انڈیا میں انصاف کی دیوی کو ساڑھی کیوں پہنائی گئی؟
انڈیا کی سپریم کورٹ میں ’انصاف کی دیوی‘ کے نئے مجسمے کی نقاب کشائی تنازع کا شکار ہو گئی ہے۔
انڈیا میں وکلا کی تنظیم سپریم کورٹ بار ایسOCIATION نے سپریم کورٹ میں حال ہی میں نصب کی گئی ’انصاف کی دیوی‘ کے نئے مجسمے پر سخت اعتراض کیا ہے۔
اتفاق رائے سے منظور کی گئی قرارداد میں بار ایسوسی ایشن نے تبدیلی کے اس فیصلے کو ’یکطرفہ‘ اور ’انتہائی سخت گیر‘ قرار دیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنی قرارداد میں صلاح و مشورہ کیے بغیر اس مجسمے میں تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔
واضح رہے کہ انڈین صدر دروپدی مورمو نے سپریم کورٹ کے قیام کی 75ویں برسی کے موقع پر یکم ستمبر کو انصاف کی دیوی کے نئے مجسمے اور سپریم کورٹ کے ایک نئے نشان کی نقاب کشائی کی تھی۔
ساڑھی اور کھلی آنکھوں والی ’انصاف کی دیوی‘
سپریم کورٹ کے ججز کی لائبریری میں نصب کی گئی ’انصاف کی دیوی‘ کا نیا مجسمہ پہلے کی طرح سفید تو ہے لیکن اس نے ساڑھی پہنی ہوئی ہے۔
اس کے دائیں ہاتھ میں پہلے ہی کی طرح انصاف کا ترازو بھی ہے لیکن دوسرے ہاتھ میں تلوار کی بجائے انڈیا کا آئین ہے۔
ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ انصاف کی نئی دیوی کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جبکہ روایتی مجسمے میں آنکھوں پر کالی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ’انصاف کی دیوی‘ نے تاج بھی پہنا ہوا ہے۔
یہ مجسمہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی ایما پر تخلیق کیا گیا، جنھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’انصاف کی نظر میں ہر کوئی برابر ہے۔ اس نئے مجسمے کو سامراجی دور کے اس تصور سے نکالنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ انصاف اندھا ہے۔‘
’نئے مجسمے میں ترازو انصاف کے عمل میں توازن اور غیر جانبداری کی علامت ہے تو وہیں پرانے مجسمے کی تلوار جو سزا کی علامت تھی، اسے ہٹا کر آئین کی کتاب دکھائی گئی۔‘
یہ بھی پڑھیں: جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں “خدمات مولانا سمیع الحق شہیدکانفرنس” مولانا حامد الحق حقانی، سراج الحق اور دیگر کا خطاب
’انصاف اندھا نہیں ہوتا‘
انصاف کی دیوی کے مجسمے کی تصویر سامنے آتے ہی وزیر انصاف ارجن رام میگھوال نے کہا تھا کہ نیا مجسمہ انصاف کے عمل کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انصاف کی دیوی کا نیا مجسمہ ملکی آئین کے احترام کا بہترین طریقہ ہے۔ پرانے دور میں کہا جاتا تھا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن انصاف تو آئین اور قانون کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگر ججوں کو فیصلہ کرنا ہے تو وہ بغیر دیکھے اور پڑھے کس طرح انصاف کر سکتے ہیں۔‘
شیو سینا کے رہنما اور رکن پارلیمان سنجے راؤت نے نئے مجسمے کی آنکھوں سے پٹی اور ہاتھ سے تلوار ہٹانے پر سوال کرتے ہوئے اسے ’بی جے پی اور آر ایس ایس کا پراپیگنڈہ‘ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ پہلے ہی ملک کے آئین کا قتل کر رہے ہیں اور اب مجمسمے کی آنکھ سے پٹی ہٹا کر وہ سب کو یہ دکھا رہے ہیں کہ آئین کی کس طرح دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور کس طرح اسے مارا جا رہا ہے۔‘
’انصاف کی (ہندو) دیوی‘
سوشل میڈیا پر بھی اس نئے مجسمے کے متعلق مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
وکیل کرن ویر سنگھ نے لکھا کہ ’لیڈی جسٹس سامراجی دور کی مسلط کی ہوئی کوئی علامت نہیں۔ یہ انصاف کے اصولوں کی عکاسی کرتی ہے، جس کی گونج پوری دنیا کی تہذیبوں میں سنائی دیتی ہے۔‘
صحافی نبیلہ جمال نے ایکس پر لکھا کہ ’انصاف کا یہ نیا مجسمہ اندھا نہیں۔ چیف جسٹس نے جو قانونی اصلاحات شروع کی ہیں اس نے کئی سطحوں پر انڈیا میں انصاف کی شکل بدل دی۔‘
معروف صحافی سدھارت وردھراجن نے بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں نصب مقامی طرز کے انصاف کے مجسموں کی تصویریں پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ لیڈی جسٹس ایک یورپی تصور ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں کہ اس کی جگہ مقامی مجسمے تعمیر کیے جائیں لیکن اس میں مقامی جمالیاتی حس کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔‘
انھوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’سپریم کورٹ کے انصاف کے نئے مجسمے کے سر پر ایک تاج بھی ہے اور مجھے اس میں کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ کچھ دن بعد ہمیں یہ بتایا جائے کہ یہ انصاف کی (ہندو) دیوی ہے۔‘