ایکس پر وہ صارفین جو غلط معلومات کے ذریعے ہزاروں ڈالر کما رہے ہیں۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب نے سوشل میڈیا صارفین کو پیسے کمانے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ ایکس نامی پلیٹ فارم، جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر بہت سے صارفین، جو دن بھر الیکشن سے جڑی غلط معلومات، مصنوعی ذہانت سے بنی تصاویر اور سازشی نظریات شیئر کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ انھیں ایکس کی جانب سے ہزاروں ڈالر کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔
Uses in Urdu نے ایسے درجنوں نیٹ ورک کی نشاندہی کی، جن میں شامل اکاؤنٹ ایک دوسرے کا مواد شیئر کرتے ہیں اور اس مواد میں سچی معلومات کے ساتھ جھوٹی خبریں اور جعلی مواد موجود ہوتا ہے۔ اس طریقے کا مقصد مواد زیادہ سے زیادہ صارفین تک پہنچا کر کمائی میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
چند صارفین کے مطابق ان کی مجموعی کمائی ہزاروں ڈالر تک ہوتی ہے۔ ان کے مطابق صارفین ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی پوسٹس کو شیئر کرتے ہیں۔
ایک صارف نے کہا کہ ’یہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کا طریقہ ہے۔‘
ان میں سے چند نیٹ ورک ٹرمپ کے حامی جبکہ کچھ کملا ہیرس کی حمایت کرتے ہیں۔ چند نیٹ ورک کا دونوں سے ہی کوئی تعلق نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی کی انتخابی مہم سے باقاعدہ طور پر جڑے نہیں ہوئے لیکن سیاست دان اور امیدوار ان سے رابطہ کرتے ہیں اور حمایت میں پوسٹس کی درخواست کرتے ہیں۔
نو اکتوبر کو ایکس نے اپنے قوانین میں تبدیلی کی تھی جس کے تحت ادائیگی کا طریقہ بدلا گیا۔ اس طریقے کے تحت زیادہ رسائی رکھنے والے صارفین کو ہونے والی ادائیگی کو ان کی پوسٹس پر لائیکس، شیئر اور کمنٹس کی بنیاد پر کی جانے لگی نہ کہ ان کی پوسٹوں پر اشتہارات کی بنیاد پر۔
بہت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، صارفین کو ان کی پوسٹ سے پیسہ کمانے کا موقع دیتے ہیں تاہم ان میں سے اکثر کے قوانین اجازت دیتے ہیں کہ وہ غلط معلومات پھیلانے والے اکاؤنٹس کو معطل کر دیں۔ ایکس پر غلط معلومات کے حوالے سے اس طرح کے قوانین یا گائیڈ لائنز موجود نہیں۔
اگرچہ ایکس پر صارفین کی تعداد ان دوسری ویب سائٹس سے کم ہے لیکن سیاسی بیانیے پر اس کا اثرورسوخ کافی زیادہ ہے۔ ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ایکس صارفین کو اشتعال انگیز مواد پھیلانے کے پیسے دے رہا ہے چاہے وہ سچ ہو یا نہ ہو اور وہ بھی امریکی سیاست کے انتہائی اہم اور حساس لمحے میں۔
Uses in Urdu نے جن صارفین سے بات کی ان کی جانب سے کمائی کے دعووں کی جانچ کی گئی اور ان کے دعوے درست تھے۔
ان اکاؤنٹس کی جانب سے جو مواد شیئر کیا گیا اس میں الیکشن فراڈ کے بارے میں ایسے دعوے بھی موجود تھے جنھیں ماہرین غلط قرار دے چکے ہیں جبکہ صدر اور نائب صدر کے عہدے کے امیدواروں کے خلاف جنسی نوعیت کے الزامات بھی شامل تھے۔ ان میں سے بہت سے گمراہ کن اور جھوٹے دعوے ایکس سے دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک بھی جا پہنچے جیسا کہ فیس بک اور ٹک ٹاک۔
مثال کے طور پر ایکس کے ایک صارف نے، جن کے بہت کم فالوورز ہیں، نے بتایا کہ انھوں نے خود ہی ایک تصویر بنائی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کملا ہیرس کی جوانی میں میکڈونلڈز میں کام کرنے کی تصویر ہے۔
ایکس پر جولائی میں ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں سازشی نظریات بھی پھیلائے گئے جنھیں دوسری سوشل میڈیا سائٹس پر بعد میں دیکھا گیا۔ ایکس نے Uses in Urdu کے سوالوں کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی پلیٹ فارم کے مالک ایلون مسک کے انٹرویو کی درخواست پر جواب دیا۔
’پیسہ کمانا بہت آسان ہو گیا‘
’فریڈم ان کٹ‘ جہاں سوشل میڈیا کا مواد تیار کرتے ہیں وہاں امریکی پرچم کی شکل میں بتیاں روشن تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خود مختار ہیں لیکن وہ کملا کی بہائے ٹرمپ کو صدر دیکھنا چاہیں گے۔
ان کے دوست انھیں ’فری‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ دن میں 16 گھنٹے تک اسی جگہ پر مواد بنانے والے درجنوں دوسرے لوگوں اور نیٹ ورک سے رابطے میں رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنا اصلی نام اور شناخت ظاہر نہیں کی کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے اہلخانہ کی نجی معلومات کسی نے آن لائن ظاہر کر دی تھیں جس کے بعد ان کو دھمکیاں بھی ملیں۔
انھوں نے مجھ سے مل کر یہ وضاحت دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ ایکس پر مختلف نیٹ ورک کیسے کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ چند ماہ سے انھوں نے امریکی انتخابات پر باقاعدگی سے مواد اپ لوڈ کرنا شروع کیا اور اس وقت سے ان کا مواد دیکھنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ریاست فلوریڈا میں ٹامپا میں ان کے گھر میں انھوں نے اپنی سکرین پر بہت سے مواد دکھایا۔
اس میں سے کچھ مواد تو صاف طور پر طنزیہ تھا جیسے ایک جگہ ٹرمپ کو ہالی وڈ کے فلمی کردار ’میٹرکس‘ کے طور پر دکھایا گیا جبکہ ایک اور تصویر میں جو بائیڈن کو ایک آمر کے طور پر پیش کیا گیا۔
چند مصنوعی ذہانت سے بنی تصاویر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ حقیقی نہیں۔ جیسے ایک تصویر میں ایک شخص اپنے سیلاب میں گھرے مکان کی چھت پر موجود ہے جبکہ لڑاکا طیارے اوپر پرواز کر رہے ہیں اور ساتھ یہ عبارت درج ہے کہ ’پانچ نومبر کو یہ یاد رکھیں کہ سیاست دانوں کو آپ کی کوئی فکر نہیں۔‘
پانچ نومبر کو امریکہ میں صدارتی الیکشن ہونا ہے۔
یہ تصویر ٹرمپ کے اس دعوے کی عکاسی کرتی ہے جس کے مطابق شمالی کیرولینا ریاست میں ہیلین طوفان کے وقت لوگوں کی مدد نہیں کی گئی اور ہیلی کاپٹر نہیں بھیجے گئے۔ اس دعوے کو شمالی کیرولینا کی نیشنل گارڈ رد کر چکی ہے جن کا کہنا ہے کہ 146 پروازوں کی مدد سے سینکڑوں لوگوں کی جان بچائی گئی تھی۔
تاہم فریڈم کا کہنا ہے کہ وہ اس تصویر کو ایک ایسے آرٹ کے طور پر دیکھتے ہیں جس نے ایک بحث کو جنم دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کسی کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہیں کی لیکن وہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے اس سے بھی زیادہ کر سکتے ہیں۔
جب سے ان کی پروفائل مونیٹائز ہوئی، یعنی ان کے مواد پر انھیں ادائیگی کی جانے لگی ہے، ان کے مطابق وہ ماہانہ ایکس سے ہزاروں ڈالر کما رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں لوگوں کے لیے پیسہ کمانا اب بہت آسان ہو گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ایسے صارفین کو بھی جانتے ہیں جو لاکھوں میں کما رہے ہیں۔ ’ان کے لیے یہ پیشہ بن چکا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ متنازع مواد کو ہی زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ اس کا موازنہ وہ ’سنسنی خیز روایتی میڈیا‘ سے کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے جو اشتعال انگیز مواد پوسٹ کیا جاتا ہے وہ حقیقت پر ہی مبنی ہوتا ہے لیکن ان کے مطابق بہت سے اکاؤنٹ ایسا مواد شیئر کرتے ہیں جو درست نہیں ہوتا لیکن پیسے کمانے کا آسان راستہ ہے۔
فریڈم ان کٹ نے ان خدشات کو مسترد کیا کہ غلط اور جھوٹا مواد الیکشن پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’حکومت پورے انٹرنیٹ کے مقابلے میں زیادہ غلط معلومات پھیلاتی ہے۔‘
فریڈم نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مقامی سیاست دان ان کے اور ان جیسے اکاؤنٹس سے حمایت کے لئے رابطہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سے سیاست دانوں نے ان سے بات چیت کی اور میمز، مصنوعی تصاویر اور آرٹ بنانے کی درخواست کی جس سے ان کو فائدہ ہو۔
لیکن کیا ایسا مواد الیکشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ فریڈم کا کہنا ہے کہ ’ایسا ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں ٹرمپ کو بہت سی حمایت اسی طرح مل رہی ہے۔‘
ان کی رائے میں ’روایتی میڈیا کمپنیوں کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر لوگوں کا اعتماد زیادہ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا عمران خان کو دوپہر تین بجے پیش کرنے کا حکم
’سچ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں‘
’براؤن آئیڈ سوزن‘ کے ایکس پر دو لاکھ فالوورز ہیں۔ وہ اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو ہر گھںٹے میں کئی بار کملا ہیرس کی حمایت میں مواد شیئر کرتا ہے۔
وہ اپنے نام کا صرف پہلا حصہ استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ وہ آن لائن دھمکیوں اور ہراسانی کو قرار دیتی ہیں۔
لاس اینجیلس سے بات کرتے ہوئے سوزن نے بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا سے پیسہ کمانے کا کبھی نہیں سوچا تھا اور نہ ہی ان کو علم تھا کہ ان کے فالوورز کی تعداد اتنی بڑھ جائے گی۔
کسی دن وہ 100 سے زیادہ پیغامات بھی شیئر کرتی ہیں اور ان کی انفرادی پوسٹ 20 لاکھ لوگوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کو پیسہ صرف اس نیلے نشان کی وجہ سے ملتا ہے جو ایکس نے انھیں دے رکھا ہے۔ ’میں نے یہ نہیں مانگا تھا، نہ میں نے اسے چھپایا لیکن میں اسے واپس نہیں کر سکتی۔ تو میں نے مونیٹائیز پر کلک کر دیا۔’
ان کا اندازہ ہے کہ وہ ایک مہینے میں چند سو ڈالر کماتی ہیں۔
ان کی چند زیادہ وائرل ہونے والی پوسٹس میں، جن کو 30 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے، میں ایسے سازشی نظریات شامل ہیں جن میں عندیہ دیا گیا کہ ٹرمپ نے خود پر قاتلانہ حملے کا ڈرامہ رچایا تھا۔
وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ حملہ آور سمیت مجمعے میں موجود ایک شخص بھی ہلاک ہوا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں ٹرمپ کے زخم پر شک ہے اور ساتھ ہی سکیورٹی کی ناکامی پر بھی۔
ان کے مطابق اس واقعے کی تفتیش ٹھیک طریقے سے نہیں کی گئی۔ ’اس میں سچ تلاش کرنے کا کوئی راستہ نہیں اور اگر کوئی اسے سازشی نظریہ کہنا چاہتا ہے تو بے شک کہے۔‘
وہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے میمز بھی بناتی ہیں جن میں ٹرمپ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چند میں ٹرمپ کو ان کی عمر سے زیادہ بڑا یا ان کی طبیعت ناساز دکھائی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تصاویر ٹرمپ کی موجودہ حالت دکھاتی ہیں۔
چند میمز میں ٹرمپ کو ایک آمر دکھایا گیا تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی تصاویر واضح طور پر حقیقی نہیں لگتی ہیں۔ فریڈن ان کٹ کی طرح سوزن نے بھی کہا کہ امیدوار ان سے رابطہ کر چکے ہیں۔
’لوگ چاہتے ہیں کہ یہ حقیقی ہو‘
جب ایک جعلی تصویر کی وجہ سے یہ بحث چھڑی کہ آیا کملا ہیرس واقعی کبھی میکڈونلڈز پر کام کرتی تھیں یا نہیں تو کچھ دیر بعد ٹرمپ کے حامیوں کو احساس ہوا کہ یہ ایک مختلف عورت کی تصویر تھی جس میں ردوبدل کی گئی تھی۔ پھر انھوں نے الزام لگایا کہ یہ تصویر ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ہی آئی تھی۔
’ان فائنائیٹ ڈوڈ‘ کے نام سے ایکس پر ایک اکاؤنٹ نے پہلی بار لکھا کہ یہ جعلی تصویر ہے۔ اس تصویر کے پیچھے ’بلیک‘ نامی شخص کا ہاتھ تھا جس نے مجھے بتایا کہ اس نے تجربے کے طور پر یہ تصویر شیئر کی تھی تاہم اس اکاوئنٹ کے اتنے زیادہ فالوورز نہیں تھے۔
جب میں نے اس سے ثبوت مانگا تو اس نے مجھے بتایا کہ اصلی فائلز اس کے پاس ہی ہیں لیکن وہ دے نہیں سکتا کیونکہ ثبوت سے فرق نہیں پڑتا۔
انھوں نے کہا کہ لوگ مواد اس لیے شیئر نہیں کرتے کیونکہ وہ اصلی ہوتا ہے بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ سچ ہو۔ دونوں طرف کے لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن بس یقین کرنے کے لیے مختلف کہانیاں چن لیتے ہیں۔
بلیک کی سیاسی وابستگی واضح نہیں اور اس کا کہنا ہے کہ یہ سیاست سے جڑا معاملہ نہیں۔
ایکس نے آن لائن یہ کہا ہے کہ وہ صارفین کی آواز کی حفاظت کرنا چاہتا ہے۔ ایکس اب مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کی مدد سے تیار تصاویر اور ویڈیوز پر اضافی عبارت لکھتا ہے کہ ان میں ردوبدل کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ اس نے کمیونٹی نوٹس کے نام سے ایک فیچر متعارف کروایا ہے جس میں صارفین کسی پوسٹ کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
برطانوی الیکشن کے دوران ایکس نے بہت سے ایسے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی جنھوں نے جھوٹے کلپ شیئر کیے تھے تاہم امریکی انتخاب کے دوران مجھے اپنے سوالات کے جواب نہیں مل سکے اور اس سے فرق پڑتا ہے کیونکہ ایسی سوشل میڈیا کمپنیاں الیکشن پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔