2 دن فرعونوں کی سرزمین پر گھوم پھر لیا، قدیم مصریوں کے رسم و رواج سمجھ آگئے، شاہی دبدبے رعب اور عظمتوں کا سوچا تو مبہوت اور خوفزدہ سا ہوگیا
قسط: 47
فرعونوں سے ایک اور ملاقات
مصنف: محمد سعید جاوید
عبدو نے اگلے دن مجھے دکھانے کے لئے قاہرہ کی بہت ساری جگہوں کا انتخاب کیا ہوا تھا جس کے لئے وہ دس بجے مجھے لینے آنا چاہتا تھا لیکن میرے ارادے تو کچھ اور ہی تھے۔ اب جب کہ 2 دن مسلسل فرعونوں کی سرزمین پر گھوم پھر لیا تھا اور ان کے محلات اور مدفن بھی دیکھ لئے تھے، یہ ضروری ہوگیا تھا کہ میں ایک بار پھر قاہرہ کے عجائب گھر جا کر نئے سرے سے وہاں رکھے ہوئے سارے نوادرات دیکھوں اور نئی حاصل کی گئی معلومات کی روشنی میں تاریخ کا مطالعہ کروں تاکہ ان کے اس زمانے کے رہن سہن کا صحیح طور پر ادراک ہو سکے۔ ویسے بھی یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اب میں پہلے سے بہتر پوزیشن میں تھا کہ مصر کی ان قدیم روایات اور تاریخ کو کچھ اور سمجھ سکوں۔
عبدو کا منصوبہ
عبدو کو میں نے اپنا منصوبہ بتایا۔ اس نے میرے ساتھ عجائب گھر جانے کی پیشکش کر دی، لیکن میں نے اسے کہا کہ وہ دس بجے کے بجائے دو بجے ہوٹل آ جائے۔ دراصل میں اکیلا ہی وہاں جانا چاہتا تھا اور پورے سکون سے چند گھنٹے وہاں گزارنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اس کی بظاہر کوئی خاص ضرورت بھی نظر نہیں آ رہی تھی اور میں اس کو بلاوجہ باندھ کر نہیں رکھنا چاہتا تھا۔
عجائب گھر کی دوبارہ زیارت
اور پھر اگلے دن ایسا ہی ہوا۔ میں صبح ایک بار پھر عجائب گھر کھلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا اور اب جب کہ مجھے قدیم مصریوں اور فرعونوں کے رسم و رواج سمجھ آگئے تھے میں بڑا ہی پُراعتماد ہوگیا تھا۔ پھر جو کچھ ان فرعونوں، معبدوں اور مدفونوں میں دیکھا تھا اس کو ذہن میں رکھ کر وہاں سے نکلنے والے نوادرات کو ان کی صحیح جگہ رکھا اور ان کے شاہی دبدبے رعب اور عظمتوں کا سوچا تو ایک لمحے کے لئے میں خود بھی مبہوت اور خوفزدہ سا ہوگیا۔
بے بس خدا
ایک بار پھر وہاں کے محافظوں کو کچھ چائے پانی پیش کرکے اس مسکن میں جا پہنچا جہاں اَن گنت لوگوں کی ممیاں پٹیوں میں لپٹی ہوئی پڑی تھیں۔ ان پر اچٹتی ہوئی ایک نظر ڈال کر میں تیزی سے ایک مرتبہ پھر اس بوڑھے مگر عظیم کہلائے جانے والے فرعون کے سرہانے جا کھڑا ہوا جو 3 دن پہلے بھی اسی حالت میں پڑا ہوا تھا۔
اس دوران وہ اپنی ایک انگلی تک تو ہلا نہ سکا تھا، کہاں اس کو اپنے خدا ہونے کا زعم تھا۔ میں کافی دیر تک اس کو دیکھتا ہی رہا اور تصور میں اس کی عظیم الشان سلطنت کا نقشہ کھولے بیٹھا رہا۔ یہ بظاہر بوڑھا اور کمزور سا شخص اپنے وقت میں اس علاقے کا طاقت ور ترین شہنشاہ تصور کیا جاتا تھا جس کے قہر اور رعب سے دنیا تنکے کی طرح کانپتی تھی۔ جس کے ایک حکم پر محل تعمیر ہو جاتے تھے اور پھر دوسرے ہی لمحے انہیں تہس نہس کر دیا جاتا تھا۔ آنکھوں کی ذرا سی جنبش اور ہاتھ کے معمولی سے اشارے سے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں چھین لی جاتی تھیں اور کچھ کو موت سے کچھ لمحے قبل ہی معاف کرکے رعایا کو اپنے خدا ہونے کا تاثر دیا جاتا تھا جس کے ہاتھ میں ان سب کی جان تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں