دن کے وقت سیاحوں کی آمد و رفت، شام ہوتے ہی سناٹا، کھیت اور کھجوروں کے جھنڈ، فرعونی مجسمے

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 43

عبدو کی اس سحر انگیز معلومات کے بعد اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف ایسے دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو کہ "کوئی اور خدمت میرے لائق"۔ چونکہ میرے اس وقت تک کے ذہن میں آئے ہوئے تقریباً سارے ہی سوالات کا جواب مل گیا تھا، اس لئے میں نے اس کی جاں بخشی کی اور اسے وہاں سے چلنے کا اشارہ کیا۔ ہم ایک بار پھر میمفس کی گلیوں میں نکل آئے تھے۔ یہاں چھوٹے بڑے ابو الہول کے کئی مجسمے بھی نظر آئے۔ لیکن قاہرہ والے ابو الہول کے برعکس وہ مردانہ چہرے والے شیر کے مجسمے تھے اور دوسرا وہ قد و قامت میں اس سے کہیں چھوٹے تھے۔ بعض جگہ تو وہ پہریدار محافظوں کی طرح راہداریوں کے دونوں اطراف قطار در قطار بیٹھے ہوئے تھے۔

میمفس کا منظر

جب ہم گئے تھے تو اس وقت میمفس ایک چھوٹا سا گاؤں نما قصبہ تھا۔ جس کی آبادی بمشکل چار پانچ ہزار ہوگی۔ وہ بھی مقامی کاشتکاروں اور عام مصریوں پر مشتمل تھی۔ دن کو یہاں سیاحوں کا خوب آنا جانا لگا رہتا تھا، تاہم دن ڈھلتے ہی یہ ایک چھوٹے سے خوابیدہ قصبے کا روپ دھار لیتا اور سر شام ہی ہر طرف سناٹا چھا جاتا تھا، جہاں چاروں طرف کھیت ہی کھیت، پھلوں اور سبزیوں کے باغات اور کھجوروں کے جھنڈ تھے۔ جن میں جگہ جگہ کھڑے یہ فرعونی مجسمے بڑا پراسرار منظر پیش کرتے تھے۔

مصریوں کی چالاکیاں

واپسی پر عبدو ایک بار پھر مجھے قاہرہ کے مضافات میں لے آیا۔ یہاں چھپروں کے نیچے ایک بازار قائم تھا جہاں مبینہ طور پر ان مقبروں سے نکلی ہوئی اشیاء اور بیش قیمت نوادرات اور زیورات فروخت کے لئے پیش کئے جاتے تھے۔ ان میں ہر طرح کے چھوٹے بڑے مجسمے اور مقبروں سے نکلے ہوئے ننھے منے تابوت وغیرہ تھے۔ ان تابوتوں کا ڈھکن اٹھایا جاتا تو اس کے اندر پتھر کی بنی ہوئی سیاہ رنگ کی ننھی سی ممی لیٹی ہوئی ہوتی تھی جس کو چٹکی سے اٹھا کر باہر بھی نکالا جاسکتا تھا۔ ایسی ساری پتھر کی بنی ہوئی چیزوں پر ابھی تک اس زمانے کی دھول مٹی جمی ہوئی تھی اور وہ کہیں سے تھوڑے بہت شکستہ بھی تھے۔ غالباً مقبروں کی کھدائی کے دوران کہیں سے برآمد ہوئے تھے۔

سودے کی کہانی

مجھے ایک ننھا سا منقش فرعونی تابوت پسند آیا جس سے ابھی تک مٹی جھڑ رہی تھی۔ دوکاندار نے کسی فرعون کا نام لے کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے بتایا کہ یہ چھوٹا سا تابوت اس کے مقبرے میں سے برآمد ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے اسٹال پر پڑے ہوئے درجن بھر اسی طرح کے تابوتوں کے بارے میں پوچھتا، اس نے یہ کہہ کر میرا منھ بند کر دیا کہ ایک مدفن سے ایسے سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے بڑے تابوت نکلتے ہیں۔

خیر، ہمارے درمیان سودے بازی شروع ہوئی اور اس نے مجھے ابتدائی طور پر چالیس پونڈ بتائے۔ ان کی فطرت کو سمجھتے ہوئے میں نے دس پونڈ کہے، نہیں مانا تو میں نے دو پونڈ اور بڑھا دیئے، لیکن وہ پندرہ پر آکر اکڑ گیا۔ اس نے تابوت مجھ سے لے کر واپس رکھ لیا۔ میں ابھی مڑ کر جانے ہی والاتھا کہ وہ اسے بارہ پاؤنڈ میں دینے پر آمادہ ہوگیا۔ میں پیسے نکال کر اسے دینے ہی والا تھا کہ عبدو تیزی سے آگے بڑھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر تقریباً مجھے گھسیٹتا ہوا ایک طرف لے گیا اور آہستگی سے کہنے لگا کہ "یہ سب نقلی اور دو نمبر مال ہے کیونکہ مصر میں اس قسم کی اصلی چیز بیچنا ایک سنگین جرم ہے۔ میرے ساتھ چلو، میں آپ کو وہاں لے کر جاتا ہوں جہاں سے یہ سب چیزیں تیار ہو کر آتی ہیں"۔

ایک نئے تجربے کی طرف

پھر وہاں سے نکل کر وہ قاہرہ کے ایک قدیم محلے میں جا گھسا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہتا ہوا ایک پرانے سے گھر کے اندر چلا گیا، جہاں کئی لوگ صحن میں بیٹھے گندھی ہوئی مٹی کو سانچوں میں ڈال کر اور بڑی مہارت سے تراش خراش کر بلامبالغہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسی ہی ننھی منی چیزیں بنا رہے تھے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب “بک ہوم” نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...