کھانے میں تھوک اور پیشاب ملانے کی افواہی ویڈیوز سے بھارتی ریاستوں میں شور مچ گیا
کھانے پینے کی اشیا میں ’تھوک‘، ’پیشاب‘ اور مٹی ملانے کی مبینہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد بھارت کی دو ریاستوں اتراکھنڈ اور اُتر پردیش کی حکومتیں ایسے افراد کے خلاف سخت جرمانے اور قید کی سزا کے قوانین بنانے پر غور کر رہی ہیں۔
شمالی ریاست اتراکھنڈ خلاف ورزی کرنے والوں پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جبکہ اتر پردیش اس معاملے کے حل کے لئے سخت قوانین متعارف کرنے پر غور کر رہی ہے۔
حکومت کی یہ ہدایات سوشل میڈیا پر ایسی غیر مصدقہ ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد جاری کی گئی ہیں جن میں مقامی دکانوں اور ریستورانوں میں کھانا تیار کرنے والوں کو اس کے لیے تھوکتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اور ایک ویڈیو میں ایک گھریلو ملازمہ کو اپنے پکائے ہوئے کھانے میں پیشاب ملاتے ہوئے پایا گیا ہے۔
گذشتہ روز بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے بھی دکانوں سے متعلق ایک ایسا ہی حکم نامہ جاری کیا، جس کا مقصد ’کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ‘ روکنا بتایا گیا ہے، لیکن سماجی اور سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس حکمنامے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں۔
اس حکم نامے میں یہ کہا گیا ہے کہ ’کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے تمام دکاندار اپنے فوڈ سینٹرز پر آپریٹرز، پروپرائٹرز اور منیجرز کے نام اور پتہ ظاہر کرنے کے لیے پابند ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد لوگوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ كثير لوگوں نے ریاستوں میں فوڈ سیفٹی پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم کچھ ویڈیوز کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کوشش بھی قرار دی جا رہی ہے، جن پر یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں اُن کی مکمل تحقیق کے بعد ان الزامات کو مسترد کر دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ کھانے میں پیشاب شامل کرنے والی خاتون مسلمان تھیں، لیکن تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خاتون ہندو تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ سخت قوانین ضروری ہیں اور ان کا مقصد ’کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ‘ روکنا ہے، لیکن حزب اختلاف کے رہنماؤں اور قانونی ماہرین نے ان قوانین کی افادیت پر سوال اٹھائے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ انہیں ایک مخصوص کمیونٹی کو بدنام کرنے کے لئے غلط طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کے ایک بڑے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اتر پردیش کی جانب سے تجویز کردہ آرڈیننس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ان کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فساد بڑھ سکتا ہے اور پہلے سے غیر محفوظ اقلیت کو نشانہ بنایا جانے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
فوڈ سیفٹی بھی بھارت میں ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈ اتھارٹی (ایف ایس ایس اے آئی) کے مطابق، غیر محفوظ کھانا سالانہ تقریباً 60 کروڑ انفیکشنز اور چار لاکھ اموات کا سبب بنتا ہے۔
بھارت میں ماہرین خوراک کے ناقص معیار کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں، جن میں عمومی قوانین کا نفاذ اور آگاہی کی کمی شامل ہے۔ تنگ باورچی خانے، گندے برتن، آلودہ پانی، اور نامناسب نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے کے طریقے کھانے کے معیار سے متعلق خدشات بڑھاتے ہیں۔
لہٰذا، جب دکانداروں کی کھانے میں تھوکنے کی ویڈیو سامنے آئی، تو لوگ حیران اور مشتعل ہو گئے۔ اس کے بعد اتراکھنڈ نے ایسے افراد پر بھاری جرمانوں کا اعلان کیا اور پولیس کو یہ ہدایات جاری کیں کہ ہوٹل کے عملے کی تصدیق کی جائے اور باورچی خانے میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کو یقینی بنایا جائے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے پولیس کو ان ٹھیلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے والے ہر ملازم کی تصدیق کرنی چاہیے۔
ریاست نے کھانے کے مراکز کی مالکان کو نام ظاہر کرنے، باورچیوں اور ویٹرز کے لیے ماسک اور دستانے پہننے کو یقینی بنانے اور ہوٹلوں اور ریستورانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا بھی ارادہ کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آدتیہ ناتھ دو آرڈیننس لانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے تحت کھانے میں تھوکنے پر 10 سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔
جولائی میں انڈین سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ اور اتر پردیش کی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عملدرآمد روک دیا تھا، جن میں کہا گیا تھا کہ ہندوؤں کے سالانہ مذہبی تہوار ’کانور یاترا‘ کے لیے جانے والوں کے راستے پر آنے والے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے اسٹالز اپنے تمام دکانداروں کے نام اور پتہ ظاہر کریں۔
درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ان ہدایات میں غیر منصفانہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ ان کے کاروبار پر منفی اثر ڈالیں گے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس رشی کیش روئے اور جسٹس ایس وی این بھٹی نے اتراکھنڈ اور اتر پردیش کی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر کہا کہ ’کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے دکانداروں کو یہ لکھ کر لگانا چاہیے کہ وہ کیا فروخت کر رہے ہیں، لیکن انہیں اپنے یا اپنے ملازمین کے نام ظاہر کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘
بدھ کے روز ریاست کے برکانکی قصبے میں پولیس نے ریستوران کے مالک محمد ارشاد کو روٹی تیار کرتے وقت مبینہ طور پر اس پر تھوکنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ارشاد پر امن اور مذہبی ہم آہنگی کو خراب کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں اتراکھنڈ کے علاقے مسوری میں پولیس نے دو افراد نوشاد علی اور حسن علی کو چائے کی پتیلی میں تھوکنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان پر صحتِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
گرفتاری سے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ان افراد کے تھوکنے کی ویڈیوز کو مذہبی رنگ دیا گیا، جب کئی ہندو قوم پرست اکاؤنٹس نے انہیں ’سپٹ جہاد‘ یا ’تھوک جہاد‘ کا واقعہ قرار دینا شروع کیا۔
یہ اصطلاح ’لو جہاد‘ پر مبنی ہے، جسے بنیاد پرست ہندو گروہوں کی جانب سے پیش کیا گیا، جو اسے مسلمانوں پر ہندو خواتین کے مذہب کو تبدیل کرنے کے الزام لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ’تھوک جہاد‘ کے بعد مسلمانوں پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہندوؤں کے کھانے میں تھوک کر انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مسلمانوں کو کھانے میں تھوکنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ کورونا کی وبا کے دوران بھی سوشل میڈیا پر ایسی جعلی ویڈیوز عام ہوئیں جن میں مسلمانوں کو لوگوں کو وائرس سے متاثر کرنے کے لیے تھوکتے یا چیزیں چاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ان ویڈیوز نے مذہبی منافرت میں اضافہ کیا اور ہندو انتہا پسند اکاؤنٹس نے مسلم مخالف بیانات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
بی جے پی کی حکومت والی انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ اور ہمسایہ ریاست اتر پردیش میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے نئی ہدایات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا استعمال مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کیا جا سکتا ہے اور حکومت اس طرح کے احکامات کو بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
لیکن اتراکھنڈ کے فوڈ سیفٹی آفیسر منیش سیانا کہتے ہیں کہ حکومت کے احکامات کا مقصد صرف کھانے کے معیار کو بہتر اور محفوظ بنانا ہے۔
انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ فوڈ سیفٹی افسران اور پولیس نے کھانے پینے کی دکانوں کی جانچ پڑتال شروع کر دی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ماسک اور دستانے پہنیں اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں۔
قانونی ماہر اور صحافی وی وینکٹیشن کا کہنا ہے کہ فوڈ سیفٹی سے متعلق نئے آرڈیننس اور قوانین پر اسمبلی میں بحث کی ضرورت ہے۔
وہ ریاستی انتظامیہ سے سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'میرے مطابق، موجودہ قوانین (فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈ ایکٹ، 2006 کے تحت) فوڈ سیفٹی کے لئے کافی ہیں تو ایک قانون کے ہوتے ہوئے نئے قوانین اور ہدایات کی کیا ضرورت ہے؟'
ان کا کہنا تھا کہ 'ریاستی حکومتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سخت قوانین اور ان کے تحت دی جانے والی سزائیں لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکیں گی، لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ قوانین کا مناسب نفاذ ہی لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ تو کیا ان ریاستوں میں موجودہ قوانین کو ابھی تک مناسب طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا ہے؟'