شیر شاہ میں کمپیوٹر کے کچرے سے خالص سونے کی بازیابی کیسے ہوتی ہے؟
چاچا کے تیزاب سے جلے ہوئے ہاتھ سراج کو کچرے سے خالص سونا بنانا سِکھا رہے تھے۔ یہ کراچی میں شیر شاہ کباڑی مارکیٹ کا علاقہ ہے جہاں خیبرپختونخوا کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا سراج بڑے بڑے خواب لے کر آیا تھا۔
سراج اپنے گاؤں سے یہ طے کر کے نکلا تھا کہ کراچی پہنچ کر جو بھی کام سیکھے گا، اس میں مہارت حاصل کرنے کے بعد واپس جائے گا اور پھر اپنے دوستوں کو بھی وہی کام سکھائے گا۔ کروڑوں کے ہجوم والے شہر میں خرخیل کے سراج کو ایک اچھوتا کام مل بھی گیا جس کے بارے میں اس نے پہلی بار بچپن میں سنا تھا۔
ایک زمانے میں کراچی کے نیپا فلائی اوور سے گزرتے ہوئے نیچے بائیں ہاتھ پر ایک بڑا سارا میدان نظر آتا تھا، جس بیچوں بیچ سنہرے اور چاندی کے رنگوں کے ڈبے نما سٹرکچرز بنے ہوئے تھے۔ ان پر بڑے بڑے بینر آویزاں تھے، ’کچرا دو، سونا لو۔‘
یہ نعرہ گل بہاؤ ٹرسٹ نامی ایک ماحولیاتی این جی او نے لگایا تھا جو اُس زمانے میں اپنے اچھوتے تصور کی وجہ سے بہت مشہور ہوئی۔ کچرے سے مراد تھی روزمرہ کے دوران گھروں میں اکھٹا ہونے والا کوڑا کرکٹ اور فیکٹریوں کا ویسٹ یعنی فضلہ، اور سونے سے مراد تھی وہ تعمیراتی سٹرکچرز جو گُل بہاؤ اس کچرے کی مدد سے بنا کر دے رہی تھے۔
اس زمانے میں سراج پہلی بار کراچی آیا تھا۔ اس کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ تب اُس نے ایک دن پہلوان گوٹھ جاتے ہوئے گلستان کوچ کی کھڑکی سے یہ بینر پڑھا تھا اور وہ بہت حیران ہوا تھا کہ آخر کچرا دے کر سونا کیسے مل سکتا ہے۔
اُس وقت تو سراج گاؤں واپس چلا گیا لیکن چند ہی سال بعد اُس کی اپنے ایک کزن شاہد سے فون پر بات ہوئی جس نے بتایا کہ وہ کراچی میں ’کچرے سے سونا‘ بناتا ہے۔
سراج یہ سن کر اُچھل پڑا۔ ’کچرا دو، سونا لو‘ کا بینر اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ چند ہی روز بعد ہی وہ اپنے چاچا علی گل کے گھر کراچی میں تھا۔ سیدھے سادھے معصوم سراج کے ذہن میں تصویر یہ تھی کہ وہ کچرا جمع کرے گا، ڈھیر سارا کچرا، اور بدلے میں سونے کی اینٹ وصول کرلے گا، اور اسے توڑ کر برابر برابر تمام گاؤں والوں میں بانٹ دے گا۔ لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا۔
شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ
سراج سے میری ملاقات شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ کی بھول بھلیوں میں ایک گودام میں ہوئی۔ مجھے بھی اسی سونے کی تلاش تھی جس کے خواب دیکھتا ہوا سراج کراچی پہنچا تھا۔
یہیں سراج، اس کے کزن شاہد اور ان کے استاد چاچا سے بات ہوئی۔ لیکن ان کی درخواست پر ان کے فرضی نام استعمال کیے جا رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں، لیکن وہ اپنے کام کے معاملے میں حساس تھے اور وہ بھی اتنے کہ انھوں نے تصویر تک نہیں کھینچنے دی اور نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ شیر شاہ کی مارکیٹ میں کمپیوٹر کے کچرے سے سونا کیسے نکلتا ہے اور یہ کام ہوتا کیسے ہے۔
یہاں تک پہنچنا بھی آسان نہ تھا۔ بہت سی کچی سڑکوں، گوداموں اور ٹوٹے پھوٹے راستوں سے ہوتے ہوئے ایک شٹر والی دکان تھی جس کے اندر ایک کچا پکا وسیع گودام تھا۔ ایک بڑی سی چمنی چھت سے لٹکی ہوئی تھی جس کے نیچے مٹی اور ڈرموں کے مٹیالے چولہے بنے ہوئے تھے۔ ایک اور طرف بہت سے کنستر پڑے تھے اور ان کے برابر جلانے والی لکڑیوں کا ڈھیر۔
اس کاٹھ کباڑ کے ساتھ ہی سینکڑوں رنگ برنگے پلاسٹک کے ٹکڑے ایک انبار کی شکل میں موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کا رنگ ہرا اور نیلا تھا۔ پلاسٹک کے یہ ٹکڑے استعمال شدہ کمپیوٹرز کے ’مدر بورڈز‘ تھے۔ یہیں سراج کو پہلی بار علم ہوا کہ کچرے سے سونا کیسے نکلتا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کے علاقے شیر شاہ میں یوں تو مختلف نوعیت کی صنعتی اشیا اور استعمال شدہ مصنوعات افراط سے دستیاب ہوتی ہیں مگر یہ جگہ ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کیے گئے پرانے اور متروک کمپیوٹروں کا ٹھکانا بھی ہے۔
ان درآمد شدہ کمپیوٹروں میں سے استعمال شدہ مگر نسبتاً نئے کمپیوٹرز کو تو متروک مشینوں سے علیحدہ کر لیا جاتا ہے اور مرمت اور جوڑ توڑ کے بعد استعمال شدہ کمپیوٹروں کے دیگر کاروباری مراکز میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم درآمدی کھیپ میں موجود فرسودہ اور ناقابل استعمال کمپیوٹروں کی منزل شیر شاہ کے گودام ٹھہرتے ہیں۔
ایسے ہی گوداموں میں کمپیوٹرز کو کھول کر ان کے پرزے الگ کیے جاتے ہیں۔ پھر ان پرزوں کو توڑ کر ان سے تانبہ، لوہا، سونا اور دیگر دھاتیں حاصل کی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی یوم ڈاک، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محکمہ ڈاک کے ملازمین کو خراج تحسین
کمپیوٹر سے سونا کیسے نکلتا ہے؟
جس گاوں میں سراج کو کام ملا، وہاں ایک استاد جنھیں وہ صرف ’چاچا‘ کے نام سے بلاتے ہیں، اس کام کے ماہر ہیں۔ وہ کمپیوٹر کے استعمال شدہ پرانے مدر بورڈز اٹھاتے ہیں اور تیز آگ سے جلا کر ان پر چپکی ہوئی پنیں اور پرزے نرم کرنے کے بعد انھیں پلاس سے نوچ کر الگ کر دیتے ہیں۔
یہ کام کتنا تکلیف دہ تھا اُس کا اندازہ چاچا کے ہاتھ دیکھ کر ہو رہا تھا جن پر جگہ جگہ زخموں اور جلنے کے نشان تھے۔ دو گھنٹے میں چاچا نے تقریباً 150 بورڈز جلا کر اور کھرچ کر بلکل صاف کر دیے اور ان کے ایک طرف پِنوں، آئی سیز، ٹرانزسٹرز اور چِپس کا ایک ڈھیر جمع تھا۔
چاچا نے پھر اس ڈھیر میں سے مزید چھنٹائی شروع کر دی۔ ہر وہ پن اور پرزہ جس پر سنہرا رنگ واضح تھا، چاچا اُسے الگ کر رہے تھے۔ کچھ پرزوں میں سے انھیں سنہرے رنگ کے بال جیسے باریک تار بھی الگ کرنا پڑے۔ یوں ہوتے ہوتے اِن سنہرے تاروں، پِنوں اور باریک باریک اِسٹرپس کی ڈھیری سی بن گئی۔
اتنے میں شاہد کپڑے سے ڈھکا ایک الیکٹرانک ترازو لے آیا۔ تولنے پر یہ شاپر کوئی چار کلو سے اوپر کا نکلا۔
اب مرحلہ تھا چوہلوں میں آگ دہکانے کا۔ چاچا کی ہدایت پر سراج اور شاہد دونوں لکڑی کے موٹے موٹے کٹے ہوئے گُٹکے اٹھا لائے جو بظاہر درختوں کے بیچ تنے سے نکلے ہوئے تھے اور یہ ٹکڑے چوہلوں کے ارد گرد رکھ دیے گئے۔ آگ کو ہوا دینے کے مقصد سے بلوئر فین یا آگ بھڑکانے والا پریشر پنکھا لگا تو لکڑیاں سکینڈوں میں دھکنے لگیں۔
اتنے میں چاچا نے آواز لگائی ’ہٹو بیٹا‘۔ بقول شاہد چاچا کے ہاتھ میں ’سکـہ‘ نامی دھات تھی جو انھوں نے گرم گرم ’اڈوں‘ میں انڈیلنی شروع کر دی۔ چوہلے اتنے گرم ہو چکے تھے کہ سکہ چولہوں میں پڑتے ہی ابلنے لگا۔ پوچھنے پر صرف یہ پتہ چلا کہ یہ ایک کیمیکل ہے جسے ’سونا بنانے کا تیل‘ کہتے ہیں۔ اب اس ابلتے ہوئے مائع میں چاچا نے سارے دن کی محنت سے جمع کیا سنہرا کچرا ڈال کر شاپر بھی اسی میں جھاڑ دیا۔
تقریباً آدھے گھنٹے تک یہ سرخ لاوا دہکتا رہا۔ اس دوران ایک عجیب سی بو اٹھی۔ اڈوں یعنی چولہوں سے اٹھنے والا دھواں مسلسل رنگ بھی بدل رہا تھا۔
چاچا نے ایک اڈے میں چمٹا ڈال کر جو پکڑا تو سنہرا کچرا چولہے کی سطح کی شکل میں ڈھل کر ایک پلیٹ نما ٹکڑا بن چکا تھا جس پر راکھ چمٹی ہوئی تھی۔ اس دھکتی پلیٹ کو چاچا نے جیسی ہی قریب پڑے پانی کے کنستر میں بھگویا تو ’ششششششش‘ کی آواز کے ساتھ خوب ساری بھاپ اٹھنے لگی، جیسے گرم تیل میں پانی پڑے پیاز ڈال دئیے ہوں۔ واپس نکالنے پر یہ پلیٹ راکھ سے آزاد ہوکر کچھ صاف معلوم ہورہی تھی، چاچا نے کہا ’سراج دیکھو، چکی تیار ہو گئی۔‘
شاہد ایک کالے رنگ کا بوتل نما ڈرم دونوں ہاتھوں کے ساتھ احتیاط سے پکڑ کر اُس نالی کی طرف لے آیا جو چولہوں سے کچھ فاصلے پر پانی کے نل کے ساتھ ہی بنی ہوئی تھی۔ چاچا نے چکی کو سٹیل کی ٹرے میں رکھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ چکی کو تیزاب سے اسٹیل کی ٹرے میں اس لیے دھونا پڑے گا کیونکہ سٹیل کو نمک کے علاوہ کوئی بھی دوسرا کیمیکل نقصان نہیں پہنچاتا۔
جیسے جیسے چکی پر دھواں چھوڑتا شورے کا تیزاب گرا، چکی پگھل کر مائع میں تبدیل ہونے لگی، ٹرے میں سے اٹھتے دھوئیں کا رنگ بھی بدل رہا تھا اور اس بار بو بھی شدید تھی جو سراج کو نتھنوں میں گھستی محسوس ہورہی تھی۔
چاچا نے قریب بلا کر دکھایا کہ کیسے اب سونے کے ذرات اسٹیل کی ٹرے کی تہہ میں بیٹھ رہے تھے۔ اور باقی دھاتیں چکی پر ہی چپکی ہوئی تھیں، یہ پہلا موقع تھا جب سراج کو اصلی سونا اپنی آنکھوں کے سامنے جھل مل کرتا نظر آیا۔
اس کے بعد کا کام شاہد نے سنبھال لیا۔ اس نے پانی کے ذریعے مائع میں تبدیل ہونے والے چکی کے ایک حصے کو نالی میں بہا دیا اور باقی ٹکڑا سائڈ میں رکھ دیا۔ اس ٹکڑے میں سے جو دھاتیں بعد میں علیحدہ کی جائیں گی وہ بھی قیمتیں ہونگی لیکن یقیناً سونے جتنی نہیں۔
خیر، اب نیچے ٹرے میں سنہرے ذرات صاف نظر آنے لگے تھے۔ اس کے بعد ان ذرات کو مزید دو تین رنگ برنگے کیمیکلز کے ذریعے دھویا گیا لیکن بہت احتیاط کے ساتھ، کہیں نالی میں بہانے پر ایک ذرہ بھی استعمال شدہ کیمیکل کے ساتھ نہ نکل جائے۔ ہر بار یہ ذرات زیادہ سنہرے محسوس ہورہے تھے۔
پیچھے سے چاچا کھٹالی یعنی چھوٹی سی پیالی لے آئے جو سونے یا چاندی جیسی دھات پگھلانے کے لیے استعمال میں آتی ہے۔ کھٹالی جانوروں کے کُھروں، ہڈیوں کی راکھ یا چکنی مٹی سے بنائی جاتی ہے جو شدید حرارت کے باوجود ٹوٹتی نہیں ہے۔
شاہد سے لے کر چاچا نے سونے کے ذرات احتیاط سے کھٹالی میں ڈال دیے اور تقریباً 20 منٹ تیز آنچ پر ان ذرات کو دھکاتے رہے۔ اس دوران وہ بار بار ایک چمٹی کی مدد سے کھٹالی باہر نکالتے اور اس پر نمک ڈالتے تاکہ سونے کی ذرات کھٹالی کی تہہ پر چپک نہ جائیں۔
آگ تیز سے تیزتر ہو چکی تھی، چند اور منٹوں کے بعد دہکتے شعلوں کے بیچوں بیچ غائب ہوجانے والی کھٹالی کو چاچا نے چمٹی سے اٹھا کر باہر نکال لیا اور ایک تغاری نما برتن میں انڈیل دیا۔ ایک چمکتا دمکتا انڈا نما ٹکڑا برتن میں گرا جو آگ کی حدت سے دھک رہا تھا۔ چاچا نے یہ ٹکڑا اُسی چمٹی سے اٹھا کر پانی کے ڈونگے میں ڈال کے ٹھنڈا کردیا۔
یہ تھا سونا، خالص سونا جو کچرے سے نکلا تھا۔ سراج کی آنکھوں کے سامنے نکلا تھا۔ سراج کو یہ کام اچھا لگا۔ وہ چاچا کے ساتھ روز گودام آ کر یہاں کام کرنا چاہتا ہے لیکن جانتا کہ یہ کام گاؤں میں نہیں ہوسکتا۔ گاؤں میں سب کچھ ہے لیکن مدر بورڈز نہیں ہیں۔ سونا بنانے والا کچرا نہیں ہے۔
کراچی میں ای ویسٹ کے ذریعے سونا نکالنے والے افراد کا سناروں اور صرافوں کے نیٹ ورک سے مضبوط تعلق ہے اور سنار ان فیکڑیوں سے نکلنے والے سونے کا معائنہ کرتے ہیں کہ وہ کتنے قیراط کا ہے۔ اسی طرح ان میں دیگر اجزاء کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ زیورات بناتے وقت کیا ممکنہ تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں۔ اس کے بعد اُس روز کے سونے کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے سودا ہو جاتا ہے۔
وصول شدہ رقم میں سے فیکٹری مالکان اپنا حصہ نکال کر باقی مزدوروں میں دہاڑی کے حساب سے تقسیم کرتے ہیں اور ایک حصہ خام مال، کیمیکلز اور لکڑی خریدنے کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے ملک میں موجودہ عدالتی نظام انگریز حکومت سے ہی مستعار لیا گیاہے، جس کی روح انصاف کرنا اور اس طرح کیا جائے کہ ہوتا نظر آئے
مدر بورڈ کہاں سے آتے ہیں؟
پاکستان ہر سال اوسطاً 954 کلوٹن ای فضلہ درآمد کرتا ہے، جبکہ 433 کلوٹن ای فضلہ ملک میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک مثلاً برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، دبئی، ایران، ہانگ کانگ، جرمنی، اسپین، کوریا، تھائی لینڈ اور کچھ عرب ممالک سے ای فضلہ کی نیلامی ہوتی ہے، جس کے بعد اسے ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور بعض افریقی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔
یورپ، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، ایران اور سعودی عرب سے پورٹ کے ذریعے آنے والے اس سامان کو پاکستان پہنچانے کے لیے پاکستان کی حکومت سے این او سی لی جاتی ہے۔ جس کے بعد یہ سامان کراچی کے انٹرنیشنل ٹرمنِل پورٹ پر پہنچتا ہے۔
ٹرمِینل سے کنٹیرز کے ذریعے یہ سامان شیرشاہ کباڑی مارکیٹ اور پھر وہاں سے شہر کے مختلف کونوں میں بنے بازاروں تک پہنچتا ہے۔
درآمد شدہ الیکٹرانک مصنوعات کی جانچ کے بعد انہیں چار کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں اے، بی، سی اور ڈی کیٹگری شامل ہوتی ہیں۔
اے اور بی کیٹیگری میں مکمل طور پر فعال ڈیوائسز ہوتی ہیں جو اسی حالت میں لیکن سستے داموں بیچی جاتی ہیں۔ س کیٹگری میں وہ ڈیوائس ہوتے ہیں جنھیں مرمت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ڈی کیٹگری میں ایسے آلات ہوتے ہیں جن میں سے صرف قیمتی اشیا نکال لی جاتی ہیں اور باقی مواد سکریپ ڈیلر لے جاتے ہیں۔ یہی کیٹگری دراصل ای ویسٹ کے طور پر فروخت ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شوکت یوسفزئی پارٹی قیادت پر پھٹ پڑے، عمران کی رہائی کیلئے موثر اقدامات نہ اٹھانے کا الزام
ای ویسٹ کا کاروبار کتنا بڑا ہے؟
پاکستان میں ای ویسٹ کی غیر قانونی درآمد، غیر منظم ری سائیکلنگ، اور غیر محفوظ طریقوں سے پروسیسنگ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی، اور فیصل آباد میں ای ویسٹ کی ری سائیکلنگ اور ڈمپنگ مسلسل کی جا رہی ہے۔
کراچی کے ایک مقامی ای ویسٹ ڈیلر کے مطابق شیر شاہ میں ای ویسٹ کے کام کرنے والے اڈوں کی تعداد درجنوں میں ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ ای ویسٹ کی ری سائیکلنگ ایک بڑی صنعت بن چکی ہے۔
لیکن ای فضلہ کی ری سائیکلنگ کا کوئی منظم نظام موجود نہیں ہے۔ ایک ڈیلر نے بتایا کہ کراچی کے بعد پشاور، گوجرانوالہ، لاہور، اور فیصل آباد ای فضلہ کے ثانوی بازاروں کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
شیر شاہ کے ہی ایک ای ویسٹ ڈیلر نے بتایا کہ اس کام میں چھوٹے ڈیلرز سے لے کر بڑی کمپنیاں تک شامل ہیں۔ ڈیلرز اور گودام مالکان اس دھندے میں اپنے نام کے ساتھ آتے ہیں لیکن بعض اوقات ان کے پیچھے بڑے کاروباری گروپ ہوتے ہیں جو قوانین کے مطابق ای ویسٹ کی ڈمپنگ کے اخراجات سے بچنے کے لیے انہیں مدد فراہم کرتے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ای فضلہ کی سستے داموں دستیابی نے بہت سے غیر تربیت یافتہ افراد اور اسکریپ کا کام کرنے والے گودام مالکان کی توجہ حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ سے وہ دیگر کام چھوڑ کر اس جانب راغب ہو رہے ہیں، جہاں انہیں نہ صرف زیادہ منافع مل رہا ہے بلکہ فوری طور پر بھی۔
لیکن ایک مسئلہ ای ویسٹ سے جڑے نقصانات بھی ہیں۔
ای ویسٹ کا کاروبار اور صحت و ماحول پر اثرات
عالمی صحت کی تنظیم کے مطابق، ای ویسٹ کی ری سائیکلنگ کے دوران مختلف زہریلی گیسیں، کیمیکلز، اور دھاتیں جیسے آرسینک، سیسہ، پارہ، ڈائی آکسن، بیریم آکسائیڈ، فاسفورس، نِکل اور دیگر خطرناک عناصر ماحول اور انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
کراچی کے مقامی ڈاکٹر منصور علوی کے مطابق ای-ویسٹ کی وجہ سے مختلف بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن میں دمہ، پھیپھڑوں کی بیماریاں، بچوں کی جسمانی نشوونما میں کمی، اعصابی مسائل، آنتوں کی سوزش، سانس کی بیماریاں، جلد کی بیماریاں، اسہال، گیسٹرانٹس اور آنکھوں میں انفیکشن شامل ہیں۔
اسی طرح ای ویسٹ سے نکلنے والے اجزا حاملہ خواتین کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ یہ بیماریاں عموماً وہ مزدور اور خاص طور پر بچے شکار ہوتے ہیں جو غیر منظم ری سائیکلنگ کے عمل میں براہ راست شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر علوی کے بقول اس کام کے دوران کینسر کے خلیات بننے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ تر مزدور طبقہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتا ہے کیونکہ انہیں پہلے ہی صاف پانی اور اچھی کوالٹی کا کھانا میسر نہیں ہوتا۔ ای-ویسٹ میں زہریلے اور قیمتی مواد دونوں شامل ہوتے ہیں، مگر قیمتی مواد کو نکالنے کی قیمت انسانی زندگی ہے۔
ماہر ماحولیات احسن تنویر کہتے ہیں کہ ای-ویسٹ کی پروسیسنگ میں جو عام اور غیر قانونی تکنیکیں استعمال کی جا رہی ہیں، جیسے ’اوپن برننگ‘ یا کھلی جگہوں پر جلانا اور ’ایسڈ لیچنگ‘، یہ بہت خطرناک ہیں۔ ان کے مطابق ان سے نہ صرف زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں بلکہ خطرناک صورت حال پیدا ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
بھاری دھاتیں جیسے سیسہ (لیڈ) اور زِنک ہوا میں دھواں بن کر اُڑتے ہیں جو سانس کے زریعے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں اور سنگین صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ خصوصاً وہ مزدور اور بچے جو مسلسل اس ماحول میں رہتے ہیں ان گیسوں کے متاثرین ہوتے ہیں۔
احسن تنویر نے بتایا کہ کراچی میں کیے گئے مشاہدات سے پتہ چلا ہے کہ ہوا اور مٹی میں زنک اور سیسہ جیسے دھاتوں کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ان دھاتوں کی وجہ سے نہ صرف شہریوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے بلکہ یہ ماحول کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں اور ہوا میں ان دھاتوں کی زیادہ مقدار کسی حد تک موسم پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
لیکن سراج اور شاہد اس کام کے پیچھے صحت کے چھپے خطرات اور سنگینی سے ناواقف ہیں۔ معاشی مجبوریوں کی بنا پر وہ یہ خطرات مول لینے پر مجبور ہیں۔
سراج نے کہا کہ ’ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ نہیں ہوگا، اگر کچھ ہونا ہوتا تو شاہد یا چاچا کو کب کا ہو چکا ہوتا، وہ دونوں تو ٹھیک ہیں نا؟ بتاؤ تم؟ چاچا کو زخم ہوتا ہے لیکن جب وہ ہاتھ پر مرہم لگاتا ہے تو آرام آ جاتا ہے، اور جب دھواں زیادہ ہوتا ہے تو ہم منہ پر کپڑا باندھ لیتے ہیں۔‘
’اب میں باہر جا کر کوئی اور کام کروں گا تو خرچہ الگ ہوگا، آنے جانے کا کرایہ بھی لگے گا۔ ویسے بھی دیہاڑی پر کام مشکل سے ملتا ہے، پورا شہر مزدوروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ہُنر ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اور پھر یہاں اپنوں کے ساتھ ہوں۔‘
’جب کام اچھی طرح سیکھ جاؤں گا تو مزدوری سے زیادہ پیسے کماؤں گا۔ باقی ہم تو ٹھنڈے علاقے کے سخت جان لوگ ہیں، یہ دھواں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘