میں نے اُس ٹرین ڈرائیور سے نکاح کر لیا جس نے مجھے خودکشی سے بچایا
یہ سنہ 2019 کی گرمیوں کی بات ہے۔ نرس شارلٹ لی دوپہر کے وقت معمول کے مطابق اپنی رات کی شفٹ کے لیے تیار ہوئیں لیکن ’وہ بالکل بھی ٹھیک محسوس نہیں کر رہی تھیں۔‘
تھوڑی ہی دیر میں انھوں نے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس لیے وہ ویسٹ یارکشائر ریلوے سٹیشن کے قریب پہنچیں۔
لیکن اس ٹرین ڈرائیور کی مہربانی کہ جنھوں نے شارلٹ کی پریشانی بھانپ لی اور بروقت ٹرین روک لی اور وہ شارلٹ وہ نہ کر سکیں کہ جس کا وہ سوچ کر اس ٹرین سٹیشن پر آئی تھیں۔
تین سال بعد انھوں نے ایک دوسرے سے شادی کرلی، زندگی آگے بڑھی اور ان کے ہاں بچے بھی پیدا ہوئے۔
شارلٹ اب 33 سال کی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’میں اپنی نوعمری سے ہی اپنی دماغی صحت کے مسائل سے دو چار تھی اور اس کی وجہ سے میں سسٹم کے اندر باہر ہوتی رہتی تھی۔‘
پانچ سال پہلے اس دن جو ہوا اس کے متعلق ان کی یادیں ’کافی دھندلی‘ ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ انھیں بریڈ فورڈ کے قریب کراس فلیٹس سٹیشن کے قریب ایک ٹرین کو پٹریوں پر آتے ہوئے دیکھا تھا۔
’مجھے یاد ہے، میں نے ایک آدمی ٹرین سے اترتے ہوئے دیکھا اور مجھے گھبراہٹ شروع ہو گئی کہ اب وہ مجھ پر چیخے گا کہ وہاں سے ہٹو۔‘
لیکن پھر وہ کہتی ہیں کہ ’وہ میرے پاس آئے اور کہا ’ہیلو، میرا نام ڈیو ہے، کیا آپ کا دن برا گزر رہا ہے؟‘
’میں نے کہا ’ہاں، تھوڑا سا‘۔ انھوں نے کہا ’اچھا، تو ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں، جب تک کہ آپ کا موڈ ٹھیک نہیں ہو جاتا۔‘
ڈیو ایک ٹرین آپریٹر ہیں اور ناردرن زون کے لیے کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں یاد ہے کہ وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلے تھے اور انھوں نے شارلٹ کے سامنے 'گھٹنے ٹیک کر' اپنا تعارف کرایا تھا۔
انھوں نے شارلٹ سے کہا کہ وہ ان سے ’اس وقت تک باتیں کرتے رہیں گے جب تک کہ آپ پر سکون محسوس نہیں کرتیں‘ اور اس قابل نہیں ہو جاتیں کہ آپ اپنی منزل تک بحفاظت پہنچ سکیں۔‘
ان دونوں نے آدھے گھنٹے تک بات چیت کی۔ اگرچہ اس وقت تک شارلٹ قدرے پریشان تھی لیکن ٹرین سے جانے پر راضی ہوگئیں۔ انھیں سکیپٹن سٹیشن لے جایا گیا اور پولیس کی دیکھ بھال میں چھوڑ دیا گیا۔
فیس بک پر اپیل
اگلے دن، شارلٹ اس شخص کو تلاش کرنے کے لیے بے چین تھیں جنھوں نے گذشتہ روز ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا تھا۔ انھوں نے ایک مقامی فیس بک گروپ پر ایسے شخص کے لیے اپیل جاری کی جو ناردرن ریلوے کے لیے کام کرتا ہے۔ انھوں نے ان سے رابطے کی اپیل بھی کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ میری بات نہیں سننا چاہتے تو میں سمجھ جاتی لیکن میں صرف ’شکریہ‘ کہنا چاہتی تھی کہ انہوں نے مجھے وقت دیا اور میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے میں انسان ہوں۔‘
فیس بک پر ان کی اپیل کامیاب رہی اور جب ڈیو کے ایک ساتھی نے یہ اپیل دیکھی تو انھوں نے شارلٹ کو ڈیو کا نمبر دیا۔ انھوں نے اسے ٹیکسٹ پیغام بھیجا۔
ڈیو اب 47 سال کے ہیں اور انھوں نے بھی ان سے رابطہ کرکے اتنا ہی پرسکوں محسوس کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں پہلے کبھی بھی ٹرین سے اترنے اور کسی بحران میں مبتلا شخص سے بات کرنے کا اس سے قبل کوئی ’موقع نہیں ملا‘ تھا۔
انھوں نے کہا ’میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں نے پولیس سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور صرف یہ یقینی بنانا چاہتا تھا کہ وہ محفوظ ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’میں نے محسوس کیا کہ میرا فرض ہے کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ ہمارا تعلق ٹریک کے کنارے بنا تھا۔ اور کسی کے ساتھ ایسا کرنا کہ جس سے اس کی زندگی میں فرق آئے بہت اچھا تھا۔‘
جب ڈیو نے شارلٹ کے مسیج کا جواب بھیجا تو اس میں انھوں نے کہا کہ انھیں جب بھی کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہو تو وہ ان کے لیے حاضر ہیں اور پھر انھوں نے روزانہ کی بنیاد پر پیغامات کا تبادلہ کرنا شروع کیا۔
پھر دو ماہ بعد دونوں کافی کے لیے ملے اور باقی تاریخ ہے۔
سنہ 2022 میں انھوں نے شادی کر لی۔ وہ دونوں قریبی ولسڈن میں رہتے تھے اور شادی کے وقت شارلٹ 22 ہفتوں کی حاملہ تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی توڑ پھوڑ کیس؛ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت منظور کر لی
کہانی میں موڑ
لیکن اس سے پہلے ان کی کہانی میں ایک اور موڑ آیا تھا۔
جولائی سنہ 2020 میں ڈیو کو اس وقت خصیوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی جب وہ کمر کی تکلیف کے سبب اپنے ڈاکٹر سے ملنے گئے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ اگر شارلٹ نے اصرار نہ کیا ہوتا تو وہ کبھی ڈاکٹر کے پاس نہ جاتے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایسا اس لیے تھا ’میں ایک مرد ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے موٹر ٹریڈ میں 12 یا 13 سال ٹھنڈے فرش پر کام کیا ہے اور چیزوں کو اٹھا کر اندر باہر کیا ہے اور میں انھیں ہی کمر کی تکلیف سمجھتا۔‘
شارلٹ کہتی رہی کہ ’ڈاکٹر کے پاس جاؤ‘ میں نے کہا کہ صرف میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔‘
کینسر کی تشخیص کے بعد چند ہفتوں میں انھیں درست قرار دیا گیا، یعنی وہ ٹھیک ہو چکے تھے۔
پچھلے سال لیڈز کے سینٹ جیمز ہسپتال کے ایک کنسلٹنٹ نے انھیں بتایا کہ اگر بروقت ان کی تشخیص نہ ہوتی تو وہ آج زندہ نہ ہوتے۔
ڈیو کا کہنا ہے کہ ’شارلٹ یہ کہہ سکتی ہے کہ میں نے اس کی جان بچائی، جس کے بارے میں میں واقعی میں نہیں جانتا۔ لیکن اس نے بھی میری جان بچائی۔‘
’زندگی بہتر ہو جاتی ہے‘
ان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کہانی اس امید پر شیئر کرنا چاہتے ہیں کہ جو کوئی بھی مشکلات سے دوچار ہے وہ یہ جان لے کہ بہتر وقت قریب ہے۔
تین بچوں کی والدہ شارلٹ کہتی ہیں کہ ’زندگی بہتر ہو جاتی ہے، بس آپ کو اسے دیکھنے کے لیے زندہ رہنا پڑے گا۔‘
شارلٹ کا کہنا ہے کہ یہ اکثر ان لوگوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے جو کسی تک ’پہنچنے‘ اور مدد طلب کرنے میں جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو ایسے لوگوں تک پہنچنے کا مشورہ دیتی ہیں اور اس طرح انھیں اپنی ذہنی صحت کے لیے مسلسل مدد مل رہی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ کسی سے ایک سے زیادہ بار پوچھنا کہ کیا وہ ٹھیک ہیں ان کو کھولنے میں مدد کر سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم ایک دوسرے کے لیے ذمہ دار ہیں کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں سے رابطہ کریں۔‘
’آپ کو زندگی بدلنے والے مشورے پیش کرنے یا کچھ زیادہ گہری بات کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف ایک پیالی کے ساتھ بیٹھنے سے ہی فرق پڑ سکتا ہے۔‘
’میں جس چیز سے گزر رہی ہوں اس کی وجہ سے میرا فرض تھا کہ میں اس کے بارے میں بات کروں اور میں امید کر رہی ہوں کہ یہ بات چیت کا آغاز ہوگا۔‘