مغل بادشاہ اکبر کے آخری ایام: باغی بیٹے کے ساتھ اختلافات کی کہانی

ہندوستان کے شہنشاہ جلال الدین اکبر کے آخری ایام قریبی لوگوں کی موت کے سوگ میں گزرے۔ اس دوران نہ صرف ان کی والدہ حمیدہ بیگم اور دو بیٹوں نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں بلکہ ان کے بڑے بیٹے سلیم نے ان کے خلاف بغاوت بھی کی۔

جب اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک بیربل مارے گئے تو اکبر نے دو دن تک کھانے یا پانی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ پھر ماں کے بے حد اصرار پر انھوں نے کھانا شروع کیا۔

ایم ایم برکی اکبر کی سوانح عمری ’اکبر دی گریٹ مغل‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اکبر کے دو بیٹوں مراد اور دانیال نے بہت چھوٹی عمر میں شراب پی کر خودکشی کر لی۔ ان کے تیسرے بیٹا سلیم کو بھی شراب نوشی کی عادت تھی۔‘

ان کے مطابق ’اس نے نہ صرف اکبر کے خلاف بغاوت کی بلکہ قریبی مشیر ابوالفضل کو بھی قتل کروا دیا اور ایک باپ کے طور پر اکبر کی ناکامی اس کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ تھا۔‘

ابو الفضل کا قتل

ابو الفضل کا قتل

شیخ فرید بخشی بیگ نے ابوالفضل کی وفات کی خبر دی تو اکبر زور سے چیخے اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔

وہ کئی دن بہت اداس رہے اور پھر انھوں نے اسد بیگ سے کہا کہ ’اگر سلیم بادشاہ بننا چاہتا تھا تو اسے مجھے قتل کر دینا چاہیے تھا اور ابوالفضل کی جان بچا لینی چاہیے تھی۔‘

اسد بیگ نے لکھا، ’اس دن اکبر نے نہ داڑھی منڈوائی اور نہ افیون کھائی۔ انھوں نے سارا دن روتے ہوئے گزارا۔ وہ کئی دن تک روتے رہے اور اپنے بیٹے سلیم کو اس کی حرکتوں پر کوستے رہے۔‘

عنایت اللہ نے ابوالفضل کے بعد اپنی سوانح عمری ’اکبر نامہ‘ مکمل کی۔ انھوں نے لکھا کہ ’اکبر نے سلیم کو اس جرم کے لیے کبھی معاف نہیں کیا۔‘

اکبر کے اپنے بیٹے سلیم سے اختلافات ان کی وفات سے 16 سال پہلے شروع ہو چکے تھے۔

اکبر نے اپنے پہلے دورہ کشمیر کے دوران شاہی حرم کی خواتین کو لانے کی ذمہ داری سلیم کو سونپی تھی لیکن وہ خراب سڑک کا بہانہ بنا کر واپس لوٹ گئے۔

ابوالفضل ’اکبرنامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہو سکتا ہے یہ سچ ہو، لیکن اکبر اپنے حرم کی عورتوں کا بڑے شوق سے انتظار کر رہے تھے۔ ان کا غصہ مشہور تھا۔‘

موسلا دھار بارش میں غصے سے آگ بگولہ ہوتے اکبر خود گھوڑے پر سوار ہو کر ان عورتوں کو لانے کے لیے نکلے۔ انھوں نے حکم دیا کہ سلیم کو ان کے سامنے نہ لایا جائے۔

اسی سال نو جولائی کو اکبر کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔

ابوالفضل لکھتے ہیں کہ درد کی تکلیف میں اکبر نے اپنے بیٹے پر زہر دینے کا الزام لگایا۔

دو سال بعد جب اکبر دوبارہ کشمیر گئے تو سلیم نے بغیر اجازت ان کے خیمے میں داخل ہونے کی جرات کی۔ غصے میں آ کر اکبر نے پھر حکم دیا کہ سلیم ان کی نظروں کے سامنے نہ آئے لیکن کچھ دیر بعد ہی اکبر نے سلیم کو معاف کردیا۔

جب اکبر کے بیٹے مراد کی دو مئی 1599 کو وفات ہوئی تو اکبر نے سلیم کو مراد کی جگہ جنوبی انڈیا کی طرف فوجی مہم پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن سلیم وقت پر نہیں پہنچ سکے اور اکبر کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے دانیال کو بھیجیں۔

خود اکبر نے بھی جنوب جانے کا فیصلہ کیا۔ اکبر نے سلیم کو میواڑ کے رانا کو سنبھالنے کی ذمہ داری بھی دی جو مغلوں کی مخالفت کر رہے تھے۔

لیکن اس بار بھی سلیم نے حکم عدولی کی، وہ اجمیر میں ہی رک گئے اور آگے نہ گئے۔

سلیم نے الہ آباد جانے کا فیصلہ کیا اور دارالحکومت آگرہ میں اکبر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخت پر قابض ہونے کی کوشش کی۔

الہ آباد پہنچنے کے بعد سلیم نے خزانے کے ایک حصے پر قبضہ کر لیا اور خود کو بادشاہ قرار دیا۔

اسیر گڑھ پر قبضہ کرنے کے بعد اکبر احمد نگر پر بھی حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن انھوں نے اس صورتحال کو بھانپ کر سلیم سے نمٹنے کے لیے فوراً واپسی کی ٹھانی۔

مارچ 1602 میں سلیم نے اکبر کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے مل کر ان کے لیے عزت و تکریم کا اظہار کرنا چاہتا ہے تاہم اکبر نے سلیم سے ملنے سے انکار کر دیا۔ پھر خبر آئی کہ سلیم 30 ہزار سپاہیوں کے ساتھ آگرہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ’اکبر نے سلیم کو سخت پیغام بھیجا کہ اگر وہ اپنی خیریت چاہتے ہیں تو واپس الہ آباد لوٹ جائیں۔ اور اگر وہ حقیقتاً خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں تو عدالت میں تنہا حاضر ہوں۔‘

سلیم کی سمجھ میں معاملہ آ گیا اور وہ فوری اٹاوہ سے الہ آباد واپس لوٹ گئے۔ سلیم کو اقتدار کے مرکز سے دور رکھنے کے لیے اکبر نے انھیں بنگال اور اڑیسہ کا گورنر مقرر کیا لیکن سلیم نے وہاں جانے سے انکار کر دیا۔

اس دوران اکبر کی والدہ حمیدہ بیگم اور خالہ گلبدن بیگم نے باپ بیٹے کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے کی مہم شروع کر دی۔

انھوں نے اکبر سے سلیم کو معاف کرنے کی درخواست کی۔ اکبر ان دونوں عورتوں کا بہت احترام کرتے تھے، اس لیے انھوں نے یہ درخواست مان لی۔ انھوں نے اپنی ایک بیوی سلمیٰ سلطان بیگم کو بھیجا کہ سلیم کو اپنے ساتھ واپس لائیں۔

ابوالفضل لکھتے ہیں ’اکبر نے ان کے ساتھ ایک ہاتھی، ایک گھوڑا اور ایک لباس سلیم کو تحفے کے طور پر بھیجا تھا۔ جب سلیم سلمیٰ کے ساتھ آگرہ کے قریب پہنچے تو انھوں نے درخواست کی کہ ان کی دادی ہاتھ پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لے جائیں تاکہ وہ اکبر کے قدموں میں اپنا سر رکھ سکیں۔‘

اگلے دن شہزادہ سلیم نے اکبر کے قدموں میں سر رکھ کر ان سے معافی مانگی۔ اکبر نے انھیں گلے لگایا اور 350 ہاتھی اور 12 ہزار سونے کے سکے تحفے میں دیے۔

سلیم کے دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے اکبر نے اپنی دستار اتار کر اپنے بیٹے کے سر پر رکھ دی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اکبر کے جانشین کے طور پر سلیم کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں تھا۔

لیکن 1604 تک سلیم کی بغاوت کی خبر ایک بار پھر اکبر کے کانوں تک پہنچی۔ اکبر نے اس بار فیصلہ کیا کہ وہ خود سلیم کو قابو کرنے جائیں گے۔

شدید بارش کی وجہ سے ان کی روانگی میں تاخیر ہوئی۔ اسی دوران خبر آئی کہ ان کی والدہ حمیدہ بانو شدید بیمار ہیں اور اکبر واپس آگرہ چلے گئے۔

عنایت اللہ ’اکبرنامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اکبر اپنی ماں کے پاس بیٹھے رہے۔ کئی بار انھوں نے ماں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔‘

دنیا میں عظیم ترین بادشاہ کے طور پر پہچان رکھنے والے اکبر اپنی ماں سے آخری بار بات نہ کر سکے۔

29 اگست 1604 کو ہمایوں کی اہلیہ اور اکبر کی والدہ نے بے ہوشی کی حالت میں آخری سانس لی۔ اکبر نے اپنے سر کے تمام بال اور مونچھیں منڈوا دیے، دستار اتار دی اور سوگ کا لباس پہن لیا۔

ان واقعات کے بعد سلطنت کے انتظامی امور پر اکبر کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ اس وقت اکبر کی بنائی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے بال سفید ہو چکے تھے اور چہرے پر اداسی کی لکیریں نمایاں تھیں۔

22 ستمبر 1605 کو پیٹ میں درد سے اکبر کی طبیعت بگڑ گئی۔ ان کے معالج حکیم علی جیلانی کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے بادشاہ سے کہا کہ کوئی دوا لینے سے پہلے ایک دن تک کچھ کھانا پینا نہیں ہے۔

اگلے دن انھیں پینے کے لیے صرف سوپ دیا گیا۔ ان کے پوتے خسرو بیماری کے دوران ان کے بستر پر موجود رہے لیکن اکبر کے معالج حاکم علی نہیں جان سکے کہ انھیں کیا بیماری ہے۔

عنایت اللہ ’اکبر نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اپنی بیماری کے ابتدائی دنوں میں، اکبر نے ہر روز جھروکھا درشن کی رسم ادا کی کیونکہ وہ عام لوگوں کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ شدید بیمار ہیں۔ لیکن پھر انھوں نے بستر پکڑ لیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ شاہی احکامات دیتے رہے۔ لیکن 10 دن کے بعد انھیں بخار آگیا اور ان کا جسم کمزور ہو گیا۔‘

اکبر کے آخری دنوں میں اکبر کے دو قریبی ساتھیوں مان سنگھ اور عزیز کوکا نے اپنے جانشین کے انتخاب کے لیے اجلاس بلایا۔

ان دونوں نے اجلاس کے شرکا کو یاد دلایا کہ اکبر کا رجحان سلیم کے حق میں نہیں تھا۔

اسد بیگ اپنی کتاب ’وقائعِ اسد بیگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’مان سنگھ اور عزیز نے اجلاس میں موجود لوگوں سے کہا کہ اکبر سلیم کو اپنا جانشین نہیں بنانا چاہتے تھے۔ انھوں نے سلیم کی جگہ خسرو کا نام تجویز کیا لیکن اکبر کے ایک اور درباری سعید خان برہہ نے سلیم کی حمایت کی اور اجلاس سے اٹھ کرچلے گئے۔‘

سلیم نے جمنا ندی کے دوسری طرف اپنا پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔

ایرا مکھوتی اپنی کتاب ’اکبر دی گریٹ مغل‘ میں لکھتی ہیں کہ ’راجہ مان سنگھ نے سلیم کے تخت پر دعویٰ کرنے کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ جب سلیم کشتی کے ذریعے آگرہ کے قلعے میں آئے تو انھوں نے اسے گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی۔‘

لیکن سلیم کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا کہ وہ قلعہ میں داخل نہ ہوں ورنہ انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ وہ کشتی کے ذریعے واپس اپنی حویلی چلے گئے۔

سلیم اپنی حویلی میں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ شام تک ہوا کا رخ سلیم کے حق میں ہو چکا تھا۔ سب سے پہلے شیخ فرید اور سعید خان برہہ مبارکباد دینے آئے۔

اس کے بعد اکبر کے درباریوں کی ایک بڑی تعداد ان کی حمایت میں آ گئی۔ سعید خان نے سلیم سے وعدہ کیا کہ تخت پر آنے کے بعد وہ خسرو یا ان لوگوں کو سزا نہیں دیں گے جنھوں نے پہلے سلیم کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

شام تک مرزا عزیز کوکا جو سلیم کے مخالف تھے وہ بھی مبارکباد دینے پہنچے لیکن سلیم نے اس کے ساتھ بدتمیزی نہیں کی۔

جب مان سنگھ کو یقین ہو گیا کہ خسرو کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا تو وہ خود انھیں اسے سلیم کے پاس لے گئے۔

اکبر کی وفات

اکبر کی وفات

مونس فاروقی اپنی کتاب ’دی پرنس آف دی مغل ایمپائر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اپنے دورِ حکومت کے آخر تک اکبر کسی طرح سلیم کے مغلیہ تخت کے دعوے کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے۔‘

سلیم اپنے والد کی خواب گاہ میں داخل ہوئے تو شہنشاہ اکبرابھی تک سانس لے رہے تھے۔

اپنے والد کی ہدایت پر انھوں نے اکبر کا تاج اور کپڑے پہنے اور اکبر کی تلوار کمر پر لٹکا دی۔ یہ تلوارمغل بادشاہ بابر کی تھی۔ انھوں نے اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل ہمایوں کو بھی دی تھی۔

سلیم نے باپ کے قدموں میں سر جھکا دیا۔ اسد بیگ لکھتے ہیں ’اکبر نے سلیم کو اپنی آنکھوں سے مغل راج کا تاج پہنتے اور تخت سنبھالتے دیکھا۔‘

شہنشاہ اکبر نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے درباری نئے حکمران کے سامنے سر جھکا رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں۔

وہ دن 27 اکتوبر 1605 تھا۔ اس وقت ان کی عمر 63 سال تھی اور انھوں نے انڈیا پر 49 سال حکومت کی تھی۔ پاروتی شرما اکبر کی سوانح عمری ’ہندوستان کے اکبر‘ میں لکھتی ہیں ’اکبر نے سلیم کو نہ صرف اقتدار کی علامت کے طور پر تاج، لباس اور تلوار دی، بلکہ انھوں نے اپنی کچھ ذاتی چیزیں جیسے تسبیح اور خوش بختی کی علامت سمجھا جانے والا ہار بھی سلیم کو سونپ دیا۔‘

اپنے والد کی موت کے ایک ہفتے بعد 36 سالہ سلیم نے ان کی جگہ سنبھال لی۔ اب وہ محض سلیم یا اکبر کے پسندیدہ ’شیخو بابا‘ نہیں رہے تھے۔

ہندوستان کے تخت پر بیٹھنے والے اس شخص کا نیا نام نورالدین محمد جہانگیر تھا۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...