وہ عادات جو آپ کی شخصیت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں، انکی اصلاح خوشگوار اور مسرت انگیز کام ہو سکتا ہے، خود کو بے وقعت سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں
مصنف اور مترجم کی معلومات
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
قسط: 32
یہ بھی پڑھیں: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھی چودھری اسلم سلیمی کا انتقال
کامیابی اور خود اعتمادی
اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کامیابی اور خوشی حاصل کرنے کی صلاحیت آپ کے دماغ میں موجود تمام تصورات اور خیالات پر لاگو ہوتی ہے۔ آپ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق معاشرتی طور پر شائستہ، مہذب اور ملنسار ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ اپنے معاشرتی روئیے کو پسند نہیں کرتے تو آپ اپنے روئیے کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل بھی کر سکتے ہیں اور اپنی قدروقیمت کے علاوہ اپنی اہمیت بھی قائم اور برقرار رکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کس طرح بنے تھے ؟ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس میں واقعہ سنا دیا
فنی صلاحیتوں کی اہمیت
اسی طرح آپ کی فنکارانہ، موسیقارانہ صلاحیتیں اور کھیلوں یا فنی مہارتوں میں دلچسپی، آپ کی اپنی مرضی اور خواہش کا نتیجہ ہونا چاہیے اور آپ کی اہمیت اور قدروقیمت بالکل علیٰحدہ حیثیت کی حامل ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کے رہنما اعظم سواتی ایک بار پھر گرفتار
عادات کی اصلاح
آپ کی وہ عادات جو آپ کی شخصیت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں، ان کی اصلاح آپ کے لیے ایک خوشگوار اور مسرت انگیز کام ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں خود کو کم اہم اور بے وقعت سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ صرف بات یہ ہے کہ آپ میں کچھ عادات ایسی موجود ہیں جن میں اصلاح اور بہتری درکار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق چیف جسٹس پر لندن میں حملہ کرنے کے مقدمے میں نامزد خاتون کا مؤقف آگیا
خود کو کمتر سمجھنے کے رویے
اپنے وجود کو کمتر، حقیر اور غیراہم سمجھنے پر مبنی روئیے کی متعدد اقسام موجود ہیں اور شاید یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ایسی عادات اور رویوں میں مبتلا ہوں جن کی وجہ سے آپ کی ذات حقیر اور غیراہم ثابت ہوتی ہو۔ ذیل میں اس قسم کے رویوں اور عادات کی چند مثالیں درج ہیں جو خود اپنی ذات سے انکار اور استرداد کے زمرے میں شامل ہیں:
یہ بھی پڑھیں: زیادہ مہارت والی خاتون کو کمپنی نے نوکری دینے سے انکار کردیا
تعارف اور توجیحات
- دوسروں کی طرف سے تعریف و توصیف سے انکار (”اوہ یہ تو پرانی بات ہے“..... ”درحقیقت مجھ میں تو کوئی قابلیت نہیں، یہ میری خوش قسمتی ہے“)
- اپنی جاذب شخصیت کے بارے میں بہانے تراشنا (”یہ صرف میرے حجام کا کمال ہے کہ میرے بال اچھے لگ رہے ہیں“)
- کارنامے کا سہرا دوسروں کے سر باندھ دینا (”خدا کا شکر ہے لیکن میں ’فلاں‘ کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوں“)
- نظریات اور احساسات دیگر لوگوں سے منسوب کرنا (”میرا شوہر یہ کہتا ہے“)
- اپنے خیالات کی تصدیق دوسروں سے کرانا (”جان من! کیا یہ صحیح نہیں ہے؟“)
- چیزیں اس لیے نہ خریدنا کہ آپ خود کو مستحق نہیں سمجھتے۔
- بے وقوفی یا گھٹیا نام استعمال کرنا۔
- تحفے کو معمولی سمجھنا۔
- اپنے لیے تحفے پر شک کرنا۔
- دوست کی ملاقات کو ترس کا نام دینا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔