطابق ان اختلافات کی اصل وجوہات کبھی سامنے نہیں آئیں۔ انہوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس صاحبان ان اختلافات کو ’اصولی موقف‘ کا نام دیتے رہے ہیں۔
سال 2018 میں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری برانچ کے از خود نوٹس سے متعلق معاملے پر اختلاف کے نتیجے میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کو بینچ سے الگ کیا جس پر انہوں نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
وہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے قائم کردہ ’ڈیم فنڈ‘ کے بھی خلاف تھے، جس میں وکلا کو تاخیر سے آنے یا التوا کی تاریخ مانگنے پر جرمانے کیے جاتے اور انہیں کہا جاتا کہ وہ یہ جرمانے ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے کھلی عدالت میں اس ڈیم فنڈ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہے کہ وکلا جرمانے کی رقم کسی خیراتی ادارے میں جمع کروائیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کے خلاف بیرون ملک اثاثے ظاہر نہ کرنے سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر ہوا۔
ریفرنس کے خلاف درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے دعویٰ کیا کہ اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سپریم کورٹ کی عمارت کے لان میں ٹہلتے ہوئے انہیں رازداری سے ریفرنس کے بارے میں بتایا جس کا مقصد ’مجھ سے استعفیٰ لینا تھا۔‘
اُس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی مگر انہوں نے اس صدارتی ریفرنس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کی اکثریت نے اس صدارتی ریفرنس کو مسترد کیا اور سپریم جوڈیشل کونسل کو کارروائی سے روک دیا تھا۔
ان کے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ بھی مختلف امور پر اختلافات رہے، خاص طور پر جب انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پارٹی کارکنوں کا اجلاس کنونشن سینٹر میں بلائے جانے اور ارکان پارلیمنٹ کو فنڈز دینے کے حوالے سے نوٹس لیا۔
ان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی تھی۔ بینچ کے دوسرے رکن جسٹس مقبول باقر تھے جو اس وقت سندھ کے نگراں وزیر اعلیٰ ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے اس معاملے میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور پہلی ہی سماعت میں اس معاملے کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ از خود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے آئین کے تحت از خود نوٹس لینے کے اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے بجائے سپریم کورٹ کا لفظ شامل ہے۔
دوسرا حکم یہ دیا گیا کہ آئندہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے متعلق کسی درخواست کی سماعت نہیں کریں گے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ساتھ تعلقات میں کھچاؤ کا معاملہ صدارتی ریفرنس کے بعد بھی چلتا رہا۔
جسٹس عمر عطا بندیال اس 10 رکنی بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جس نے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کی تھی۔ تاہم اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے معاملے پر بھی اختلاف پیدا ہوا۔
پی ڈی ایم حکومت کے دور میں پارلیمان نے از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے اختیارات میں ترمیم کی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ میں یہ اختیار سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کو دیا گیا، جس پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکم امتناعی جاری کیا۔
جسٹس عطا بندیال کے دور میں قائم مقام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰٰ نے زیادہ تر اِن چیمبر ہی کام کیا اور بہت کم ایسا ہوا جب وہ کسی بینچ کا حصہ بنے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: محمد رضوان سابق کپتان سرفراز احمد اور معین خان کا ریکارڈ توڑنے کے قریب
اختیارات اور تنازعات
گذشتہ سال چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قاضی عیسیٰ نے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر عمل درامد کرتے ہوئے بینچز کی تشکیل کا اختیار اپنے پاس رکھنے کے بجائے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز کو دے دیا تھا۔
اس سے پہلے صرف چیف جسٹس کو ہی ججز کا روٹا اور بینچز بنانے کا اختیار تھا۔ اس معاملے پر ججز کے درمیان اختلافات اس وقت شروع ہوئے جب بینچز کی تشکیل سے متعلق تین ججز پر مشتمل بنائی گئی کمیٹی کی تشکیل نو ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت کی گئی۔
اس کے بعد اس تین رکنی کمیٹی میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے اور یہ دونوں جج اس کمیٹی میں بطور احتجاج شامل نہ ہوئے اور چیف جسٹس جسٹس امین الدین کے ساتھ ہی اس کمیٹی کو چلاتے رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں کورٹ روم نمبر ون میں مقدمات کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے سے متعلق حکم دیا جسے سراہا گیا۔ ان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، مخصوص نشستیں اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی سٹریمنگ قابل ذکر ہیں۔
تاہم یہ سلسلہ اس وقت رک گیا جب نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کرنے والے پانچ رکنی بینچ میں موجود ایک جج نے کہا کہ چونکہ عمران خان اس ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں اور یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے، اس لیے اس مقدمے کی کارروائی بھی لائیو دکھائی جائے۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ سمیت دوسرے تین ججز نے اپنے ساتھی جج کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔
جسٹس عیسیٰ کے دور میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے متعدد بار کہا گیا کہ چیف جسٹس ان کی جماعت اور عمران خان سے متعلق کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔
پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ ’قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں پاکستان مسلم لیگ نواز بظاہر فائدے میں رہی جبکہ سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف یہ تصور کرتی ہے کہ ان کی جماعت کو ایک منصوبے کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شخصیت وکلا کے ایک دھڑے میں پاکستان تحریک انصاف کے انٹرپارٹی الیکشن کے مقدمے کے حوالے سے بھی متنازع بنی جس میں سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں پاکستان تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لے لیا۔
سپریم کورٹ کے وکیل ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ زیرالتوا مقدمات میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کا انٹرپارٹی الیکشن کا معاملہ سماعت کے لیے مقرر کیا اور اس مقدمے میں سپریم کورٹ کی جانب سے جو فیصلہ آیا اس نے آٹھ فروری کے انتخابات کو متنازع بنا دیا۔
اپنے اس فیصلے کے برعکس آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد جب مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل کی سماعت ہوئی تو اس میں چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق اس عدالتی فیصلے کو نہیں سمجھا اور انھوں نے اپنے فیصلے میں یہ نہیں کہا تھا کہ اس جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کو بلے کا نشان الاٹ نہ کیا جائے۔
ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’مخصوص نشستوں سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ نے جو اختلافی نوٹ لکھا ہے اس میں انھوں نے اپنے ان ساتھی ججز کی جوڈیشل سوچ پر سوالات اٹھا دیے جنھوں نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ دیا ہے۔‘
فائز عیسیٰ کے بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مقدمات میں کمی ہونے کی بجائے اس میں اضافہ ہوا اور ان کے دور میں بھی پاکستانی عدلیہ سے متعلق عالمی رینکنگ میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے جب سپریم کورٹ میں بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالا تو اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 56 ہزار تھی اور اب جب وہ ریٹائر ہو رہے ہیں تو اس وقت زیر التوا مقدمات کی تعداد 65 ہزار ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اوورسیز پاکستانیوں نے 3 ماہ میں آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام سے زیادہ ڈالر پاکستان بھیجے
اپنے اختیارات ختم کرنے کا حوصلہ کم ہی کسی چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے
قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ بطور چیف جسٹس انھوں نے ایسے فیصلے لیے جو ان سے پہلے کوئی اور چیف جسٹس نہیں لے سکا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عبدالرشید کا کہنا ہے کہ بطور چیف جسٹس انھوں نے جن مقدمات کو نمٹایا ہے اس سے پہلے ان مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہمت ان سے پہلے کے چیف جسٹس صاحبان نے نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف صدارتی ریفرنس پر فیصلے کے علاوہ سابق فوجی امر پرویز مشرف کو سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنانا اہم مقدمات میں شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اپنے اختیارات کو ختم کرکے کمیٹی کو تفویض کرنے کا حوصلہ بھی کم ہی چیف جسٹس کے پاس ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال قاضی فائز عیسیٰٰ نے توہین مذہب کے مقدمے میں احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ملزم کی ضمانت کا فیصلہ دیا جس کے چند حصوں پر ملک بھر کی مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا۔
اس احتجاج کی شدت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ مذہبی جماعتوں کے کارکن سپریم کورٹ کی عمارت کے قریب پہنچ گئے تھے۔
اس فیصلے کے خلاف حکومت کی طرف سے دائر کی گئی ریویو میں اس فیصلے کے چند پیراگراف کو ہٹانا پڑا جس کے خلاف مذہبی جماعتیں احتجاج کر رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: طاہر اشرفی نے ریاست سے دہشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا مطالبہ کردیا
ججوں کے ریمارکس کو برداشت نہیں کرتے تھے
تاہم جہاں وکلا برادری کا ایک دھڑا قاضی فائز عیسیٰ کے جرات مندانہ رویے کی تعریف کرتا ہے، وہیں کچھ وکلا ان کی جانب سے کمرۂ عدالت کے اندر وکیلوں اور ساتھی ججوں کے بارے میں رویے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ’قاضی فائز عیسیٰ جو خود کو ایک جمہوریت پسند کہتے ہیں، لیکن مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران بارہا ایسے مواقع آئے جب بینچ میں شامل ججز اپنے ریمارکس ختم بھی نہیں کرتے تھے کہ وہ انہیں درمیان میں ٹوک دیتے تھے، جس سے ان کی باتوں اور رویے میں تضادات کا پتہ چلتا ہے۔‘
ریاست علی آزاد کا یہ بھی کہنا تھا کہ مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سینیئر وکلا کو ڈانٹنے کے واقعات بھی پیش آتے رہے اور سینیئر وکلا نے چیف جسٹس سے ان کی روّیے کی متعدد بار شکایت بھی کی تھی۔
خیال رہے کہ مقدمات کی سماعت کے دوران متعدد بار ایسے واقعات پیش آئے کہ قاضی فائز عیسیٰ اور وکلا یا درخواست گزاران کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد چیف جسٹس نے کسی صحافی کا نام لیے بغیر کہا کہ اب سوشل میڈیا پر اس معاملے پر وی لاگ کیے جائیں گے اور ججز کو بدنام کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ججوں کی تقسیم خوفناک حد تک بڑھ گئی
عابد ساقی کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں ججز میں تقسیم خطرناک حد تک بڑھ گئی جس کا اثر نہ صرف ججز کے ذاتی تعلقات بلکہ عدالتی کارروائی پر بھی پڑا۔
اس بات کا ایک ثبوت ان کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں بھی دیکھنے کو ملا جس میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے شرکت نہیں کی۔ ان میں سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شہزاد احمد خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے تو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے الوداعی فل کورٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق ایک وضاحت بھی جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ ’چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا دفاع کرنا بھی ہے لیکن اس معاملے میں قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ کو نظرانداز کیا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کی بجائے اس کے دروازے کھول دیے۔
انھوں نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ قاضی فائز عیسی نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی اور ججز میں تفریق کے آثار تادیر عدلیہ پر رہیں گے۔