جب 27 گھنٹے تک چٹان کے سوراخ میں پھنسے بچے کو باہر نکالا گیا تو اس نے چیخ ماری: ‘مجھے پکڑ لو، پھر واپس نہیں جانا چاہتا’
’’30 اکتوبر کو طیب، جو 12 سال کا ہے، اپنے معمول کے مطابق مال مویشی لے کر باہر نکلا۔۔۔ وہ عموماً پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی میں جاتا ہے جہاں ایک نالہ بہتا ہے۔۔۔ مال مویشی آگے پیچھے چلتے رہتے ہیں اور طیب ان کی نگرانی کرتا ہے۔‘‘
اس وادی اور دو پہاڑوں کے درمیان بڑے بڑے پتھر موجود ہیں۔
’’طیب وہاں موجود تھا کہ اچانک دو بکرے آپس میں لڑ پڑے اور 12 سالہ طیب ڈر کے مارے اپنی جان بچانے کے لیے پیچھے ہٹا تو ایک چٹان میں موجود سوراخ میں گر گیا۔ اس کے جسم کا کندھے سے اوپر کا حصہ باہر تھا جبکہ باقی نیچے گیا تھا۔‘‘
کہوٹہ کے رہائشی طیب کے والد نذیر احمد نے Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی تفصیلات بتائی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو بعد میں ریسکیو کر لیا گیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’’تقریباً صبح دس بجے یہ واقعہ پیش آیا ہوگا۔ اس علاقے میں عموماً آمدورفت کم ہوتی ہے اور اس روز اس طرف کوئی بھی نہیں گیا تھا۔‘‘
’’طیب چیخیں مارتا رہا، شور کرتا رہا اور مدد کے لیے بلاتا رہا مگر دوپہر ظہر کی نماز تک اسے کوئی مدد نہیں ملی۔ ‘‘
’’جب قریب کی مسجد کے موذن ظہر کی اذان دینے کے لیے آیا اور اس نے یہ آوازیں سنیں تو مسجد میں آنے والے نمازیوں کے ساتھ مل کر دیکھنے گئے کہ کیا ماجرا ہے اور کون چیخ رہا تھا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ ’’انھیں یہ دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا کہ ایک بچہ کندھوں تک چٹان میں دھنسا ہوا ہے۔‘‘
نذیر احمد کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا ڈیرہ قریب ہی تھا اور قریب ہی گاؤں بھی موجود تھا۔ ہمیں اطلاع ملی تو کافی لوگ موقع پر پہنچ گئے تھے۔‘‘
’’پہلے تو مختلف طریقوں سے طیب کو نکالنے کی کوشش کی جاتی رہی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ طیب جس مقام پر پھنسا ہوا تھا، وہاں موبائل کے سگنل بھی نہیں تھے۔ کئی گھنٹے تک ہم اسی طرح کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ رات ہو گئی۔‘‘
ریسکیو 1122 کو اطلاع دینے سے پہلے کہوٹہ کے چھمیتر گاؤں کے لوگ کئی گھنٹے تک اپنی مدد آپ کے تحت بچے کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے تھے جس دوران طیب زخمی بھی ہوا۔
جب یہ کوششیں مکمل طور پر ناکام ہو گئیں تو علاقے کے ایک شخص احسان احمد ستی نے 31 اکتوبر کی رات تقریباً ڈیڑھ بجے ریسکیو 1122 کو اطلاع دی۔
ریسکیو اہلکار جب موقع پر پہنچے تو بچہ اور علاقے کے لوگ ساری امیدیں ختم کر بیٹھے تھے۔ اس صورتحال میں ریسکیو اہلکاروں کے لیے آپریشن کرنا بھی مشکل تھا۔
آئیے جانتے ہیں کہ ریسکیو اہلکاروں نے بچے کو اس سوراخ سے کیسے باہر نکالا؟
’بچہ ہمت ہار چکا تھا‘
راولپنڈی ریسیکو کی ٹیم کی سربراہی ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر صبغت اللہ نے کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ انھیں اطلاع ملی تھی کہ ’ایک بچہ پہاڑ کے سوراخ میں پھنسا ہوا ہے۔ ٹیم نے صورتحال کے مطابق تمام مشینری ساتھ رکھی جس میں چٹان میں سوراخ کرنے اور ملبہ صاف کرنے والی جدید مشینری بھی شامل تھی۔‘
صبغت اللہ کے مطابق انھیں 31 اکتوبر کو رات تقریباً ڈیڑھ بجے اطلاع ملی تھی اور وہ تین بجے موقع پر پہنچ چکے تھے۔ ’اس میں 35 کلومیٹر گاڑی کا راستہ تھا جس کے بعد ساز وسامان اور مشینری اٹھا کر اونچائی تک باقی سفر پیدل بھی طے کیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جب موقع پر پہنچے تو صورتحال انتہائی گھمبیر تھی۔ رات کا اندھیرا تھا۔ بچہ ہمت ہار چکا تھا اور اس کا شوگر لیول کم ہو چکا تھا۔‘
صبغت اللہ کے مطابق ’اپنے مشن کی منصوبہ بندی کرنے سے پہلے لازم تھا کہ ہم بچے کا حوصلہ بڑھاتے۔ اس سے پہلے بچے کو مقامی طور پر جس طرح نکالنے کی کوشش کی گئی تھی جس میں اسے تکلیف ہوئی تھی۔ ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کی ٹانگوں وغیرہ پر زخم بھی آ چکے ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے بچے کے ساتھ بات چیت کی اور اس کے والد اور چھوٹے بھائی کو قریب بلایا۔ اس دوران اسے گلوکوز دیا گیا تاکہ اس کا شوگر لیول بہتر ہو۔ جس کے بعد اسے کچھ کھانے پینے کے لیے آمادہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ درد دور کرنے کے لیے ادویات دی گئیں۔‘
10 گھنٹے ڈرلنگ
صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’بچے کا ایک پاؤں نیچے پھنسا ہوا تھا اور دوسرا آزاد تھا۔ اس پھنسے ہوئے پاؤں کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ سکتا تھا۔ اس کے پاؤں گہرائی میں چار فٹ پر تھے۔ نیچے پانی بھی موجود تھا۔ وہ تقریباً ایک فٹ سے زیادہ چوڑے سوراخ میں پھنسا ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بنایا گیا کہ بچہ جہاں پر دھنسا ہوا تھا اس کے برابر میں ایک سوراخ کیا جائے اور ایک ریسیکو اہلکار نیچے جا کر بچے کا پھنسا ہوا پاؤں چھڑا کر باہر نکالے۔ مگر یہ آسان کام نہیں تھا، اس وقت سردی ہو چکی تھی اور اس عمل میں بچے کو مزید چوٹ بھی لگ سکتی تھی۔‘
صبغت اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بچے کو ہیلمٹ اور فائر سوٹ فراہم کیا تاکہ وہ سردی سے محفوظ رہ سکے اور اگر چٹانیں گرنے کی صورت میں بچے کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد چٹان میں ڈرل کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ’چٹان میں ڈرل کرنا خطرناک تھا کیونکہ یہ پتھر کمزور تھا اور اس کے نیچے پانی موجود تھا۔ ہمارے پاس جنریٹر اور فیول موجود تھا جبکہ لاجسٹک مدد کے لیے مزید طلب کی گئی تھی۔‘
صبغت اللہ کہتے ہیں کہ ’ہماری ٹیم نے مشین کے ذریعے انتہائی مہارت اور احتیاط کے ساتھ تقریباً 10 گھنٹے تک ڈرل کر کے اتنا سوراخ کیا کہ ہمارے ایک ریسکیو اہلکار نے اس سوراخ سے نیچے جا کر بچے کا پھنسا ہوا پاوں نکال لیا۔‘
’اس کے بعد بچے کو ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ضروری ایکسرے وغیرہ سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی بھی چوٹ نہیں آئی ہے اور چند گھنٹوں بعد بچے کو گھر بھیج دیا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جب بچہ سوراخ سے باہر نکلا تو اس اور اس کے والدین، رشتہ داروں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کئی گھنٹے گزارنے کے بعد صحیح سلامت اس سوراخ سے باہر نکل آیا ہے۔
’طیب بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے چھوڑنا نہیں، مجھے مضبوطی سے پکڑیں میں دوبارہ نہ گر جاؤں۔‘