کاڈ لیور آئل: اٹھارویں صدی کی بدبودار دوا جو کمزور ہڈیوں کے لیے آج بھی اہم ہے
آج کل جب کاڈ فش کے جگر کے تیل کی بات کی جائے تو یہ ایک خاص قسم کے تیل کی حیثیت رکھتا ہے اور ذہن میں وکٹورین دور کی سکول نرس یا ہیڈ ماسٹر کی تصویر ابھرتی ہے جو چمچ لہرا رہے ہیں۔
18ویں اور 19ویں صدی کے کئی علاج وقت کے ساتھ ختم ہو گئے ہیں۔
مثال کے طور پر، اب رونے والے بچوں کو افیون نہیں دی جاتی۔ انجیر اور کیسٹر آئل کا شربت اب علاج نہیں سمجھا جاتا حالانکہ وہ تھوڑی بہت قبض کشا ضرور ہیں اور اب آپ کیمسٹ کے پاس برامٹسون اینڈ ٹریکل (گندھک اور گڑ کا شیرہ) خریدنے کے لیے بھی نہیں جاتے۔
لیکن کاڈ فش کے جگر کا تیل ان ادویات میں شامل ہے جو اب بھی اپنی افادیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تیل وٹامن اے اور ڈی سے بھرپور ہوتا ہے۔
وٹامنز کی دریافت سے پہلے، لوگوں نے محسوس کیا تھا کہ کاڈ لیور آئل لینے والے بچوں میں رکیٹس (ہڈیوں کی خشکی کی بیماری) کا امکان کم ہوتا ہے۔
کاڈ لیور کے صحت کے فوائد ہونے کے باوجود، یہ ہمیشہ لینے والوں کے لیے ایک ناپسندیدہ اور بدبودار چیز رہی ہے۔
لیکن ایک چمچ کاڈ لیور آئل برطانیہ کے سرد موسم میں دھوپ میں بیٹھ کر وٹامن ڈی حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ تھا۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی سو سال پہلے تھی، اور اگر برطانیہ کے محکمہ موسمیات کی اس پیشگوئی کو مدنظر رکھا جائے کہ برطانیہ میں 2070 تک موسم سرما کی بارشیں 1990 کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہوں گی تو کاڈ لیور آئل کی افادیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔
چناں چہ، دہائیوں پہلے کئی حکومتوں نے کھانے کی اشیاء میں کچھ اجزاء کی شمولیت کو لازمی قرار دیا۔ 1940 میں برطانیہ نے مارجرین میں وٹامن ڈی کی شمولیت کو لازمی قرار دیا، جبکہ ڈبل روٹی، دودھ اور سیریلز بنانے والوں نے بھی ایسا کرنے کا آغاز کیا۔
امریکہ میں 1933 سے دودھ میں وٹامن ڈی کی موجودگی کو لازمی قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ 21ویں صدی میں بھی حکومتوں نے خوراک میں وٹامن ڈی کی سطح کو بڑھانے کے لیے پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ فن لینڈ نے 2003 میں وٹامن ڈی کی خوراک میں شمولیت کا ایک منصوبہ متعارف کروایا جس پر تمام فوڈ مینوفیکچررز بھی متفق تھے۔
لیکن برطانیہ میں وٹامن ڈی کی شمولیت لازمی قرار دینے کی کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا جب ہائپرکیلسمیا نامی بیماری کے کیسز سامنے آنا شروع ہوئے۔ میڈیکل سائنس نے معلوم کیا کہ خون میں زیادہ کیلشیم کی موجودگی گردوں میں پتھری کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین کا خیال تھا کہ بچوں کو وٹامن ڈی ضرورت سے زیادہ دیا جا رہا ہے۔ پھر 1950 میں مارجرین اور بے بی فارمولے کے علاوہ دوسری اشیاء جیسے سیریلز اور دودھ میں وٹامن ڈی کی موجودگی کی پابندی کو ختم کر دیا گیا۔
2013 میں برطانیہ نے مارجرین میں بھی وٹامن ڈی کی موجودگی کی شرط کو ختم کر دیا اور لوگوں کو وٹامن ڈی کے سپلیمنٹ استعمال کرنے کی ترغیب دی، جس پر کم ہی لوگوں نے توجہ دی۔
اب جب بلڈ ٹیسٹ میں بہتری آئی ہے تو کچھ چونکا دینے والی معلومات بھی سامنے آئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ برطانیہ میں جنوری سے مارچ تک جب سرد موسم عروج پر ہوتا ہے اور سورج کبھی کبھار ہی نظر آتا ہے، 40 فیصد بچے اور 30 فیصد بالغ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔
برطانیہ کے سرد موسم میں غیر سفید فام آبادی، خاص طور پر جنوبی ایشیائی نژاد شہریوں میں وٹامن ڈی کی کمی ایک عمومی مسئلہ بن چکی ہے۔
اس کے علاوہ، بچوں میں رکٹس (ہڈیوں کی ایک بیماری) دوبارہ بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ میں 60 اور 70 کی دہائی میں رکٹس کی بیماری تقریباً ختم ہو گئی تھی۔
اعداد و شمار کے مطابق 1991 میں انگلینڈ میں 15 سال سے کم عمر کے ہر ایک لاکھ بچوں میں صرف 0.34 فیصد رکٹس کے کیسز تھے۔ لیکن 2000 کی دہائی میں اس میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور رکٹس کے کیسز آسمان کو چھونے لگے۔ سنہ 2011 میں سائنس دانوں نے لکھا تھا کہ 'انگلینڈ میں رکٹس کے مریضوں کی ہسپتال میں داخل ہونے کی شرح گذشتہ پانچ دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔'
کیا خوراک میں وٹامن ڈی کی لازمی شمولیت کا وقت آ گیا ہے؟
برطانیہ کی سائنسی مشاورتی کمیٹی برائے غذائیت اس سوال پر غور کر رہی ہے: اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں ہائپر کیلسیئمیا کے کیسز ایک جینیاتی بیماری کی وجہ سے تھے جو وٹامن ڈی کے جذب میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہاں تبدیلی آنے والی ہو۔
برطانیہ میں رکٹس کے بڑھنے کے پیچھے ممکنہ طور پر کئی عوامل موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ کاڈ لیور آئل جیسی کوئی چیز واپس آ سکتی ہے۔