لندن روڈ: یورپی سیاحوں کے لیے پاکستان کا دروازہ جو اب ’ڈنکی روٹ‘ بن چکی ہے
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ’لندن روڈ‘ کو دیکھ کر پہلی نظر میں شاید کوئی بھی اس بات پر یقین نہ کرے کہ یہ چند دہائیاں قبل یورپ سے آنے والے سیاحوں کے لیے پاکستان میں داخلے کا ایک اہم راستہ ہوا کرتی تھی۔
میں نے خود بلوچستان کے ضلع نوشکی کو ایران کی سرحد سے ملانے والی اس سڑک پر کئی بار سفر کیا ہے، لیکن میں اس کی تاریخ سے بے خبر رہا۔
آج کل اس سڑک کو بطور ’ڈنکی‘ روٹ زیادہ پہچانا جاتا ہے کیونکہ کچھ عرصے سے یہ راستہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے یورپ جانے والوں کے حوالے سے بھی خبروں میں آتا رہا ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب سینکڑوں یورپی مسافر گاڑیوں، بسوں اور موٹر بائیکس کے ذریعے اسی راستے سے پاکستان آیا کرتے تھے۔
تو یہ لندن روڈ کیا ہے؟
اس سڑک کی کہانی خاصی قدیم ہے اور اس کہانی کو دہرانے سے پہلے ہمیں ذرا تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔
اگر اس سڑک کے روٹ کو دیکھا جائے تو یہ راستہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تفتان تک پاکستان کی حدود میں واقع ہے، اور وہاں سے آگے ایران، ترکی، یونان اور یورپی ممالک سے ہوتے ہوئے برطانیہ تک پہنچتا ہے۔ اسی کی حتمی منزل کی وجہ سے اسے لندن روڈ کا نام دیا گیا۔
تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس سڑک کی دفاعی اہمیت کا احساس 19ویں صدی کے شروع میں انگریزوں کو ہوا، جب روس کی سلطنت نے جنوبی خطے میں اپنی دفاعی قوت بڑھانے کی کوششیں تیز کر دیں۔
تاریخ دان اور محقق یار جان بادینی بتاتے ہیں کہ اس بات کا تذکرہ شاہ محمود حنیفی نے اپنی کتاب ’مون سٹورٹ الفنسٹن اِن ساؤتھ ایشیا‘ میں بھی کیا ہے۔
حنیفی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس دوران بلوچستان کے خطے کے بارے میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے کیونکہ یہ کئی صدیوں سے کسی ریاستی انتظامیہ کے ماتحت نہیں رہا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ برطانوی راج کے دوران روسیوں اور نپولین کے انڈیا پر قبضے کا خوف تھا، جس کے نتیجے میں 1809 میں انہوں نے انڈیا اور فارس کے درمیان بلوچستان میں مختلف ایجنٹس کو معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا۔
ان ایجنٹس کو ان بیابانوں کی تاریخ، یہاں کے رہائشیوں کا رہن سہن اور مال مویشی کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کا کہا گیا تھا۔
اس کتاب کے مطابق جن دو ایجنٹس کو بلوچستان بھیجا گیا تھا، ان میں لیفٹیننٹ ہنری پوٹنگر اور چارلس کرسٹی شامل تھے۔ پوٹنگر بلوچستان گھوڑے بیچنے والے تاجر کے بھیس میں پہنچے تھے، جس کے بعد وہ ایران اور پھر ترکی تک گئے۔
یہ اس دور کا پہلا ایسا سفر خیال کیا جاتا ہے جو انڈیا سے بلوچستان، ایران اور سلطنتِ عثمانیہ تک کیا گیا ہو۔
بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری احمد بخش لہڑی بتاتے ہیں کہ یہی لندن روڈ برطانوی دور سے قبل مغل دور میں دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
انھوں نے اس بات کا تذکرہ اپنی کتاب ’آن دی مڈ ٹریک‘ میں بھی کیا ہے۔
احمد بخش لہڑی نے بتایا کہ ’یہ راستہ مغل دور میں بھی دفاعی اہمیت کا حامل تھا اور بیرونی حملوں سے بچنے کے لیے اس پر ہمیشہ سے فوج یا سپاہی موجود رہتے تھے کیونکہ اس کی سرحد موجودہ ایران سے ملتی ہیں جس کے نتیجے میں مغل دور میں بھی اس رستے کی حفاظت کی جاتی تھی۔‘
مغلوں اور انگریزوں نے جہاں اس سڑک کو دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہیں تقسیمِ برصغیر کے بعد آنے والی دہائیوں میں یہ یورپ اور پاکستان کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ بن کر سامنے آئی۔ جہاں پہلے گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا تھا، وہیں اب گاڑی، بسوں اور موٹر بائیکس کے ذریعے لندن سے کوئٹہ تک کا سفر شروع ہوا۔
تحقیق کرنے کے دوران مجھے کئی ایسی تصاویر ملیں جو 1960 سے 1970 کی دہائی کی تھیں جن میں انگریز سیاح کوئٹہ کے نزدیک اسی لندن روڈ پر مختلف سنگِ میل کے پاس کھڑے ہیں یا پھر کسی ڈبل ڈیکر بس کی تصویر ہے جس میں لوگ سڑک کنارے پِکنک منا رہے ہیں۔
محقق یار جان بادینی ان تصاویر کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اکثر اُس زمانے میں یورپی ممالک سے لوگ گاڑیوں یا بس میں سفر کرکے کوئٹہ پہنچتے تھے اور پھر یہاں سے ان کا رُخ انڈیا کی طرف ہو جاتا تھا۔‘
اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے راستے میں بہت سارے سرائے اور چائے خانے بھی نظر آتے ہیں۔ بادینی بتاتے ہیں کہ یہ سرائے زائرین یا مسافروں کے لیے بنائے گئے تھے۔
اسی طرح کا ایک چائے خانہ تاج محمد کا ہے جو 1970 کی دہائی میں کھولا گیا تھا۔
ان کے بیٹے ممتاز احمد نے بتایا کہ ابتدا میں یہ ایک سرائے تھی جہاں مسافروں کو رات گزارنے کی سہولت دی جاتی تھی، لیکن 1999 میں ان کے والد کے انتقال کے بعد یہ چائے خانے میں تبدیل کر دی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ’اب بہت لوگ نہیں آتے کیونکہ اب زیادہ تر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جہاز سے سفر کرکے اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔ اب کچھ تعداد میں موٹر بائیک والے آتے ہیں جن کو صرف چائے ہی چاہیے ہوتی ہے۔‘
اسی جگہ مجھے اشفاق نامی استاد بھی ملے جن کی اس سڑک سے خاصی یادیں جُڑی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ 'اس روڈ کو این-40 بھی کہا جاتا ہے اور اس کی تجارتی اہمیت یہ ہے کہ کوئٹہ سے پھل، سبزیاں اور دیگر اشیا اسی لندن روڈ سے ہوتے ہوئے ایران تک جاتی ہیں۔'
اشفاق کا کہنا تھا کہ 'میں نے اپنے بچپن میں کئی بار ایسی ڈبل ڈیکر بسیں دیکھی جن پر انگریز کوئٹہ تک آیا کرتے تھے۔ انگریزی زبان تو میرے والدین کو نہیں آتی تھی لیکن وہ اشاروں سے ان لوگوں کو اپنے گھر میں کچھ دیر کے لیے بلا لیا کرتے تھے۔'
اس زمانے میں اس راستے سے کوئٹہ پہنچنے والوں کے لیے جو ہوٹل بنائے گئے ان میں لوڈز اور بلوُم سٹار سمیت دیگر چھوٹے ہوٹل شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لوُڈز ہوٹل 1935 میں بنا تھا اور اس کے مالک ایک پارسی فیروز مہتا تھے۔
ایک وقت تھا جب اس ہوٹل میں غیرملکیوں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی لیکن اب چھاؤنی کی حدود میں آنے کی وجہ سے یہاں کا رخ کرنے والوں کو سخت سکیورٹی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔
لُوڈز کے مالکان بھی اب پاکستان میں نہیں رہتے اور اس کی دیکھ بھال ڈار صاحب نامی مینیجر کے ہاتھوں میں ہے جو ہم سے بات کرنے سے کتراتے رہے۔
ڈار صاحب کے برعکس بلُوم سٹار ہوٹل کے مالک فہیم خان نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد نے 1970 کی دہائی میں اس ہوٹل کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ ان کے ہوٹل میں آتے رہے اور آج بھی رجسٹریشن فارمز پر ان کے نام اور قومیت کی تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'ایک وقت ایسا بھی تھا کہ یہاں پر پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کسی نہ کسی ذریعے سے یہاں پہنچ ہی جاتے تھے۔'
فہیم خان نے بھی سکیورٹی صورتحال کو آنے والوں کے لیے ایک مسئلہ قرار دیا۔ 'مثال کے طور پر یہاں کوئی یورپ سے آئے اور اسے جگہ جگہ این او سی دکھانا پڑے یا ہوٹل میں بیٹھ کر این او سی ملنے کا انتظار کرنا پڑے تو لوگ تنگ تو ہوں گے۔ اسی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک سے آنے والے لوگ پاکستان میں تین یا پانچ دن جبکہ انڈیا میں چھ، چھ ماہ رہتے ہیں۔'
وقت کے ساتھ ساتھ جہاں سیاسی حالات اور امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے یورپ سے اس راستے کے ذریعے پاکستان سفر کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی گئی وہیں یہ سڑک غیرقانونی طریقے سے بیرونِ ملک سفر کرنے والوں میں مقبول راستے کے طور پر بدنام ہو گئی۔
ایسے واقعات کی کمی نہیں جب انسانی سمگلروں نے یورپ میں سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر پاکستانی نوجوانوں کو انھی راستوں سے ایران اور پھر ترکی کے راستے یورپ لے جانے کا یقین دلایا اور پھر یا تو وہ ان ممالک کے سرحدی محافظوں کے ہتھے چڑھ گئے یا پھر ان کی فائرنگ کے نتیجے میں زندگی کی بازی ہی ہار گئے۔
تاہم 'ڈنکی روٹ' کا لاحقہ جڑنے کے باوجود ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اس راستے کی تاریخی اہمیت کو جانتے ہوئے اس پر سفر کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر دانیال شاہ بھی ان میں سے ایک ہیں جنھوں نے کئی سال پہلے اس راستے پر سفر کرنے کا ارادہ کیا تھا جو حال ہی میں پورا ہوا۔
دانیال اب بیلجئیم میں زیرِ تعلیم ہیں۔ Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس سال انھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ لندن سے کوئٹہ تک سفر کریں گے اور اس میں انھیں دو ماہ کا عرصہ لگا۔
بات چیت کے دوران وہ اسے 'ڈنکی روٹ' ہی کہتے رہے اور بقول ان کے غیرقانونی تارکینِ وطن کی جانب سے اس سڑک کے زیادہ استعمال کی وجہ سے انھیں یورپی ممالک کی کچھ سکیورٹی چیک پوسٹس پر مشکلات کا سامنا بھی رہا۔
انھوں نے کہا کہ 'سفر شروع کرنے پر مجھے سمجھ آیا کہ ایک پاکستانی اور ایک انگریز کے اس سڑک پر سفر کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہو سکتا ہے۔ ہمیں سکیورٹی چیک پوسٹ پر جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یورپی ممالک سے آنے والوں کو نہیں کرنا پڑتا۔'
دانیال نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ کروشیا کے مقام پر انھیں باقی مسافروں سے الگ کرکے ان سے بدتمیزی کی گئی۔ 'جس کی ایک وجہ اس روٹ کا غیر قانونی استعمال ہے۔'
دانیال کہتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان پہنچتے بھی ہیں انھیں سکیورٹی سمیت گھومنا پڑتا ہے جو یہاں تک پہنچنے کے تجربے کا مزہ کچھ حد تک خراب کرتا ہے لیکن کیا کریں یورپی مسافروں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔'