رضوان کے پاس سانس لینے کا بھی وقت نہیں ہوگا۔
برسوں تک بڑے ناموں کی بے انتہا اناؤں کے گرد چکر کاٹنے کے بعد بالآخر پی سی بی کو سمجھ آئی کہ دایاں کان پکڑنے کے لیے بایاں ہاتھ سر کے اوپر سے گھمانے کی ضرورت نہیں۔
آخر کار پاکستان کرکٹ بورڈ نے محمد رضوان کو 'دریافت' کر ہی لیا۔
جیسے انگلینڈ کے خلاف حالیہ ٹیسٹ سیریز کے بعد برینڈن میکلم حیران ہوئے کہ پاکستان کو اپنی ہوم کنڈیشنز کو سمجھنے میں اتنا وقت کیوں لگا، ویسے ہی محمد رضوان کو قیادت دینے کا یہ فیصلہ بھی خوشگوار حیرت کا باعث بنا ہے کہ شاید اب واقعی راہ راست کا ارادہ کر لیا گیا ہے۔
یہ حیرت اس بات سے بھی ہے کہ رضوان وہ کھلاڑی ہیں جو اپنے کیریئر کا بہترین وقت انٹرنیشنل کرکٹ سے دور گزارنے پر مجبور رہے، کیونکہ وکٹ کیپر سرفراز احمد کے کپتان ہوتے ہوئے ان کی جگہ نہ بن پانے کا جواز پیش کیا جاتا رہا، حالانکہ وہ تب بھی راشد لطیف کے بعد پاکستانی تاریخ کے بہترین وکٹ کیپر تھے جو رنز کے انبار بھی لگا سکتے تھے۔
اور جب رضوان کی ٹیم میں جگہ بنی بھی تو پے در پے پاکستان کے لیے فاتحانہ اننگز کھیلنے اور وکٹوں کے پیچھے ناقابل یقین درستگی دکھانے کے باوجود بہت سے مبصرین کے دلوں میں کھٹکتے رہے اور ایک شاندار کیریئر کو دھندلا کرنے کے لیے سٹرائیک ریٹ کا قومی بیانیہ بنایا گیا۔
یہ شاید اسی کراچی لاہور کی رقابت اور سرفراز احمد کا بہتر متبادل بن کر سامنے آنے کی قیمت تھی کہ شروع سے ہی قیادت کا موزوں ترین امیدوار ہونے کے باوجود ہمیشہ ان سے صرفِ نظر کیا جاتا رہا اور کسی بھی چیئرمین کو یہ جرات مندانہ قدم اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا، جو صحافتی حلقوں کی اکثریت کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
اب جبکہ بالآخر انہیں قیادت تھمانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو انہیں سانس لینے کی بھی مہلت نہ ہوگی کیونکہ ان کی پہلی ذمہ داری ہی سب سے مشکل ہے۔ وہ آسٹریلیا، جس کا ذکر ہوتے ہی پاکستانی شائقین بھی سب امیدوں سے دامن جھاڑ بیٹھتے ہیں، وہیں رضوان کو قائد کی حیثیت سے اپنی اہمیت ثابت کرنے کا مشکل ترین چیلنج درپیش ہوگا۔
مگر اس چیلنج سے نمٹنے کو جو سکواڈ انہیں فراہم کیا گیا ہے، وہ تمام باصلاحیت ناموں اور بھرپور تجربے پر مشتمل ہے۔ بابر اعظم، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی واپسی کے بعد محمد حسنین کی شاندار پیس اور فارم کا ہتھیار بھی دستیاب ہوگا۔
بطور کپتان محمد رضوان میں بھرپور صلاحیت ہے کہ وہ اپنے بولرز کو ہر مخالف بلے باز کے لیے مؤثر پلاننگ فراہم کر سکیں۔ مگر آسٹریلیا میں اپنے بولرز کی رہنمائی سے زیادہ بڑا چیلنج اس مضبوط آسٹریلوی پیس اٹیک کے سامنے اچھے رن ریٹ پر بڑے مجموعے بنانا ہوگا۔
بطور بلے باز رضوان کی صلاحیتوں پر کوئی بحث نہیں، اور بابر اعظم کے ہمراہ مڈل آرڈر میں وہ اننگز کو سنبھال سکیں گے، لیکن ٹاپ آرڈر میں فخر زمان ایک ایسے بلے باز ہیں جو ہر ٹیم اپنی الیون میں دیکھنا چاہے گی۔
پی سی بی نے فخر زمان کو سینٹرل کنٹریکٹ لسٹ سے ڈراپ کرنے کا فیصلہ ان کے فٹنس ٹیسٹ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ خود ایک مضحکہ خیز اور اپنی نوعیت میں نادر مثال ہوگی کہ کوئی کھلاڑی فارم اور ٹیلنٹ سے قطع نظر محض فٹنس ٹیسٹ کی بنیاد پر سینٹرل کنٹریکٹ سے خارج ہو جائے۔
کیونکہ اصل مدعا یہاں فٹنس نہیں، ڈسپلن ہے۔ پی سی بی کا اظہار وجوہ نوٹس ان سے بابر اعظم کے ڈراپ کیے جانے بارے تنبیہی ٹویٹ کے حوالے سے تھا۔ مگر فخر زمان نے نوٹس کا جواب اپنی قانونی ٹیم کے ذریعے دینے کا فیصلہ کیا، اور اب معاملہ قانونی لڑائی کا ہو چکا ہے، جس پر درست یا غلط کی بحث قبل از وقت ہے۔
مگر پھر بھی پی سی بی کی جانب سے یہ ایک جذباتی فیصلہ دکھائی دیتا ہے جس سے رجوع بہرحال کرنا ہی ہو گا کیونکہ اگلے چند مہینوں کے مصروف کیلنڈر، بالخصوص چیمپئینز ٹرافی کے ہنگام پاکستان ایسے میچ ونر کو ٹیم سے دور رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اگر فخر زمان اپنے جذبات پہ قابو رکھے رہیں اور معاملات مزید تُند نہ ہوں تو ان کی جلد واپسی خارج از امکان نہیں کہ ایسا قابلِ قدر کھلاڑی تیار کرنے میں جو محنت اور ہمت پڑتی ہے، اسے یوں بے وجہ گنوا دینا کوئی منافعے کا سودا نہیں۔
تزویراتی اعتبار سے اس سلیکشن میں پاکستان نے جو قابلِ تعریف فیصلے کیے ہیں، ان میں نمایاں ترین لیفٹ آرم چائنہ مین سپنرز فیصل اکرم اور عرفات منہاس کی شمولیت ہے۔ ماڈرن ون ڈے کرکٹ میں چائنہ مین سپنرز اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں اور پچھلے برس ورلڈ کپ میں بھی یہ پاکستان کے لیے ایک نمایاں تکنیکی خلا ثابت ہوا تھا۔
ایک اور مثبت فیصلہ افتخار احمد سے آگے بڑھتے ہوئے عرفان خان نیازی پہ سرمایہ کاری کا ہے۔ اسی طرح شاداب خان کے حوالے سے بھی بالآخر وہ فیصلہ لے لیا گیا جو پچھلے ورلڈ کپ سے پہلے لینے کی ضرورت تھی اور سفیان مقیم کی تیاری کا سوچا گیا ہے۔
مسابقتی معیار میں اضافے اور بینچ کی قوت بڑھانے کے پیشِ نظر یہ بھی بہت عمدہ فیصلہ ہے کہ زمبابوے ٹور سے ان سبھی کھلاڑیوں کو آرام دیا گیا جنھیں دسمبر میں جنوبی افریقہ کے سخت جاں حالات کا سامنا ہو گا۔
مگر اتنے عمدہ فیصلوں کے باوجود پی سی بی نے اپنی پرانی شہرت پوری طرح ترک نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جہاں فخر زمان کی فراغت سا جذباتی فیصلہ کیا، وہیں ایک ہی دن پہلے انگلینڈ کے خلاف سیریز جتوانے والے کپتان شان مسعود کو سینٹرل کنٹریکٹ کی بی کیٹیگری میں رکھتے ہوئے بریکٹ میں یہ اضافہ بھی کر دیا کہ ’یہ کپتانی سے مشروط ہے۔’
ایسے میں فقط دعا ہی کی جا سکتی ہے کم از کم محمد رضوان کے حوالے سے یہ فیصلہ کسی خاص بریکٹ سے مشروط نہ ہو جہاں ’شرائط و ضوابط لاگو ہیں‘ تحریر ہو کیونکہ پاکستان کرکٹ کو درست سمت میں بڑھنے کے لیے جو کپتان درکار تھا، اب اس کپتان کو بھی استحکام درکار ہو گا۔