میرا گزشتہ روز کا غصہ قابل جواز نہیں تھا مجھے افسوس ہے،جسٹس حسن اورنگزیب،اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر کالعدم قرار
اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر کالعدم قرار دیدیا۔ جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ "میرا گزشتہ روز کا غصہ قابل جواز نہیں تھا، مجھے افسوس ہے۔ جج ہمارے سامنے نہیں تھے، مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہم جو فیصلے میں نہیں لکھ سکتے، عدالت میں کہہ بھی نہیں سکتے۔"
یہ بھی پڑھیں: کراچی: ملیر اور اطراف میں زلزلے کے جھٹکے
عدالتی سماعت کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق، اعظم سواتی کے عدالتی اوقات کے بعد جسمانی ریمانڈ دینے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل علی بخاری نے کہا کہ "11 اکتوبر کو ہائیکورٹ میں لسٹ جمع ہوئی کہ اعظم سواتی کیخلاف 12 مقدمات ہیں۔ ایک ایف آئی آر ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی، تفصیلات جان بوجھ کر چھپائی گئی۔"
یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر پابندی ابھی بھی برقرار ہے، سیکرٹری خزانہ
پراسیکیوشن کا جواب
جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ "کیا پراسیکوشن کا اعظم سواتی کا اب مزید جسمانی ریمانڈ مانگنے کا ارادہ ہے؟" پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد نے کہا کہ "میں اس بارے میں ابھی کوئی بیان نہیں دے سکتا۔" جسٹس ارباب طاہر نے پوچھا کہ "کیا اعظم سواتی اب تمام مقدمات میں گرفتار ہیں؟" جس پر پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ "تمام مقدمات میں جسمانی ریمانڈ ہو چکا، تو وہ تمام مقدمات میں گرفتار ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں: افروزٹیکسٹائلز کے ’’بیڈ اینڈ باتھ‘‘ ایکسپورٹ کوالٹی آؤٹ لیٹ کا افتتاح، ایکسپورٹ کوالٹی مصنوعات پیش کریں گے: فیروز عالم لاری
جج کا ریمارکس
جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ "ایک بندے کا جسمانی ریمانڈ ہوا، ریمانڈ ختم ہونے پر دوسرا ریمانڈ لے لیا گیا۔ جج کو کہنا چاہئے تھا کہ 5 اکتوبر کا مقدمہ ہے، مجھ سے ریمانڈ کیسے مانگ رہے ہیں۔"
مطمئنی رپورٹ اور فیصلے کا اعلان
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کردیا۔ جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ "جج ابوالحسنات نے جو رپورٹ دی، ہم اس پر مطمئن ہیں۔ میرا گزشتہ روز کا غصہ قابل جواز نہیں تھا، مجھے افسوس ہے۔ جج ہمارے سامنے نہیں تھے، مجھے اس طرح نہیں کرنا چاہئے تھا۔" اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعظم سواتی کے جسمانی ریمانڈ کا آرڈر کالعدم قرار دیدیا۔








