ایران اور مصر کی بےمثال دوستی کا تاریخی تعلق کیسے دیرینہ دشمنی میں بدل گیا؟
ایران اور اسرائیل میں جاری کشیدگی کے درمیان ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اردن اور مصر کا ایک غیر معمولی دورہ کیا ہے۔
مصر عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے اور اسی تناظر میں ایران کے سیاسی رہنما گزشتہ کئی برسوں سے مصر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ایران اور مصر مشرق وسطیٰ کے نہ صرف دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں بلکہ یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایک منفرد سیاسی اور سماجی شناخت بھی رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک 20ویں صدی میں معرض وجود میں آئے ہیں جبکہ قدیم تہذیبوں کا امین ہونے کے باعث ایران اور مصر کا مشرق وسطیٰ میں ایک بلند رتبہ اور مقام ہے۔
ایران اور مصر میں برادرانہ تعلق کی تاریخ اختلافات اور مفاہمت سے بھری پڑی ہے۔ خاص طور پر اگر گزشتہ 150 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ممالک جہاں متعدد مرتبہ بہت سے معاملات پر ایک دوسرے کے انتہائی قریب آئے، وہیں بعض اوقات وہ تصادم اور دشمنی کے راستے پر بھی چلے۔
فی الوقت ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات انتہائی محدود نوعیت کے ہیں اور حالیہ برسوں میں کی جانے والی متعدد کوششوں کے باوجود دونوں ممالک نے ابھی تک ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے اپنے سفیر تعینات نہیں کیے ہیں۔
تاہم غزہ کی جنگ اور لبنان پر اسرائیلی حملوں نے تہران اور قاہرہ کو تعلقات دوبارہ بہتر کرنے کا ایک نیا موقع دیا ہے اور حالیہ ایرانی سفارتی سرگرمیاں واضح طور پر کم از کم ایران کی جانب سے مفاہمت کی شدید خواہش کا اظہار کر رہی ہیں۔
درحقیقت ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا مصر سمیت خطے کے دیگر ممالک کا دورہ کرنے کا مقصد ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر بات چیت کرنا تھا۔ اپنے اس دورے کے دوران عباس عراقچی لبنان، عراق اور سعودی عرب کے بعد مصر اور اردن گئے تھے۔
اس تمام تر منظر نامے میں مصر کو ایک خاص فوقیت حاصل ہے کیونکہ ناصرف اس کی سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں بلکہ اس کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ جبکہ مصر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔
ایران اور مصر کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جغرافیائی فاصلوں اور سنگین مسائل کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات، دوستی اور تعاون کی بہت سی وجوہات تھیں۔ تاہم علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
خاندانی تعلقات
اگر ماضی کی بات کی جائے تو خطے میں سلطنت عثمانیہ اور اس کے بعد فرانس اور انگلینڈ جیسی نوآبادیاتی طاقتوں کی موجودگی کے باعث ایران اور مصر کے درمیان سفارتی تعلقات زیادہ رسمی شکل اختیار نہ کر سکے۔
16ویں صدی کے اوائل میں مصر سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ بن گیا لیکن 19ویں صدی کے آخر میں یہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔
سنہ 1922 میں انگریزوں نے مصر کی آزادی کو اگرچہ سرکاری طور پر تسلیم تو کیا مگر انھوں نے خارجہ پالیسی، فوج، نہر سویز اور مصر میں موجود طاقت کے دوسرے بڑے مراکز کا کنٹرول مصریوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔
اس دوران ایران کے حوالے سے انگریزوں کی حکمت عملی مختلف تھی۔ انھوں نے ایران میں رضا شاہ نامی ایک فوجی کمانڈر کی حمایت کی جس نے سنہ 1921 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا اور پھر پانچ سال کے اندر اندر احمد شاہ قاجار کا تختہ الٹ کر پہلوی بادشاہت کے نام سے خود تاج پہن لیا۔
اس طرح پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد ایران اور مصر میں ایسے بادشاہوں کی حکمرانی تھی جن کی معاشی اور سیاسی پالیسیاں اپنے ملک کے عوام کی خواہشات یا مفادات سے زیادہ تاجِ برطانیہ کے تابع تھیں۔
مصری شاہی دربار کے ساتھ رضا شاہ کے تعلقات کو مکمل طور پر پروان چڑھنے میں تقریباً دو دہائیاں لگیں۔ جب ایران کے شاہ اپنے بڑے بیٹے اور ولی عہد محمد رضا کے لیے دلہن کی تلاش میں تھے تو انھوں نے مصر کے بادشاہ فاروق کی بہن فوزیہ کا انتخاب کیا۔
اور یہ انتخاب رضا شاہ اور مصر کے بادشاہ فاروق، دونوں کے لیے بڑا سیاسی اور علامتی فائدہ لے کر آیا۔
پہلوی خاندان کی نئی نئی قائم کردہ بادشاہت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے سلسلے میں یہ ایک اہم اقدام تھا، یعنی ایک ایسے شاہی خانوادے (مصر کے بادشاہ فاروق) سے تعلق قائم کرنا جو بہت عرصے سے قائم و دائم تھا۔
دوسری طرف شاہ فاروق، جن کا ملک ایک مغربی طاقت کے کنٹرول میں تھا اور جن کو عرب خطے میں ایک نااہل اور کٹھ پتلی حکمران کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اس سیاسی شادی سے خود کو بطور حکمران حاصل ہونے والے فوائد سے پوری طرح آگاہ تھے۔
سنہ 1939 میں ایرانی ولی عہد محمد رضا پہلوی کی مصری شہزادی فوزیہ سے شادی کے بعد دونوں ممالک نے جدید تاریخ میں پہلی بار سفیروں کا تبادلہ کیا، اور یوں تہران اور قاہرہ کے درمیان باضابطہ طور پر مکمل سفارتی تعلقات کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب خاندانی مراسم اور دونوں ممالک کی علاقائی اہمیت کے تناظر میں یہ تعلقات ایک روشن مستقبل کے حامل نظر آئے۔
یہ بھی پڑھیں: Indian Female Wrestler Defeats BJP in State Elections
شاہ فاروق کا زوال
وقت کے ساتھ ولی عہد شہزادہ محمد رضا کی فوزیہ سے شادی ایران کے شاہی خاندان کے لیے ایک پریشان کُن اور تکلیف دہ ملاپ ثابت ہوئی۔ اس دور میں اگرچہ دونوں ممالک میں باہمی سفارتی تعلقات تو تھے لیکن رضا شاہ کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں مصر کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ شاہ فاروق اور ان کے وزرائے اعظم کو سفارتی اقدامات اٹھانے کے سلسلے میں انتہائی محدود آزادی حاصل تھی۔
ایران اور مصر کے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے فوراً بعد ہی دوسری عالمی جنگ شروع ہو گئی اور دونوں ممالک نوآبادیاتی طاقتوں خصوصاً برطانیہ کی جنگی پالیسیوں کو فروغ دینے کے آلہ کار بن گئے۔
تاہم جنگ کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک برطانیہ کے زیر کنٹرول مشرق وسطیٰ کے نظام کا حصہ بن گئے جس میں امریکہ اور فرانس کا عمل دخل نسبتاً کم تھا۔
اگرچہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کوئی غیرمعمولی نوعیت کے نہیں تھے مگر اس دورانیے میں کبھی ان کے درمیان تصادم یا دشمنی فروغ نہیں پائی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایران اور مصر دونوں ہی اپنے اپنے ممالک میں غربت پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کرنے اور یورپی دارالحکومتوں سے اپنے اپنے وسائل اور اہم پالیسیوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں میں سرکرداں تھے۔
ایران اور مصر کے تعلقات میں یہ منفرد دور سنہ 1952 میں ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا جب مصر میں فوجی افسروں کے ایک گروپ نے ملک میں برطانوی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور ملک کی معیشت کے اہم شعبوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس اقدام کو بعد میں ’1952 کے انقلاب‘ کا نام دیا گیا جس کے نتیجے میں شاہ فاروق کو معزول ہونا پڑا اور اس طرح مصر سے تقریباً 150 سال پرانی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ بادشاہت کے خاتمے کے تین سال کے اندر جمال عبدالناصر نے نو قائم شدہ جمہوریہ مصر میں اقتدار حاصل کر لیا۔
اس کے بعد سے مصر عرب قوم پرستی اور مشرق وسطیٰ میں جمہوری انقلابات کا علمبردار بن کر سامنے آیا جس کے نتیجے میں جلد ہی ایران بھی سعودی عرب اور عراق جیسی دیگر بادشاہتوں کے ساتھ مصر مخالف کیمپ میں آ گیا۔
عرب قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر کے لیے ایران کے شاہ صرف ایک اور علاقائی بادشاہ ہی نہیں بلکہ ایک غیر عرب بادشاہ بھی تھے جنھیں مغرب کی حمایت حاصل تھی۔
جمال عبدالناصر نے اپنے عرب قوم پرست پراپیگنڈے میں ایران کو خاص طور پر نشانہ بنایا اور ایران پر اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور امریکی ہتھیاروں سے لیس تیار کرنے جیسے الزامات عائد کیے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں باراتیوں کی بس دریا میں گرنے کا واقعہ کیسے پیش آیا؟ بس میں سوار دلہن نے بتا دیا
انور سادات اور شاہ ایران کی دوستی
جمال عبدالناصر کو خطے میں اپنے سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں پے در پے شکستوں کے بعد بالآخر 1970 میں جمال عبدالناصر اچانک وفات پا گئے۔ اُن کے جانشین انور سادات (جو 1952 کی بغاوت میں جمال عبدالناصر کے ساتھ شریک تھے) نے اپنے ملک کی اہم پالیسیوں کو لگ بھگ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔
انور سادات نے اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اخوان المسلمین کے ساتھ مفاہمت کی کوشش کی اور شاہ ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔
ابتدا میں ایرانی مالی امداد کے اقتصادی فائدے پر مبنی تعلقات تیزی سے آگے بڑھے جس کی ثقافتی اور تاریخی مماثلت نہیں ملتی۔
اس وقت انور سادات نے تہران کے دورے کے موقع پر محمد رضا پہلوی کی موجودگی میں فارسی زبان میں ایک عبارت پڑھ کر سُنائی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی دوستی کا تذکرہ تھا۔
اس موقع پر انھوں نے سامعین کو ایرانیوں اور مصریوں کے اُن کی قدیم تہذیبوں سے وسیع تعلقات کی یاد دہانی کروائی اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک مشترکہ تاریخ رکھنے کے باعث ایک جیسے ہیں۔
اپنے سرکاری بیانات میں شاہ ایران اور انور سادات نے ایک دوسرے کی بہت تعریف کی اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کے لیے اپنائیت کا اظہار کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
سنہ 1973 میں مصر نے دوسرے عرب ممالک کے تعاون سے جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا دعویٰ سامنے آنے پر اسرائیل پر حملہ کیا۔ لیکن جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی انھیں ناکامی کا سامنا ہوا۔
جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے ساتھ معاملات طے کرنے میں انور سادات نے سفارتکاری کا راستہ اپنایا اور اس حکمت عملی میں شاہ ایران کی بھرپور حمایت بھی حاصل تھی۔
امریکی دستاویزات کے مطابق جب شاہ ایران دو سال بعد امریکی صدر جیرالڈ فورڈ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن گئے تو انھوں نے مشورہ دیا کہ اگر معمر قذافی جیسی انتہائی انقلابی نظریات کی حامل شخصیات سعودی عرب کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو ایران اور مصر کو سعودی عرب کے تیل کے وسائل پر مشترکہ کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔
بالآخر جب محمد رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ مستقل طور پر اپنا ملک چھوڑ گئے تو سادات نے سابق شاہ ایران کے ساتھ بھائی چارے کا رویہ اپنایا، یہاں تک کہ شاہ کی جلاوطنی کے دور میں انور سادات نے ہمیشہ ان (شاہ ایران) کے ساتھ ایسا برتاؤ رکھا جیسے وہ اب بھی اقتدار میں ہوں۔
یہاں تک کہ جب شاہ ایران کے سب سے بڑے اور اہم حامی امریکہ نے ان کی شدید بیماری کے باوجود انھیں نیویارک شہر کے ہسپتال میں علاج کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تو یہ انور سادات ہی تھے جنھوں نے معزول شاہ کی موت تک کی فراخدلی اور عزت کے ساتھ میزبانی کی۔
محمد رضا شاہ کی موت کے بعد بھی انور سادات نے ان کے لیے بڑے پیمانے پر سرکاری جنازے کی تقریب کا انعقاد کیا جس میں انھوں نے دنیا کو دکھایا کہ انھیں ذاتی طور پر شاہ سے کتنی محبت تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کا علی امین گنڈا پور کی اسمبلی تقریر پر شدید ردعمل
خالد اسلامبولی
ایران میں شاہ کا تختہ الٹ کر حکومت میں آنے والے اسلامی انقلاب پسندوں کے لیے انور سادات سے اُن کی دشمنی شاہ کو پناہ دینے کے معاملے سے آگے بڑھ گئی تھی۔
ایرانی انقلاب کے عروج کے دور میں سادات نے امریکی صدر جمی کارٹر کی سربراہی میں اسرائیلی وزیر اعظم میناچم بیگن کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔
ایرانی انقلاب کے فوراً بعد (مارچ 1979 میں) مصر وہ پہلا عرب ملک بن گیا جس نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے۔
انور سادات کے اس اقدام نے مشرق وسطیٰ میں ہلچل مچا دی اور عرب دنیا کے مرکزی رہنما کی حیثیت سے مصر کی پوزیشن پر سنگین سوالات اٹھائے جانے لگے۔
اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے تین سال بعد، سادات کو خالد الاسلامبولی نامی ایک مصری فوجی افسر نے قتل کر دیا جس کے بعد وسیع پیمانے پر عدم استحکام، سیاسی تشدد، مسلح اسلام پسند بغاوت یا یہاں تک کہ خانہ جنگی کے امکان کے خدشات نے مصر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ایک سخت ردعمل کے طور پر مصری فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے سادات کے نائب حسنی مبارک کی حمایت کی۔
ایران اور مصر کے تعلقات شاہ ایران کی قاہرہ میں موجودگی اور اسرائیل کے ساتھ سادات کے امن معاہدے کی وجہ سے پہلے سے ہی کشیدہ تھے، اور اب یہ سخت دشمنی میں بدل گئے۔
ایران نے سیاسی پراپیگنڈے میں انور سادات کو مارنے والے خالد الاسلامبولی کو ایک بہادر جنگجو کے طور پر دکھایا اور تہران کی ایک مرکزی سڑک کا نام تبدیل کر کے ’شہید خالد اسلامبولی سٹریٹ‘ کا نام دے دیا۔
اور یہ وہ وقت تھا جب مصر اور ایران میں دشمنی اپنے عروج کو پہنچی۔
یہ بھی پڑھیں: شارجہ میں انٹرنیشنل بک فیئر (SIBF) کا 43 واں ایڈیشن شروع ہو گیا.
حسنی مبارک
ایران، عراق جنگ کے آغاز پر مصر نے صدام حسین کی حمایت کی اور جیسے جیسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، مصر صدام حسین کے اہم اتحادیوں میں سے ایک بن گیا اور یہاں تک کہ مصر نے اس جنگ کے لیے عراق کو ہتھیار بھی فراہم کیے۔
ایران کے خلاف کھلی دشمنی کا اظہار اور صدام حسین کی مکمل حمایت نے مصر کو، خاص طور پر، خلیجی ممالک کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی راہ ہموار کی اور علاقائی طاقتوں سے یہ سٹریٹجک اتحاد ایران، عراق جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہا۔
تاہم 1990 کی دہائی کے اوائل میں جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کرنے اور اس سے الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تو مصر عراق کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ تاہم یہ صورتحال بھی تہران اور قاہرہ کے درمیان تعلقات بہتر نہیں کر سکی اور ایران نے مصر پر اسرائیل اور امریکہ کی ’کٹھ پتلی‘ ہونے کا الزام لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
1990 کی دہائی کے وسط میں مصر اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کا زبردست حامی تھا جب کہ ایران نے امریکہ کی جانب سے شروع کیے گئے امن مذاکرات کی شدید مخالفت کی۔
فلسطینیوں نے قاہرہ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے کہ غزہ کا انتظام کیسے کیا جائے۔
اس کے ساتھ مصر، اسرائیل اور اردن کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا بھی بڑا حامی رہا جس کی وجہ سے بالآخر دونوں ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
اس وقت تک مصر کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق سخت بیانات کے اثرات نمایاں طور پر کم ہو چکے تھے۔
تاہم، جو کچھ فلسطینی علاقوں میں ہو رہا تھا وہ ان امن معاہدوں سے مماثلت نہیں رکھتا تھا۔
سنہ 1995 میں فلسطینیوں کے ساتھ امن کے سب سے اہم حامی اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کو قتل کر دیا گیا اور اسرائیل نے اپنا راستہ یکسر بدل دیا۔
اس وقت سے اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین کی 1967 کی سرحدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کو مسترد کر دیا۔
نتیجتاً 21ویں صدی اسرائیل اور خطے کے لیے زیادہ امن کے ساتھ نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر فلسطینیوں کے احتجاج کے ساتھ شروع ہوئی۔
ایران اور مصر اس تنازع کے دوران منقسم اور الگ الگ سائیڈز پر رہے اور اسرائیل کے مسئلے نے تہران اور قاہرہ کو ایک گرہ میں الجھا کر رکھ دیا اور تنازعات اور تعلقات کی بحالی کے لیے بہت کم امید رہ گئی۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس شام 6بجے ہوگا، 9نکاتی ایجنڈا جاری
نئی صدی
21ویں صدی کے آغاز میں تہران اور قاہرہ کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوئے۔
لبنان میں مصر نے حزب اللہ کے خلاف سنی گروہوں کی حمایت کی کیونکہ وہ ایک طاقتور شیعہ اسلامی تنظیم کے عروج اور اثر و رسوخ سے مطمئن نہیں تھا۔
سنہ 2003 میں امریکہ اور برطانیہ نے صدام حسین کا تختہ الٹ دیا جس کے نتیجے میں ایران نے عراق میں طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کیا، جو مصر کو ایک آنکھ نہ بھایا۔
تاہم اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی نے مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان طویل تعطل کے بعد یہ رابطہ کسی حد تک بحال ہوا۔ تاہم ان رابطوں کے بھی کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
سنہ 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک بمباری کی تو ایران اور مصر کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہو گئیں۔
اس جنگ کے دوران مصر نے سعودی عرب کی طرح حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بنایا، تاہم دو سال بعد غزہ جنگ کے دوران دونوں ممالک ایک بار پھر مخالف فریقوں کے بیچ کھڑے پائے گئے۔
سنہ 2009 میں جب صدارتی انتخابات کے نتائج کے خلاف لاکھوں ایرانیوں کے احتجاج کی تصاویر دنیا بھر میں نشر کی گئیں تو مصر کے سرکاری ٹیلی ویژن نے بار بار ان تصاویر کو نشر کیا اور ایرانی حکومت پر غیر مسلح مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے دبانے کا الزام لگایا۔
ایرانی حکومت اُس سال بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں سے بچ تو گئی، لیکن دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد عرب دنیا کے بڑے حصوں میں اسی طرح کی بغاوتیں دیکھنے میں آئیں۔
حسنی مبارک کے معزول ہونے کے بعد اخوان المسلمون کے محمد مرسی نے الیکشن میں صدارتی انتخاب جیت لیا۔
سنہ 2011 میں مرسی نے غیر وابستہ تحریک (نان الائنڈ موومنٹ سمٹ) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے تہران کا سفر کیا۔ اور دو سال بعد محمود احمدی نژاد نے اسلامی تنظیم تعاون کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ کا دورہ کیا۔
لیکن اس کے فوراً بعد وسیع پیمانے پر مظاہروں کے بعد مصری فوج نے مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عبدالفتاح السیسی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد کے سالوں میں سیسی نے سعودی عرب کے ساتھ مکمل طور پر اتحاد کیا۔
یاد رہے کہ سعودی عرب نے محمد بن سلمان کی قیادت میں اپنی خارجہ پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے عروج کا مقابلہ کرتے ہوئے علاقائی طاقت پرغالب آنے کی کوشش کی تھی۔
نیا دور
اگرچہ تہران میں خالد الاسلامبولی سٹریٹ کا نام تبدیل کرنے کے فیصلے سمیت ایران کی کسی کوشش کے نتیجے میں مصر کے ساتھ ہم آہنگی نہیں ہو سکی، لیکن قاہرہ کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کے لیے تہران کی حکمت عملی زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔
چاہے وہ ایران سعودی تنازعات کے دوران مصر کی محمد بن سلمان کی مکمل حمایت کا موقع ہو، یا خطے میں فلسطین کے حامیوں کو الگ تھلگ کرنے کی اسرائیل کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی کوششیں، ایران نے ہمیشہ قاہرہ کے ساتھ اپنے تناؤ کو سنبھالنا چاہا ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے مذاکرات میں شریک اہم ممالک میں مصر پہلے نمبر پر ہے، اور یہ اپنی منفرد جغرافیائی حیثیت اور بڑی آبادی کی بدولت ایران کے لیے ایک اہم اقتصادی اور سیاسی شراکت دار بن سکتا ہے۔
اب جب کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی ایک نازک حد تک پہنچ چکی ہے، ایران نے مصر سے یہ واضح درخواست کی ہے کہ اگر وہ حالیہ کشیدگی اور مستقبل کے ممکنہ تنازعات کی روشنی میں ایران کے ساتھ اتحاد نہیں کرتا تو کم از کم ایران کے دشمنوں کی صف میں شامل نہ ہو۔
ایرانی سیاست دان اور سرکاری میڈیا اس وقت خطے میں جاری دشمنی اور کشیدگی کو اسرائیل مخالف پالیسی کے تحت پیش کرنے میں کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی علاقائی ممالک کے ساتھ کسی قسم کی دشمنی یا مقابلے پر مبنی نہیں ہے، اور اسرائیل ہی ایران اور مشرق وسطی کے دوسرے ممالک کا ’حقیقی دشمن‘ ہے۔
امریکہ کی جانب سے مالی امداد پر انحصار کرنے والے سیسی اور مصر کے فوجی رہنماوں کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ہمیشہ کی طرح مشکل ثابت ہوتا ہے۔
دونوں ممالک میں اختلافات برقرار ہیں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد جیسے گروپوں کے بارے میں ان کے مختلف نظریات بھی اختلاف کی بڑی وجہ ہیں۔
لبنان کی صورت حال، یمن میں حوثی حکومت، شام کی خانہ جنگی، بشار الاسد کا کردار، اور عراق میں پیش رفت بھی دونوں طرف کے تعلقات میں رکاوٹ ہیں۔
اسی لیے ایران اور مصر دونوں کے لیے حالیہ سفارتی تعلقات کے باوجود، تعلقات میں بہتری کے امکانات اور چالیس سال سے زیادہ کی دشمنی اور مقابلے کے خاتمے کی امیدیں غیر یقینی ہیں۔