چار ماہ میں 27 ہزار ڈالر، مفت رہائش اور ٹکٹ: وہ امریکی ریاست جہاں غیر ملکی ملازمین کی طلب ہے
امریکی انتخابات میں امیگریشن ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی غیر قانونی طریقے سے سرحد عبور کرنے والے لوگوں کے خلاف کارروائی پر بات کر رہے ہیں۔ لیکن اس دوران ایک امریکی ریاست ایسی بھی ہے جو زیادہ سے زیادہ غیر ملکی افراد کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ الاسکا میں دریائے کاپر ڈیلٹا کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا نام کورڈورا ہے اور ماہی گیری کی صنعت کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ غیر ملکی افراد دور دور سے الاسکا کی فش پروسیسنگ فیکٹریوں میں کام کرنے آتے ہیں اور وہ یہاں اپنے ملک سے زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔
اس شہر کی آبادی 3 ہزار سے بھی کم ہے لیکن گرمیوں کے مہینے آتے ہی یہ تعداد تین گنا بڑھ جاتی ہے۔
ایڈگر ویگا گارشیا میکسیکو سے امریکہ کے اس قصبے میں پہنچی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے یہاں 4 ماہ کام کر کے 27 ہزار امریکی ڈالر یعنی 75 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد کما لیے ہیں، جو میکسیکو کی اوسط سالانہ آمدن سے بھی زیادہ ہے۔ OECD کے مطابق میکسیکو میں سالانہ گھریلو آمدن 16,269 امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔
لیکن اس جگہ کے اپنے کچھ مسائل ہیں۔ سال کے بیشتر حصے میں درجہ حرارت تقریبا زیرو ڈگری تک رہتا ہے، شدید بارش اور برف باری ہوتی ہے جبکہ دو ماہ کا عرصہ ایسا ہوتا ہے جس کے دوران سورج بھی نظر نہیں آتا۔ اسے ’پولر نائٹ‘ کہتے ہیں۔
جیسے ہی یہاں گرمیوں کا موسم شروع ہوتا ہے، مقامی لوگ دریائے کاپر اور اس کے ساحل پر مشہور سالمن اور دیگر مچھلیاں پکڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
اس دوران مقابلہ سخت ہوتا ہے، ہر کوئی مقررہ وقت میں زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑنا چاہتا ہے۔ یہاں کی آدھی سے زیادہ ملازمتیں ماہی گیری کی صنعت سے ہی وابستہ ہیں۔
ایسے میں کمپنیوں کو پکڑی جانے والی مچھلی کی پروسیسنگ، پیکیجنگ اور فروخت کے لیے مزید کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ باہر سے کارکنوں کو منگواتی ہیں۔
اچھی تنخواہیں، مفت رہائش اور کھانا
ریاستی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے مطابق الاسکا کی سمندری غذا کی صنعت میں 80 فیصد کارکن غیر ملکی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے امریکہ کی دوسری ریاستوں سے بھی آتے ہیں لیکن زیادہ تر کا تعلق یوکرین، پیرو، ترکی، فلپائن اور میکسیکو سے ہے۔
ان ممالک سے لوگ اچھی تنخواہوں اور کام کے بہتر حالات کی وجہ سے اس مقام کا رخ کرتے ہیں جہاں انھیں اپنے ملک کے مقابلے میں زیادہ پیسہ کمانے کا موقع ملتا ہے۔
ایک کارکن ایک گھنٹے میں 18.06 امریکی ڈالر کماتا ہے اور اگر وہ اوور ٹائم یعنی زیادہ وقت کام کرتا ہے، تو یہ کمائی فی گھنٹہ تقریباً $27 تک چلی جاتی ہے۔ (الاسکا کا قانون اوور ٹائم تنخواہ میں 50 فیصد اضافے کو لازمی قرار دیتا ہے)
زیادہ تر کمپنیاں اپنے ملازمین کو مفت رہائش اور تین وقت کا کھانا فراہم کرتی ہیں تاکہ انھیں کورڈووا میں پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اس طرح کمپنیاں ملازمین کو اپنی کمائی ہوئی تمام رقم جمع کرنے کا موقع دیتی ہیں۔
کورڈووا میں کوئی سنیما یا شاپنگ مال نہیں ہے۔ جب موسم ماہی گیری کے لیے اچھا نہیں ہوتا، تو مچھیرے شہر کے واحد بار میں وقت گزارتے ہیں جہاں لندن کے کسی شراب خانے جیسا ماحول ہوتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ اگر ملازمت مل جائے تو کمپنی راؤنڈ ٹرپ کرایہ بھی فراہم کرتی ہے کیونکہ کورڈووا جیسی جگہوں تک صرف ہوائی جہاز اور کشتی کے ذریعے پہنچا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عورت کا اعتبار نہیں: اعتماد اور محبت کی ایک سبق آموز کہانی
مشکلات
ایسا نہیں کہ ملازمین بہت پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔
شپنگ کنٹینر سے بنے ایک کمرے میں چار لوگ رہتے ہیں جہاں انھیں استعمال کی تمام اشیاء ایک چھوٹے سے لاکر میں رکھنا ہوتی ہیں۔
یہاں کام بھی آسان نہیں ہے۔ شفٹیں اکثر صبح سے شروع ہوتی ہیں اور 18 گھنٹے یا اس سے زیادہ چلتی ہیں، کیونکہ روزانہ ہزاروں کلو مچھلیاں پکڑنی پڑتی ہیں۔
لیکن اتنی مشکل کاٹتے ہوئے ایڈگر جانتی ہیں کہ صرف چار ماہ کی تنخواہ سے وہ میکسیکو میں باقی پورا سال آرام سے رہ سکتی ہیں جہاں ان کے 4 بچے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔
بہت سے تارکین وطن کارکنوں کے لیے، اپنے خاندانوں کو طویل عرصے تک پیچھے چھوڑنا اور الاسکا میں کام کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایڈگر اپنی بوڑھی والدہ کے لیے پریشان رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ بہت بوڑھی ہیں اور وہ ان کے ساتھ الاسکا میں رہنا بھی نہیں چاہتیں۔
ماہی گیری کا بڑا کاروبار
الاسکا میں ماہی گیری بڑا کاروبار ہے۔ یونیورسٹی آف الاسکا فیئربینکس کے مطابق ریاست کی ماہی گیری اور سمندری غذا کی صنعتیں سالانہ 2,000 ٹن سے زیادہ مچھلیاں پیدا کرتی ہیں۔
الاسکا کی صنعت میں کام کرنے کے لیے غیر ملکی مزدوروں کی ضرورت اتنی زیادہ ہے کہ 2023 میں امریکی حکومت نے تارکین وطن کارکنوں کے لیے عارضی ویزوں میں بڑے اضافے کی منظوری دینا شروع کی۔
سال 2022 میں ویزوں کی تعداد 66 ہزار تک محدود تھی لیکن سال 2023-2024 میں یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 1 لاکھ 30 ہزار تک پہنچ گئی۔
رچ وہیلر، جو کورڈووا میں ’نارتھ 60 سی فوڈز‘ کے نام سے ایک چھوٹا مچھلی پروسیسنگ پلانٹ چلاتے ہیں، جہاں ایڈگر بھی اس سال کام کر رہی ہیں، کہتے ہیں کہ انھیں مقامی امریکی کارکنوں سے پریشانی ہوئی ہے کیونکہ وہ ’منشیات استعمال کرتے ہیں اور لڑتے ہیں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میکسیکو سے آنے والے لوگوں نے ان کے کاروبار کو بہت بڑھایا ہے۔ ’وہ ہمیشہ وقت پر کام پر آتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بار بار خبردار کیا ہے کہ باہر یعنی دوسرے ممالک سے آنے والے لوگ امریکی لوگوں کی نوکریاں چھین رہے ہیں۔ دوسری جانب کملا ہیرس نے کہا ہے کہ وہ سرحد کو محفوظ بنائیں گی۔
شہر کے میئر ڈیوڈ ایلیسن کا کہنا ہے کہ ’تارکین وطن کو ملازمتوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھنے کے بجائے مقامی معیشت کے لیے ایک اہم فروغ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ الاسکا کے کسی اخبار میں اشتہار دیتے ہیں کہ آپ کو 250 ملازمین کی ضرورت ہے، تو آپ کو 20 سے زیادہ درخواستیں نہیں ملیں گی۔‘
ایلیسن بتاتے ہیں کہ ’تارکین وطن کے بغیر، مقامی لوگوں کی پکڑی گئی مچھلی جلد ہی سڑ کر بیکار ہو جائے گی اور اگر مچھلی کو پکڑنے والا کوئی نہ ہو تو شاید یہ ایک خالی شہر ہوتا۔‘