چیف جسٹس افتخار چودھری ہر مسئلہ پر ازخود نوٹس لے لیتے، لیکن شوگر مل مالکان نے ججوں کو مسخر کر لیا، اصل مسئلہ کی سمجھ ہی آنے نہیں دی
مصنف کا تذکرہ
جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 67
یہ بھی پڑھیں: نواز، زرداری کیخلاف توشہ خانہ ریفرنس دوسری عدالت منتقل کرنیکی درخواست پر فیصلہ محفوظ
چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدلیہ میں حیثیت
مسٹر جسٹس افتخار چودھری نے چیف جسٹس کی حیثیت سے عدلیہ کی اخلاقی بالادستی کا علم بلند کیا۔ وہ ہر مسئلہ پر، ہر واقعہ پر فوری ازخود نوٹس لیتے اور مقدمات کو سپریم کورٹ میں لے آتے۔ انہوں نے ملک میں موجود تقریباً 100 شوگر ملوں کی موجودگی میں چینی کی بے جا مہنگائی کر کے بے تحاشہ منافع کمانے کے مسئلے کو بھی عدالت میں لے لیا۔ مگر وہ اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے حالانکہ یہ ایک آسان مسئلہ تھا۔ وہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں یا زرعی یونیورسٹیوں سے کیمسٹری کے چند پروفیسروں کا ایک بورڈ تشکیل دیتے، اور یہ بورڈ فاضل عدالت کو آگاہ کرتا کہ گنے کا کیا بھاؤ ہونا چاہئے، 100 من گنے سے کتنی شوگر بنتی ہے، اور چینی کی پیداواری لاگت کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک کی ستمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
شوگر مل مالکان کا اثر و رسوخ
شوگر مل مالکان کے کارٹل نے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کو مسخر کر لیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے بجلی پیدا کرنے والے اداروں کی طرف توجہ دی، جہاں بھی وہ ناکام رہے۔ ریاست میں اعداد و شمار کے ماہرین نے ججوں کو اصل مسئلے کی سمجھ ہی آنے نہیں دی۔
یہ بھی پڑھیں: فیصل چودھری کو بانی پی ٹی آئی کے تمام کیسز سے الگ کر دیا گیا
قانونی ریفرنس اور دباؤ
ان چیف جسٹس کے خلاف وزارت قانون نے ایک ریفرنس تیار کیا، جس میں مبینہ طور پر چیف جسٹس اور اُن کی فیملی کے ارکان کی طرف سے کی گئی بے قاعدگیوں کی تفصیل تھی۔ معروف تھا کہ جنرل پرویز مشرف سے جسٹس افتخار چودھری کی گہری دوستی تھی، مگر کسی وجہ سے اختلاف پیدا ہوا اور یہ ریفرنس پیش کر دیا گیا۔ صدر پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو بلا کر یہ ریفرنس دکھایا، مگر چیف جسٹس نے بتایا کہ اُنہیں صدر پرویز مشرف اور دو دیگر حاضر سروس جرنیلوں نے دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے کا مشورہ دیا تھا، جس کو انہوں نے مسترد کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی رینکنگ میں پاکستانی عدلیہ کو اور نیچے دھکیل دیا گیا: لیاقت بلوچ
وکلاء کی تحریک
حکومت نے چیف جسٹس کو برخاست کرنے کا اعلان کیا، مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری وکلاء اور اپنے ساتھی ججوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے بار ایسوسی ایشن اسلام آباد، راولپنڈی کے تعاون سے عدلیہ کی آزادی کی تحریک چلائی۔ بے نظیر بھٹو، جو کہ پہلے چیف جسٹس کے حق میں نہیں تھیں، انہوں نے چیف جسٹس اور اُن کے نظر بند ساتھیوں کی حمایت کا اعلان کیا کہ اُن کے چیف جسٹس افتخار چودھری ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف سے آسٹریلوی ہم منصب کی ملاقات، دفاع اور سیکیورٹی میں تعاون کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق
منظم وکلاء تحریک کا آغاز
ملک بھر میں 2008ء کے عام انتخابات کی مہم بھی جاری تھی۔ کراچی سے پشاور اور کوئٹہ تک تمام صوبوں کے وکلاء اکٹھے ہو گئے، اور ملک میں پہلی بار وکلاء کی زبردست اور منظم تحریک چلی۔ اس دوران سپریم جوڈیشل کونسل تشکیل دی گئی، جس کے سامنے چیف جسٹس کے وکیل بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے مؤقف پیش کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے چیف جسٹس کا مقدمہ پیش نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ملک کا کوئی ادارہ چیف جسٹس کا احتساب کرنے کا مجاز ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔