پرویز مشرف کی حکومت نے انگڑائی لی، نیا پی سی او تیار ہوا، ہنگامی حالات کا نفاذ ہو گیا، سیاسی جماعتوں اور وکلاء کی مخالف تحریک زیادہ طاقتور ہو گئی
مصنف کی تحریر: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 68
اس دوران ملک میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے نئی انگڑائی لی۔ ایک نیا پی سی او تیار ہوا۔ ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ ہو گیا۔ سیاسی جماعتوں اور وکلاء کی حکومت کے خلاف تحریک زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو گئی۔
حکومت نے ملک میں نیا چیف جسٹس جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو مقرر کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ پہلے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے ججوں میں افتخار محمد چودھری بھی شامل تھے مگر انہوں نے پی سی او ججوں کے خلاف تحریک کو زیادہ مضبوط بنایا۔
عام انتخابات سے چند ہفتے قبل پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسۂ عام کے بعد قتل کر دی گئیں۔ سندھ میں زبردست سیاسی طوفان برپا ہو گیا۔ پورے پاکستان میں اس افسوس ناک واقعہ پر شدید ردعمل ظاہر ہوا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی اگرچہ بہت کمزور تھی مگر بے نظیر بھٹو کے قتل پر عوام سخت مشتعل تھے اور سیاسی حلقے اس صورت حال کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب رہے۔ اس دوران پیپلز پارٹی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہو گئی۔ خیبر پختونخوا جو کہ اس وقت تک صوبہ سرحد ہی تھا میں اے این پی جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آ گئی۔ پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت بنا لی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے خلاف ردعمل بڑی شدت سے جاری تھا۔
صدر جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت سے حلف لیا۔ اس حلف کے لینے کے باوجود سیاسی حکمران پرویز مشرف کو برخاست کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اُنہیں حکومت کی طرف سے باقاعدہ گارڈ آف آنر پیش کر کے رخصت کیا گیا۔
قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں اسمبلیوں نے مسلم لیگ (ن) کے صدارتی اُمیدوار کو مسترد کر کے پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کو ملک کا صدر منتخب کر لیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو چیف جسٹس تسلیم کر لیا اور وہ چند ماہ تک اس عہدہ پر رہے۔
اس دوران وکلاء کی ملک گیر تحریک جاری رہی۔ پیپلز پارٹی کے صدر اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپنے کام نکلواتے رہے جن میں کچھ فیصلے مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کے خلاف بھی تھے۔
لانگ مارچ اور وکلاء کی کامیابی
معاملہ جب یہاں تک پہنچ گیا تو میاں نواز شریف نے طے کیا کہ وہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گے۔
لاہور سے ہزاروں وکلاء کا جلوس اُن کی قیادت میں جب گوجرانوالہ کے قریب پہنچا تو جلوس میں وکلاء کے قائد بیرسٹر اعتزاز احسن کو آرمی چیف نے فون کر کے افتخار محمد چودھری کو بحال کرنے کی نوید سنا دی۔
اصل صورتحال یہ تھی کہ جسٹس ڈوگر بھی باقاعدہ اور مستقل جج تھے۔ اُن کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آ گئی تھی۔ چنانچہ اُن کے ریٹائر ہوتے ہی چیف جسٹس افتخار چودھری کو بحال کر دیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں وکلاء کی کامیاب جدوجہد اور شاندار کامیابی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔