سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان کی طرف سے قاضی فائز عیسیٰ کی مخالفت کا دعویٰ، مگر وجہ کیا بنی؟ معروف صحافی تفصیلات سامنے لے آئے۔
پیش منظر
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے سپریم کورٹ کے دیگر جج صاحبان کی طرف سے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مخالفت کے دعوے سامنے آرہے ہیں، اب معروف صحافی وسیم عباسی نے بھی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سابق سیکرٹری محمد مشتاق کی سوشل میڈیا پوسٹ کی روشنی میں بڑا دعویٰ کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا
مخالف ججز کی وجہ
کورٹ رپورٹر وسیم عباسی نے اپنے وی لاگ میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سابق سیکرٹری محمد مشتاق نے بتایا ہے کہ ججز سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیوں ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فوج قومی یکجہتی کی علامت، آئیں آگے بڑھیں اور ملک کے دفاع میں اپنا کردار ادا کریں: کیڈٹس کا پیغام
نئی اور پرانی گاڑی کا معاملہ
وسیم عباسی کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کے سابق سیکرٹری محمد مشتاق نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ نئے آنے والے ججز کو دو گاڑیاں دی جاتی ہیں جن میں ایک نئی اور ایک پرانی گاڑی شامل ہوتی ہے۔ ایک نئے جج صاحب آئے تھے جو کہ کسی دوسرے شہر سے آئے تھے، ان کیلئے اپروول آیا کہ نئی گاڑی اپروو کردی جائے۔ جب قاضی صاحب کو پتہ چلا کہ پرانی گاڑی 2018 ماڈل کی ہے، تو انہوں نے کہا کہ جب پرانی گاڑی کی حالت ٹھیک ہے تو نئی گاڑی کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہ گاڑی ڈس اپروو کردی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق برطانوی وزیراعظم نے نیتن یاہو پر سنگین الزام لگاتے ہوئے باتھ روم جانے کی کہانی مشترک کی!
عملے کا ردعمل
وسیم عباسی نے مزید کہا کہ جب ان جج صاحب کے سٹاف کو پتہ چلا کہ گاڑی کی اپروول نہیں ملی تو یقین نہ آیا۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سیکرٹری محمد مشتاق نے ان جج صاحب کے سٹاف کو بتایا کہ فائل کے نوٹس یہی کہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشتگردی عدالت نے اعظم سواتی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا
سرکاری رہائش کا مسئلہ
وسیم عباسی نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے سابق سیکرٹری محمد مشتاق نے بتایا کہ ان جج صاحب نے اپنی دوسری شہر میں رہائش کو آفیشل رہائش گاہ ڈکلیئر کردیا تھا، جبکہ اسلام آباد میں ججز کالونی میں موجود ان کی رہائش گاہ کو انہوں نے ریسٹ ہاؤس ڈکلیئر کیا ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک دوران کام جان بحق ہونے والے پاکستانیوں کے ورثاء کو ایک کروڑ روپیہ نقد دینے کی قرار داد عشایئہ تقریب میں منظور
ذمہ داری کی تفصیلات
محمد مشتاق کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ نے معلوم کیا کہ ایسا کیوں ہے تو انہیں پتہ چلا کہ آرام گاہ میں ہر چیز حکومت کی طرف سے ہوتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے انہی جج صاحب کو ذمہ داری سونپی کہ وہ حساب لگاکر بتائیں کہ کون سی سہولیات قانون دیتا ہے اور کون سی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تقرری و تبادلوں کے منتظر سرکاری ملازمین کیلئے بڑی خوشخبری
ایک دلچسپ واقعہ
کورٹ رپورٹر وسیم عباسی نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کے ایک اور واقعے کا ذکر کیا، جہاں قاضی صاحب تقریباً 9 بج کر 25 منٹ پر سپریم کورٹ پہنچے۔ عدالت کی کارروائی 9 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوتی تھی اور اس دن وہ تقریباً 9 بج کر 28 منٹ پر پہنچے۔ وہاں ان کے سامنے لاہور کے تین جج آرہے تھے۔ قاضی صاحب نے حیرت سے پوچھا کہ ابھی تو 9 بج 35 منٹ ہوئے ہیں، 5 منٹ میں کیسے ختم ہوگئے؟ جس پر جواب ملا کہ محض کچھ التوا کی درخواستیں تھیں جو نمٹا دی گئی تھیں۔
نتیجہ
قاضی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا: "آج تو جمعہ ہے، جمعہ کو ہمارے لاہور کے دوستوں کو زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔" اگر بعد میں یہ الزام لگایا گیا کہ قاضی صاحب کا رویہ دیگر ججوں کے ساتھ مناسب نہیں تھا، تو یہ بات حیران کن نہیں ہے۔