امریکی صدارتی انتخاب: کیا ٹک ٹاک کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے؟
انتخابی جلسوں میں تقاریر، عوامی رابطہ مہم، انٹرویوز اور بحث و مباحثے۔۔۔ دنیا بھر میں الیکشن سے قبل امیدوار اسی طرح اپنی انتخابی مہم چلایا کرتے تھے لیکن جدید دور میں سوشل میڈیا بھی ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے انتہائی مؤثر انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں 5 نومبر کو ہونے والے انتخابات سے متعلق مواد بھی یا تو آپ کو ایکس پر ملے گا یا پھر ٹک ٹاک پر۔ تحقیق کے مطابق امریکی نوجوان نسل کی اکثریت سیاسی مواد دیکھنے یا اپنی سیاسی خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ٹک ٹاک کا ہی رُخ کرتی ہے۔
امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں دونوں امیدواروں (ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس) کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ انھیں اقتدار تک پہنچنے کے لیے نوجوان نسل کی حمایت اور ووٹ درکار ہوں گے۔ ان نوجوانوں میں بڑی تعداد وہ ہے جو پچھلے الیکشن میں ووٹنگ کی عمر تک نہیں پہنچی تھی۔
اور یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس دونوں نے ہی جین زی (سادہ الفاظ میں جنریشن زی یا نئی نسل میں وہ نوجوان آتے ہیں جو نوّے کی دہائی کے وسط یعنی 1995 سے لے کر 2000 کی دہائی کے آخر یعنی 2010 تک پیدا ہوئے) پر زیادہ توجہ دی اور اپنی الیکشن مہم میں کی جانے والی تقریروں میں بار بار انھیں مخاطب کیا۔
’میرے فون پر ہر وقت ٹک ٹاک کھلا رہتا ہے‘
امریکی شہری ایلن اس سال پہلی مرتبہ ووٹ ڈال رہی ہیں اور تسلیم کرتی ہیں کہ وہ سوشل میڈیا ایپس انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر بہت زیادہ سیاسی مواد دیکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے سیاسی بحث و مباحثے پسند ہیں کیونکہ یہ آپ کو مسائل کو سمجھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے میرے فون پر ہر وقت ٹک ٹاک کھلا رہتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میرے خیال میں یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ آپ جو سوشل میڈیا پر دیکھتے اور سنتے ہیں، اس کا اثر آپ پر ضرور پڑتا ہے لیکن یہ اپلیکیشنز جس طرح کام کرتی ہیں وہ خاصا دلچسپ ہے کیونکہ اگر آپ ایک ویڈیو کسی مخصوص امیدوار کی دیکھیں تو ٹک ٹاک آپ کو اسی سے جڑا مواد دکھانا شروع کر دیتا ہے۔‘
ایلن جیسے لاکھوں نوجوان ٹک ٹاک پر الیکشن سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 170 ملین امریکی شہری ٹک ٹاک کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے دونوں امیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ نے جون 2024 جبکہ کملا ہیرس نے جولائی 2024 میں ٹک ٹاک پر اپنے اکاونٹ بنائے اور چند ہی مہینوں میں کروڑوں فالوورز حاصل کر لیے۔
یہ بھی پڑھیں: لوگ 16 بچوں کی پیدائش کیوں نہیں کرتے: دو یا اس سے کم بچوں والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے
امریکی صدارتی الیکشن میں ٹک ٹاک کیسے استعمال ہو رہا ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی جانب سے ٹک ٹاک پر مہم جوئی کی حکمت عملی اس طرح تشکیل دی گئی ہے کہ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ سکیں۔
دونوں کے ذاتی ٹک ٹاک اکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیموں کے بھی اکاونٹ موجود ہیں جو میمز، امیدواروں کی تقریروں کے ایسے مخصوص حصے پوسٹ کرتے ہیں جو نوجوان نسل عموماً پسند کرتی ہے۔
یہ سلسلہ صرف امیدواروں اور ان کی ٹیموں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات بھی شامل ہیں جو اپنے پسندیدہ صدارتی امیدواروں کے حق میں اور مخالف امیدوار کے خلاف مواد پوسٹ کرتی ہیں۔ ٹک ٹاک پر ملنے والے مواد میں ووٹر بھی پیچھے نہیں۔
کیا ٹک ٹاک امریکی صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
امریکی ٹک ٹاکر میری سولیڈاڈ جین زی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ ٹک ٹاک پر کافی متحرک ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ بائیں بازو کے نظریات رکھتی ہیں اور اسی طرح کا مواد ٹک ٹاک پر پوسٹ کر رہی ہوتی ہیں۔
Uses in Urdu بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں کملا ہیرس کے حق میں ویڈیوز پوسٹ کرتی ہوں کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے پاس دونوں صدارتی امیدواروں میں سے وہ بہتر ہیں لیکن میں یہ بھی مانتی ہوں کہ ان کی کچھ پالیسیوں میں کافی خرابیاں ہیں۔‘
ٹک ٹاک کے الیکشن میں کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سچ ہے کہ ٹک ٹاک آنے والے الیکشن میں اہم کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ یہ لاکھوں نوجوانوں تک سیاسی آگاہی پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ میرے خیال میں اس پلیٹ فارم سے زیادہ ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو سیاسی مواد بناتے ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ ٹک ٹاک ایک بے رحم سوشل میڈیا ایپ ہے کیونکہ اگر آپ کوئی بھی بات ذرا سی بھی اوپر نیچے کرتے ہیں تو صارفین آپ کو نہیں بخشتے۔ یہی نہیں بلکہ ٹک ٹاک پر استعمال ہونے والی زبان بھی خاصی مخصوص ہے اس لیے جب میں بھی ویڈیوز بناتی ہوں تو ان باتوں کا خیال رکھتی ہوں۔‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایکس سیاسی بحث کے لیے ایک مرکزی اہمیت کا حامل ہے، تاہم پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق زیادہ تر لوگ ایکس کو سیاسی معاملات کی معلومات کے لیے استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ٹک ٹاک کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیو کی ریسرچ کے مطابق ٹک ٹاک کے ماہانہ ایک ارب فعال صارفین ہیں جو ٹک ٹاک کو ایکس سے زیادہ اثر انگیز بناتا ہے۔
پی ای ڈبلیو ریسرچ سینٹر سروے کے مطابق 49 فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک جمہوریت پر اثر انداز نہیں ہوتا جبکہ اسی سروے کے مطابق لوگ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو سیاسی معلومات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اور امریکی ٹک ٹاکر برینڈڈامونو ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ویڈیوز بناتے ہیں۔ Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ سب سے پہلے امریکی شہریوں کی بات کرتے ہیں۔ وہ معیشت کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت اپنے ملک پر پیسے لگانے کی بجائے دوسرے ممالک کی جنگوں میں پیسہ لگا رہی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ٹک ٹک ویڈیوز کسی کا ووٹ یا کسی مخصوص امیدوار کے بارے میں سوچ کو تبدیل کر سکتی ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ لوگوں کے خیالات تبدیل ہوتے ہیں اور اگر وہ ایک ہی چیز بار بار دیکھتے ہیں تو وہ ضرور اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘
’میرے کچھ فالورز نے مجھ سے کہا کہ تمہاری ویڈیوز دیکھ کر لگتا ہے کہ تم ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں صحیح کہتے ہو۔ اس لیے ہم اب ان کے لیے ووٹ کریں گے۔‘
جین زی کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر مہم جوئی سے فرق پڑتا ہے کیونکہ یہاں سے صارفین کو معلومات تک رسائی ممکن ہوئی جبکہ ایک نوجوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جو ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے ہیں ہمارے خیالات بھی اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان ووٹر یہ دیکھتا ہے کہ کون سی پارٹی کیا پروموٹ کر رہی ہے اور کیا تبدیلیاں لانا چاہتی ہے اور وہ اسی بنیاد پر ووٹ بھی کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ٹک ٹاک جیسی سوشل ایپس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر لوگ فیصلہ کر چکے ہیں اور سوشل میڈیا کے استعمال سے جین زی صرف سیاسی معاملات کی خبر رکھتے ہیں لیکن میرے خیال میں اس سال کے صدارتی الیکشن کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں امیدوار کی سپورٹ برابر ہی ہے۔‘
ایک طرف تو دونوں پارٹیاں اور ان کے امیدوار ٹک ٹک کو اپنی الیکشن مہم کے لیے استعمال کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ٹک ٹاک پر پابندی بھی عائد کرنا چاہتے ہیں۔
امریکہ ٹک ٹاک کی ملکیت چینی کمپنی کے پاس ہونے کے باعث اسے خطرہ سمجھتا ہے کیونکہ امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ ٹک ٹاک 170 ملین امریکی شہریوں کا ڈیٹا چین کو فراہم کر سکتا ہے۔
2016 میں غیر مصدقہ خبروں کا پھیلنا اور جھوٹا پروپگینڈہ ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ جس کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنی پولیٹیکل پالیسیز بھی تشکیل دیں۔
یہاں تک کہ 2020 میں ایکس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر کچھ عرصے کے لیے پابندی بھی عائد کردی تھی۔