ظالمو۔۔ گنڈاپور۔۔ راجہ آ رہا ہے
2013 کے انتخابات کا پس منظر
11 مئی 2013 کے انتخابات منعقد ہوئے جس میں مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: بیرسٹر امجد ملک اوورسیز پاکستانیز کے معاون مقرر ،مسلم لیگ ن جرمنی کا خیرمقدم
پاکستان تحریک انصاف کی صورتحال
پاکستان تحریک انصاف نے مرکز میں دوسری جبکہ خیبرپختونخوا میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ الیکشن کے 4 دن بعد، یعنی 15 مئی کو، عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور الیکشن کمیشن سے قومی اسمبلی کے 6 حلقوں میں نادرا کے ذریعے انگوٹھوں کے نشان کی دوبارہ تصدیق کا مطالبہ کیا۔ ان حلقوں میں این اے 57 اٹک، این اے 110 سیالکوٹ، این اے 122 لاہور، این اے 125 لاہور، این اے 154 لودھراں اور این اے 239 کراچی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سربازار کی حقیقت: فاطمہ کی بہادری کا ناقابل فراموش لمحہ
احتجاج کا آغاز
ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود حلقے نہیں کھلے، جس پر 22 مئی 2013ء کو عمران خان شوکت خانم ہسپتال سے صحت یاب ہو کر اپنے گھر زمان پارک واپس آئے۔ اسی دوران ملک بھر میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج اور دھرنوں کا آغاز ہوا۔ عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے دھرنوں کے شرکاء سے خطاب کرتے رہے۔ پہلے 6 حلقوں کے کھولنے کا مطالبہ کیا گیا، مگر بعد میں یہ مطالبہ 4 حلقوں تک محدود ہو گیا۔ 25 مئی کو، عمران خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے لاہور، سیالکوٹ اور لودھراں کے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ دوبارہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل میں چاقو بردار شخص کا راہگیروں پر حملہ،6 افراد شدید زخمی،5 کی حالت نازک
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ
جب عمران خان چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو ویڈیو لنک سے خطاب کا سلسلہ بند ہو گیا اور ملک بھر میں جلسے جلوس کا سلسلہ شروع ہوا۔ 14 مارچ 2014 کو عمران خان نے لاہور سے اسلام آباد ”آزادی مارچ“ کا اعلان کیا، جبکہ اس دن ہی پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے بھی انقلاب مارچ کی تاریخ دی۔ دونوں رہنماؤں نے ایک ہی دن (14 اگست) کو اسلام آباد کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق فیصلہ ہوگیا
دونوں مارچ کا نتیجہ
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے راستے مختلف تھے، مگر منزل ایک ہی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے والے واقعات یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ دونوں "مارچ" مل کر بھی ایک لاکھ یا "خاطر خواہ" لوگ جمع نہ کر سکے، نتیجتاً کوئی مؤثر نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی نااہلی، جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل نے خاموشی توڑ دی
حکومتی پالیسیوں پر تبصرہ
29 اکتوبر 2024ء کو پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ "فیصلہ عدالتوں یا پارلیمنٹ سے نہیں بلکہ سڑکوں پر ہوگا۔" انہوں نے یہ بھی کہا کہ 8 یا 10 ہزار لوگ ہوں گے تو صرف 2 ہزار کو گرفتار کیا جائے گا۔ یہ بات نہایت سادہ ہے کہ اتنے لوگ تو 2014 میں بھی نہیں نکلے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی اداکارہ مہربانو کی انتہائی بولڈ تصاویر نے انٹرنیٹ پر ہنگامہ برپا کر دیا ، سوشل میڈیا صارفین برس پڑے
سابق امیر جماعت اسلامی کا ذکر
سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی مثال دی جاتی ہے، جن کی حکومت کے خلاف احتجاج کی کال سے ہی صفوں میں کھلبلی مچ جاتی تھی۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو اس سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
خاتمہ
تحریک انصاف کو درحقیقت تین یا چار لاکھ لوگ نہیں، بلکہ صرف تین یا چار چہرے درکار ہیں تاکہ کام انجام پا سکے۔
نوٹ: ادارے کا کالم نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔