کارساز حادثے کے کیس میں مقامی عدالت نے ملزمہ نتاشہ دانش کو بری کر دیا
صوبہ سندھ کے شہر کراچی کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے کارساز ٹریفک حادثے کے مقدمے میں صلح نامہ جمع کروائے جانے کے بعد ملزمہ نتاشہ دانش کو بری کر دیا ہے۔
کارساز روڈ پر ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا نے معاف کرنے کا حلف نامہ عدالت میں جمع کروایا تھا۔ اس پر عدالت نے ملزمہ نتاشہ کی اقدامِ قتل کے مقدمے میں چھ ستمبر کو ضمانت منظور کی تھی۔
قبل ازیں 30 ستمبر کو سندھ ہائیکورٹ نے کارساز حادثہ کیس میں منشیات استعمال کرنے کے مقدمے میں بھی ملزمہ نتاشہ کی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے دس لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل کی جانب سے عدالت میں بیان دیا گیا کہ ’ملزمہ گاڑی چلاتے ہوئے نشے کی حالت میں تھیں۔‘
یاد رہے کہ 31 اگست کو ملزمہ نتاشہ دانش پر ریاست کی مدعیت میں منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ نتاشا پر منشیات کے استعمال کا مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے تاہم ابھی تک پولیس نے چالان پیش نہیں کیا۔
ملزمہ کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’میڈیکل رپورٹ میں ابہام ہے کیونکہ خون میں میتھ ایمفیٹامین موجود نہیں لیکن یورین یعنی پیشاب کے نمونے میں موجود تھی۔‘
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ ’ایک ایف آئی آر میں درخواست ضمانت منظور کی جا چکی ہے جبکہ فریقین کے درمیان صلح بھی ہو گئی ہے۔‘
سماعت کرنے والے جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ ’کیس کے متاثرین کی جانب سے ملزمہ کے ساتھ صلح کر لی گئی اور ملزمہ، جو تین بچوں کی والدہ ہے، پچھلے ڈیڑھ ماہ سے جیل میں ہے۔‘
اس مقدمے کے مدعی اور حادثے میں ہلاک ہونے والے عمران عارف کے بھائی امتیاز عارف نے Uses in Urdu کے نامہ نگار ریاض سہیل سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ لواحقین نے ملزمہ نتاشہ کو ’فی سبیل اللہ معاف کیا ہے‘ اور ایسا بغیر کسی معاوضے کے کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا تھا کہ ’کچھ عرصہ قبل نتاشہ کی فیملی بھابھی کے پاس آئی تھی اور تعزیت کی تھی اور معذرت طلب کی تھی۔ میری بھابھی کا دل بڑا ہے انھوں نے انھیں معاف کر دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لواحقین کے پاس تین آپشن تھے، قصاص، دیت اور فی سبیل اللہ، جس میں سے انھوں نے تیسرا آپشن منتخب کیا اور بغیر کسی معاوضے کی معافی دے دی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگوں کی حمایت کے شکر گزار ہیں ’لیکن فیصلہ فیملی نے ہی لینا تھا۔‘
خیال رہے کہ یہ حادثہ 19 اگست کو اس وقت ہوا جب موٹر سائیکل پر سوار عمران عارف اور ان کی بیٹی آمنہ عارف کو عقب سے آنے والی ایک گاڑی نے ٹکر ماری جس کے نتیجے میں دونوں باپ بیٹی ہلاک ہو گئے تھے۔
اس حادثے کے بعد منظر عام پر آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سروس روڈ پر ایک تیز رفتار گاڑی موٹر سائیکل سواروں کو کچل رہی ہے۔
اس گاڑی نے موٹر سائیکل سواروں کو کچلنے کے بعد آگے جا کر ایک اور گاڑی کو بھی ٹکر ماری تھی اور چار مزید افراد کو بھی زخمی کیا تھا۔
اس واقعے کا مقدمہ پروفیسر امتیاز عارف کی ہی درخواست پر درج کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 19 اگست کو شام چھ بج کر 45 منٹ پر انھیں حادثے کی اطلاع ملی تو وہ ہسپتال پہنچے جہاں علم ہوا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کی ڈرائیور ایک خاتون تھیں۔
اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں جن میں دیکھا گیا کہ مشتعل لوگ ایک خاتون کو گھیرے ہوئے ہیں جبکہ بعد میں انھیں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
’ریاست مدعی کیوں نہ بنی‘
حادثے کے فوراً بعد ملزمہ کے وکلا نے ان کی ذہنی حالت خراب ہونے کا دعویٰ کیا اور بعد میں آئی جی سندھ کی جانب سے مقامی اخبار ڈان کو اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ملزمہ کے خون کے نمونے میں ’آئس‘ کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔ اس کے بعد ملزمہ کے خلاف ریاست کی مدعیت میں منشیات استعمال کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
تاہم ساتھ ہی سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا دور بھی چلا جس میں ملزمہ نتاشہ کی ایک ایسی تصویر وائرل ہوئی جو دراصل مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی تھی۔
تاہم جب حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کی جانب سے ملزمہ کو ’معاف کرنے‘ کی خبر سامنے آئی تو سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
ایک صارف کی جانب سے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’یہ متوقع تھا کیونکہ ورثا کا خاندان ملزمہ کے خاندان کے ساتھ ہم پلہ ہو کر مقدمہ نہیں لڑ سکتا تھا۔‘
صارف شاہد صدیقی نے کہا کہ ’اس ناانصافی کے نظام اور معاشی بدحال کے درمیان، ہمارے پاس انھیں روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ ریاست کے لیے کتنی شرمندگی کی بات ہے۔ خاندان کو مدعی کے طور پر کیوں لیا گیا، ریاست مدعی کیوں نہ بنی۔‘
ہلاک ہونے والے عمران عارف اور آمنہ عارف کون ہیں؟
حادثے میں ہلاک ہونے والے عمران عارف کے والد شہزاد منظر روزنامہ مساوات کے اسٹنٹ ایڈیٹر رہے تھے اور جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں اخبار کو پیپلز پارٹی سے قربت کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں وہ قلمی نام تبسم سے جنگ اور اخبار جہاں میں بھی لکھتے رہے۔
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم نے Uses in Urdu کو بتایا کہ حادثے میں ہلاک ہونے والے ان کے بڑے بھائی عمران عارف موٹر سائیکل پر بچوں کے چپس اور پاپڑ سپلائی کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ آمنہ عارف تین بچوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
پروفیسر ڈاکٹر امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ آمنہ نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال قبل نوکری شروع کی تھی اور اقرا یونیورسٹی کی بزنس ڈگری بھی پوری ہونے کے قریب تھی۔
’وہ اپنی یونیورسٹی کے اخراجات خود پورا کرتی تھی۔ بیچلر کے بعد اس نے اپنے والد سے ذاتی اخراجات کے لیے پیسے نہیں لیے بلکہ اپنی تنخواہ گھر پر خرچ کرتی تھی۔ اس نے ہی گھر کا رنگ و روغن کروایا، پردے تبدیل کروائے۔‘
آمنہ عارف کے ساتھ کام کرنے والے ایک سنیئر ساتھی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آمنہ عارف بہت محنتی اور لائق تھیں۔‘
’اس نے بہت کم عرصے میں کام پر عبور حاصل کر لیا تھا اور ہر پراجیکٹ میں بہت اچھے نتائج دیئے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں سیکھنے کی بہت صلاحیت تھی۔‘
آمنہ عارف کے سینیئر ساتھی کا کہنا تھا کہ انھوں نے حال ہی میں ایک پراجیکٹ مکمل کیا تھا اور وہ ایک دوسرے پراجیکٹ پر کام شروع کر چکی تھیں۔ ’حادثے والے دن بھی وہ اسی پراجیکٹ پر کام کر رہی تھیں۔‘