نیوزی لینڈ کی بھارت میں فتح: کیا 12 سال بعد ہوم گراؤنڈز میں ناکامی بڑے بھارتی کھلاڑیوں کے کیریئر کا خاتمہ کر سکتی ہے؟
وہ کیوی ٹیم جو انڈیا میں 36 سالوں سے کوئی ٹیسٹ نہیں جیت پائی تھی آج اس نے ٹیم انڈیا کو اپنے ہی ہوم گراؤنڈ میں شکست دے دی ہے۔
یہی نہیں، ٹیم انڈیا گذشتہ ماہ سری لنکا سے بھی 2-0 سے سیریز ہار گئی تھی۔
انڈین ٹیم کا اپنے ملک میں جیت کا سلسلہ رک سا گیا ہے۔ اس سے پہلے ٹیم انڈیا 12 سالوں اور 18 سیریز سے مسلسل جیت رہی تھی۔
لیکن یہ کرکٹ ہے۔ ایک ایسا کھیل جو بہترین کھلاڑیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے اور ان کے ناقابل شکست رہنے کے احساس کو ہمیشہ قائم نہیں رہنے دیتی۔
پہلے بنگلور ٹیسٹ میں صرف 46 رنز پر آل آؤٹ ہونے والی ٹیم انڈیا کو پونے کی بہتر پچ پر دونوں اننگز میں ایک ٹیم کے طور پر مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
پہلے یہ دلیل دی جاتی تھی کہ نئے انڈین بلے بازوں کے پاس سپن بولرز کو کھیلنے کی تکنیک یا مزاج نہیں ہے، مگر یشسویٰ جیسوال اور سرفراز خان نے یہ غلط ثابت کیا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویراٹ کوہلی اور روہت شرما جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کے پاس اپنے ہی ملک کی پچز پر سپن بالروں پر غلبہ پانے کی وہ مہارت نہیں ہے جو سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ، وی وی ایس لکشمن، وریندر سہواگ اور سورو گنگولی جیسے بلے بازوں کے پاس ہوا کرتی تھی۔
سپن بالنگ کے خلاف انڈین بلے باز بے بس نظر آئے ہیں
لیکن ٹیم انڈیا کے سابق بلے باز سنجے منجریکر نے اپنے تجربے اور کیریئر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب آپ غیر ملکی پچوں پر بہت زیادہ ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے ہیں تو ایسے میں اپنے ملک میں اچھے سپنرز کے خلاف اچھی بیٹنگ کرنا آسان نہیں ہوتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ لیفٹ آرم سپنر کے خلاف ویراٹ کوہلی جیسے لیجنڈ جس طرح بے بس نظر آتے ہیں، آپ کس منطق سے اس کا دفاع کریں گے؟
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2021 سے کوہلی ڈومیسٹک ٹیسٹ میچوں میں سپنرز کے خلاف 23 اننگز میں سے 20 مواقع پر آؤٹ ہوئے ہیں۔ پونے کی دونوں اننگز میں انہیں مچل سینٹنر نے پویلین کا راستہ دکھایا، جو کیوی ٹیم کے لیے باقاعدگی سے ٹیسٹ بھی نہیں کھیلتے۔
یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ پچھلے چار سالوں میں انہوں نے انڈیا میں 15 ٹیسٹ میچوں اور 25 اننگز میں صرف ایک سنچری سکور کی ہے اور اس عرصے کے دوران ان کی 48 سے زیادہ کی اوسط کم ہو کر 32 کے قریب آ گئی ہے۔
یقیناً کوہلی اور ان کے مداح اس اعداد و شمار سے مایوس ہیں۔
کپتان روہت شرما بھی اس وقت ٹیسٹ کرکٹ میں بطور اوپنر اپنے کریئر کے سب سے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش سیریز سے پونے ٹیسٹ تک روہت نے آٹھ اننگز میں صرف ایک نصف سنچری بنائی ہے۔ آسٹریلیا کے دورے سے قبل ان کی ایسی کارکردگی ٹیم انڈیا کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
انڈیا کی ٹیم ایک ریکارڈ مدت تک ناقابلِ تسخیر رہی ہے
ایسا نہیں ہے کہ آپ انڈیا کے سیریز ہارنے کا ذمہ دار صرف اور صرف دو بلے بازوں کو قرار دے دیں۔
پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ انڈین بولنگ اٹیک کا مرکزی حصہ سمجھے جانے والے رویچندرن ایشون اور رویندر جڈیجہ نیوزی لینڈ کے خلاف بالکل معمولی بولرز نظر آئے ہوں۔
نہ صرف یہ دونوں بولرز وکٹیں لینے میں ناکام رہے بلکہ مہمان ٹیم نے ان کے خلاف رنز بھی بڑی آسانی سے بنائے۔
واشنگٹن سُندر تین سال بعد اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے اور وہ 11 وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا کا سپن بولنگ اٹیک کتنا کمزور تھا۔
سنہ 1969 میں پہلی مرتبہ نیوزی لینڈ نے ناگپور میں انڈیا کے خلاف گراہم ڈاولنگ کی قیادت میں ٹیسٹ میچ جیتا تھا۔ اس کے بعد سنہ 1988 میں جان رائٹ کی قیادت میں نیوزی لینڈ نے انڈیا کو انڈیا میں ہی شکست دی تھی۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم جو گذشتہ 55 برسوں میں صرف انڈیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچ جیت پائی تھی، وہ اب انڈیا میں ایک پوری ٹیسٹ سیریز جیت چکی ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ سیریز کا تیسرا میچ جیت کر انڈیا کو وائٹ واش کر دیں۔
نیوزی لینڈ نے سنہ 2021 میں ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں انڈیا کو شکست دی تھی۔ لیکن انڈیا کے خلاف انڈیا کے ہوم گراؤنڈز میں سیریز جیتنا زیادہ بڑی کامیابی ہے۔
انڈیا کی ٹیم اپنے ملک میں کوئی بھی ٹیسٹ سیریز چار ہزار 339 دنوں بعد ہاری ہے۔ کرکٹ کی تاریخ میں صرف آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں ایسی ہیں جو ماضی میں لگاتار 10 ٹیسٹ سیریز جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
روہت شرما اور گوتم گمبھیر آنے والے ہفتے یہی سوچنے میں گزاریں گے کہ آخر نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں شکست کی وجوہات کیا تھیں۔
آنے والے دنوں میں آسٹریلیا کے خلاف انڈیا کی ٹیم کا اعلان تو ہو چکا ہے لیکن اب تک ٹیم کے کوچ گوتم گمبھیر یہ ضرور اندازہ لگا چکے ہوں گے کہ انڈین کرکٹ میں تبدیلی کا وقت آ چکا ہے۔
اس سے قبل ون ڈے سیریز میں تجربہ کار انڈین ٹیم کو شکست کا مزہ چکھنا پڑا تھا اور بنگلہ دیش کی ٹیم نے بھی چنئی میں انڈیا کی ٹیم کو کافی دباؤ مِیں ڈال دیا تھا۔
لیکن شاید نیوزی لینڈ کے خلاف شکست یہ اشارہ دے رہی ہے کہ انڈین ٹیم کے کچھ مرکزی کھلاڑیوں کا کیریئر اب اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے۔
ایک چیز تو یقینی ہے کہ انڈیا کی ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ میں اگلی سیریز تقریباً ایک برس بعد کھیلے گی اور یہ پورے یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت تک کوہلی، روہت شرما، ایشون اور جڈیجہ ٹیم میں موجود ہوں گے۔
لیکن ہمیں یہاں نیوزی لینڈ کی ٹیم، دوسری اننگ میں نصف سنچری بنانے والے کپتان ٹوم لیتھم اور بنگلور اور پونے دونوں میں بہترین بیٹنگ کرنے والے رچن رویندرا کی تعریف کرنی ہی پڑے گی۔
لیکن مچل سینٹنر نے جو اس سیریز میں کر دکھایا وہ شاید اس سے قبل کوئی نیوزی لینڈ کا سپنر نہ کرسکا ہو۔ پہلی اننگز میں سات وکٹیں لینا اور دوسری اننگز میں چھ وکٹیں لینا کسی خواب سے کم نہیں۔
شاید پوری نیوزی لینڈ کی ٹیم کے لیے انڈیا کو انڈیا میں شکست دینا کسی بڑے خواب جیسا ہی ہے۔