شمالی کوریا نے ایران سے ویتنام تک مختلف تنازعات میں کن ممالک کی مدد کی؟
روس کی پارلیمان (سٹیٹ ڈوما) نے شمالی کوریا کے ساتھ 'جامع سٹریٹجک شراکت داری' کے معاہدے کی توثیق کی ہے۔ اس معاہدے کی دستاویز کے مطابق اگر دونوں ممالک میں سے کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو مشترکہ فوجی مدد فراہم کرنے کا ایک شق موجود ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق، اس معاہدے میں شمالی کوریا کے فوجیوں کو یوکرین کے خلاف جنگ میں بھیجنے کی خفیہ شق بھی شامل ہے۔
23 اکتوبر کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ پینٹاگون کے پاس شمالی کوریا کے فوجیوں کو روس بھیجے جانے کے ثبوت موجود ہیں۔
جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق شمالی کوریا نے ماسکو کو پہلے ہی تین ہزار فوجی فراہم کیے ہیں اور اب روس میں شمالی کوریا کے کل 10 ہزار فوجی ہوں گے۔ قبل ازیں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے چھ ہزار افراد پر مشتمل دو بریگیڈز کا ذکر کیا تھا۔
اگر یہ اعداد و شمار صحیح ہیں اور شمالی کوریا نے واقعی اپنے ہزاروں فوجی روسی فوج کی مدد کے لیے بھیجے ہیں تو یہ کوریائی خطے سے باہر کسی جنگ میں شمالی کوریا کے فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت کا پہلا واقعہ ہو گا۔
تاہم، شمالی کوریا کے فوجیوں نے ماضی میں بھی جنگوں میں اپنے دوست ممالک کی مدد کی ہے، البتہ اس وقت ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔ انھوں نے جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک دنیا بھر کے تنازعات میں حصہ لیا ہے۔
Uses in Urdu کی اس تحریر میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ ماضی میں شمالی کوریا کی فوج نے دیگر ممالک کی جنگوں میں جنگی تجربہ کیسے حاصل کیا۔
ویتنام جنگ
پہلی بار شمالی کوریا نے 1960 کی دہائی میں اپنی سرحدوں سے باہر کسی جنگ میں براہ راست حصہ لیا۔ ویتنام کی جنگ بہت سے طریقوں سے کوریائی جنگ سے ملتی جلتی تھی کیونکہ اس میں کمیونسٹ شمالی بمقابلہ امریکہ نواز جنوبی تھے۔ شمالی کوریا نے اپنی جنگ میں کامیابی حاصل کی تھی اور امریکیوں سے لڑنے کے لیے ویتنام کی مدد کرنے کے لیے تیار تھا۔
اکتوبر 1966 میں کوریا کی حکمران ورکرز پارٹی نے ویتنام کو فوجی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1967 کے اوائل میں شمالی کوریا نے ہنوئی کو ہتھیاروں کی فراہمی شروع کی اور ہتھیار، گولہ بارود اور 20 لاکھ یونیفارم ویتنام کو بھیجے گئے۔
اس کے علاوہ، ہنوئی کی حفاظت کے لیے ویتنام کو شمالی کوریا سے تربیت یافتہ عسکری جنگجو بھی ملے جنھوں نے 921ویں اور 923ویں ایئر رجمنٹ کو تقویت بخشی، جو سوویت مگ 7 اور مگ -21 طیاروں پر مشتمل تھیں۔
اس وقت صرف یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان عسکری جنگجؤوں کو 'ایک مخصوص ریاست' کی طرف سے ویتنام کی مدد کو بھیجا گیا تھا۔
سنہ 1996 میں پینٹاگون نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ جنگجو پیانگ یانگ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے اور بعد میں ویتنام نے بھی 2001 میں باضابطہ طور پر اس کا اعتراف کیا۔
اس کے علاوہ ویتنام کمیونسٹ کے ساتھ شمالی کوریا کے 200 پائلٹوں نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوائی جہاز بذریعہ سڑک ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل
مشرق وسطیٰ میں شمالی کوریا کے فوجی
شمالی کوریا کے بانی اور رہنما کم جونگ اِل نے اسرائیل کو ایک ’امپیریل سیٹلائٹ‘ قرار دیا اور 1960 کی دہائی سے یہودی ریاست کے دشمنوں کی حمایت کی۔
پیانگ یانگ نے سرکاری طور پر مصر اور شام کے ساتھ تعاون کیا، اور غیر سرکاری طور پر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن اور دیگر بنیاد پرست گروپوں کی نہ صرف مدد کی بلکہ عسکریت پسندوں کے لیے تربیتی کیمپ بھی چلائے۔
لیکن شمالی کوریا کی فوج نے 1973 میں عرب اسرائیل تنازع میں براہ راست حصہ لیا تھا۔
18 جولائی 1972 کو مصری صدر انور سادات نے ملک سے تمام سوویت فوجیوں کو نکلنے اور ان کے اڈوں کو ریاست کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔
یہ سویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا دور تھا اور اس وقت سوویت یونین امریکہ کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ تصادم سے گریز کر رہا تھا۔
سادات ماسکو کی جانب سے ہتھیاروں کے استعمال پر لگائی گئی پابندیوں سے ناخوش تھے۔
مصر کی فضائیہ کا بڑا حصہ روسی مگ -21 لڑاکا طیاروں پر مشتمل تھا مگر وہ سوویت یونین کے فوجی مشیروں، پائلٹوں اور تکنیکی ماہرین کے بغیر تنہا رہ گیا تھا۔
جون 1973 میں انور سادات نے شمالی کوریا کے فوجی مشیروں کو مصر مدعو کیا۔
مشرق وسطیٰ کے ایک ماہر اور وال اسٹریٹ جرنل کے بین الاقوامی شعبہ کے سابق سربراہ جے سولومن لکھتے ہیں کہ ’مصر کے اس وقت کے صدر اور فضائیہ کے کمانڈر (اور مستقبل کے صدر) حسنی مبارک کے منصوبے کے مطابق شمالی کوریا سویت یونین سے حاصل کیے گئے فضائی دفاعی نظام اور مگ 21 لڑاکا طیاروں کا بہتر طور پر استعمال کرنے کے قابل تھا۔‘
مجموعی طور پر پیانگ یانگ نے سوویت طیارہ شکن میزائل سسٹم کی سروس اور بحالی کے لیے 1500 ماہرین مصر بھیجے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا نے مصری فضائیہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ سے پہلے 20 تجربہ کار پائلٹ فراہم کیے تھے۔
جیسا کہ اسرائیلی فضائیہ کے کمانڈر بنیامین پیلڈ نے بعد میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لڑائی کے دوران دشمن کے کم از کم دو لڑاکا طیاروں کو شمالی کوریا کے پائلٹ اڑا رہے تھے۔
سنہ 1973 کی جنگ کے فوراً بعد اسرائیلی انٹیلی جنس نے شامی فضائیہ کے پائلٹوں کے درمیان ہونے والے رابطوں اور گفتگو کی جاسوسی کی۔ اس گفتگو کو امریکہ کے سامنے پیش کیا گیا اور اسرائیل کی درخواست پر پینٹاگون کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ شمالی کوریا کے پائلٹ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ میں ایم پوکس وائرس کی نئی قسم کے کیسز سامنے آگئے
ایران عراق جنگ
سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد شمالی کوریا کے رہنما کم ال سنگ نے ایران کی نئی قیادت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں اور 1980 میں عراقی افواج کے ایران پر حملے کے بعد اسلحے پر پابندی کو مزید سخت کر دیا۔
اس وقت میں شمالی کوریا نے ایران کی مدد کی اور امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کو ہتھیاروں کی فراہمی شروع کر دی اور میزائل لانچروں کے ساتھ شمالی کوریا کے تقریباً 100 فوجی اہلکار اسلامی جمہوریہ ایران پہنچ گئے۔
دونوں ممالک کے درمیان مضبوط فوجی تعاون ایران عراق تنازعہ کے خاتمے کے بعد بھی 1990 کی دہائی کے اوائل تک جاری رہا۔ اس کے بعد شمالی کوریا میں اقتصادی بحران کا آغاز ہو گیا تھا۔
افریقہ میں شمالی کوریا کا عسکری تعاون
سرد جنگ کے عروج کے دنوں میں شمالی کوریا کے پاس اتنے وسائل تھے کہ وہ افریقی ممالک کی سیاست میں مداخلت کر سکتا تھا۔ اس دور میں شمالی کوریا کے عسکری مشیروں نے شمالی صحارا کی ایک علیحدگی پسند تنظیم پولیساریو فرنٹ کی مدد کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے انگولہ اور نمیبیا میں بھی باغیوں کو عسکری تربیت دی۔
سنہ 1970 کی دہائی میں پیانگ یانگ نے دو افریقی ریاستوں کے بدنام زمانہ آمروں کے ساتھ تعلقات قائم کیے جن میں ایکوٹوریل گنی کے سربراہ فرانسسکو گیوما اور یوگینڈا کے رہنما ایدی امین شامل تھے۔
گیوما کی جانب سے کم جونگ اِل کی تعریف کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ شمالی کوریا کے انسٹرکٹر ان کی حفاظتی منصوبہ بندی اور تفصیلات کا حصہ تھے اور ایکوٹوریل گنی جنوب مغربی افریقہ میں باغیوں کے لیے کوریائی ہتھیاروں کا ایک اہم مرکز تھا۔ گیوما کا تختہ الٹنے کے بعد ان کا خاندان بھی شمالی کوریا فرار ہو گیا تھا۔
دوسری طرف یوگنڈا کے سربراہ ایدی امین کی حکومت کے خاتمے کے بعد یوگینڈا کے شمالی کوریا کے ساتھ قریبی تعلقات ختم نہیں ہوئے۔ افریقی ملک نے شمالی کوریا کے تعاون سے ایک فوجی پلانٹ بنایا گیا۔
شمالی کوریا کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ تعاون کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ مثال کے طور پر سنہ 2007 میں یوگنڈا اور شمالی کوریا نے یوگنڈا کی فوج کے لیے پائلٹوں اور تکنیکی عملے کو تربیت دینے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
سنہ 2016 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2770 منظور کی جس میں واضح طور پر ’پولیس، نیم فوجی دستوں یا فوج کو تربیت دینے کے لیے شمالی کوریا کے تربیت کاروں، مشیروں یا دیگر اہلکاروں کے‘ استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔
لیکن یوگنڈا کو بین الاقوامی دباؤ کے سامنے جھکنے، پیانگ یانگ کے ساتھ فوجی تعاون ختم کرنے اور شمالی کوریا کے 14 پائلٹ انسٹرکٹرز کو ویزا دینے سے انکار کرنے میں دو سال لگے۔