شاہراہ ریشم کے گمشدہ شہروں کی دریافت، محققین کا شاندار خزانہ کہنا
آثار قدیمہ کے ماہرین کو مشرقی ازبکستان کے پہاڑوں میں قرون وسطیٰ کے دو شہروں کے کھنڈرات ملے ہیں۔ یہ ایک اہم دریافت ہے جو شاہراہ ریشم کے بارے میں موجود معلومات کو تبدیل کر سکتی ہے۔
مشرق اور مغرب کے درمیان اس تجارتی راستے کے بارے میں طویل عرصے تک یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ راستے نشیبی شہروں سے منسلک رہے۔
لیکن جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے آثار قدیمہ کے ماہرین نے کم از کم دو ایسے شہر دریافت کیے ہیں جو پہاڑوں میں واقع تھے اور اس تجارتی راستے کا ایک اہم حصہ تھے۔
ان شہروں میں سے ایک 'تگنبلک' ہے جو کم از کم 120 ہیکٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور یہ سطح سمندر سے دو ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
آثار قدیمہ کی اس ٹیم میں شامل فرہاد میکسودو کہتے ہیں کہ 'اس دریافت کے ساتھ وسطی ایشیا کی تاریخ تبدیل ہو رہی ہے۔'
اس ٹیم کا خیال ہے کہ آٹھویں اور گیارہویں صدی کے درمیان جب اس علاقے پر ایک طاقتور ترک خاندان کا کنٹرول تھا، تو تگنبلک اور نزدیک واقع چھوٹے شہر تاشبولک میں لوگ آباد تھے۔
آج دنیا میں موجود صرف تین فیصد افراد اتنی بلندی پر واقع شہروں اور علاقوں میں رہتے ہیں۔ تبت میں لہاسا اور پیرو میں کوزکو ایسے شہروں میں شامل ہیں۔
اس تحقیق کی سربراہی ازبکستان کے نیشنل سینٹر آف آرکیالوجی کے ڈائریکٹر فرہاد میکسودو اور امریکہ میں واشنگٹن یونیورسٹی کے آثار قدیمہ کے ماہر مائیکل فریچٹی نے کی۔
اس ٹیم نے تحقیق کے دوران ڈرونز اور لڈر (کسی بھی جگہ کو روشنی کی مدد سے ناپنے والی ڈیوائس) کا استعمال کیا۔ اس لڈر کی مدد سے ماحول کا تھری ڈی نقشہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ تحقیق اس ہفتے سائنسی جریدے 'نیچر' میں شائع ہوئی ہے اور جو ماہرین اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے، انہوں نے بھی خانہ بدوش کمیونٹیز کے طرز زندگی پر روشنی ڈالنے میں اس تحقیق کی اہمیت کو سراہا ہے۔
تحقیقاتی ٹیم نے سب سے پہلے سنہ 2011 میں پہاڑوں میں ٹریکنگ کے دوران چھوٹے شہر تاشبولک کو دریافت کیا۔ انہیں یہاں قبرستان، مٹی کے برتنوں کے ٹکڑے اور دیگر ایسے نشانات ملے جو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ علاقہ کبھی آباد تھا۔
مائیکل فریچٹی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ 'ہم بہت حیران ہوئے۔'
انھوں نے کہا کہ تاریخی ریکارڈ اس خطے کے شہروں کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن ٹیم کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ سطح سمندر سے تقریباً 2,200 میٹر بلند، 12 ہیکٹر پر محیط شہر دریافت کر لیں گے۔
مائیکل فریچٹی نے بتایا کہ وہاں تک پہنچنا بھی مشکل تھا کیونکہ راستے میں تیز ہواؤں، طوفان اور سامان لے جانے جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
چار سال بعد مقامی جنگلات کے ایک منتظم نے اس تحقیقاتی ٹیم کو تاشبولک کے قریب ایک اور سائٹ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔
مائیکل فریچٹی کہتے ہیں کہ ’اس نے ہمیں کہا کہ میرے خیال میں، میرے گھر کے صحن میں مٹی کے کچھ برتن موجود ہیں۔ تو ہم ان کے گھر گئے اور ہم نے دریافت کیا کہ ان کا گھر قرون وسطی کے ایک قلعے پر بنایا گیا تھا۔ وہ جیسے ایک بہت بڑے شہر کے اوپر رہ رہے تھے۔‘
ان دریافتوں میں سب سے اہم چیلنج محققین کو اس بارے میں قائل کرنا تھا کہ یہ شہر واقعی موجود تھے۔
سنہ 2022 میں یہ ٹیم لڈر سینسر سے لیس ایک ڈرون کے ساتھ واپس آئی، جس نے تگنبلک میں دیواروں، نگرانی کے ٹاورز، پیچیدہ تعمیراتی خصوصیات اور دیگر قلعوں کی دریافت میں مدد کی۔
محققین کا خیال ہے کہ قدیم لوگوں نے لوہے کی دھاتوں کو پگھلانے کے لیے درکار آگ کو تیز کرنے کے لیے تگنبلک اور تشبولک میں آباد ہونے کا انتخاب کیا ہو گا۔
فرہاد میکسودو کہتے ہیں کہ ’قرون وسطی کے زمانے میں جس کے ہاتھ میں بھی لوہا ہوتا تھا، وہ بہت طاقتور تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ لیکن شاید یہ ہی چیز ان کے زوال کی وجہ بھی بنی۔ یہ علاقہ ایک گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا تھا لیکن لوہے کی پیداوار کو آسان بنانے کے لیے اس کو کاٹا گیا۔
’سیلاب اور برفانی تودوں کی وجہ سے یہ علاقہ ماحول کے لحاظ سے انتہائی غیر مستحکم ہو گیا ہو گا۔‘
آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر پیٹر فرانکوپن کہتے ہیں کہ ’محققین کو وادی میں نیچے بستیوں کے شواہد ملنے کی توقع کی تھی لہذا یہ دریافت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انتہائی شاندار خزانہ ہے، جو ایک صدی قبل ایشیا کے مختلف راستوں اور قدرتی وسائل کے درمیان تعلق کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔‘
امریکہ کی براؤن یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ماہر زاچرے سلویا کہتے ہیں کہ ’اونچائی والے شہری مقامات، آثار قدیمہ کے ریکارڈ میں ’غیر معمولی طور پر نایاب‘ ہیں کیونکہ وہاں آباد ہونے میں منفرد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔‘
سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں انھوں نے لکھا کہ اس ٹیم کا کام وسطی ایشیا میں قرون وسطیٰ کے بارے میں مطالعے کے لیے بہت زیادہ مدد فراہم کرے گا۔