پاکستان کی گھریلو کرکٹ میں کامیابی کا آسان راز
جب ملتان میں انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں پہلی اننگز کے 500 سے زائد مجموعے کے بعد بھی ایک اننگز کی تاریخی شکست پاکستان کا مقدر بنی تو پاکستان نے ہوم ایڈوانٹیج حاصل کرنے کے لیے سپن پچز کی حکمتِ عملی اپنائی جس نے انہیں آخری دونوں میچز کے ساتھ ساتھ سیریز بھی اپنے نام کرنے میں مدد دی۔
چند سال کے انتظار اور مسلسل 11 ہوم ٹیسٹ میچز میں فتح سے محرومی کے بعد یہ لیجنڈری فوک داستانوں جیسی کامیابی ایک بڑی خوشی کا سبب بنی، مگر کمنٹری کرنے والے رمیز راجہ کی بھنویں تنی ہوئی تھیں اور ان کے لہجے میں ناگواری اس قدر واضح تھی کہ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
وہاں جہاں انہوں نے ایک کپتان کی پچھلی چھ ناکامیوں پر متواتر زور دیا، وہیں انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ آئندہ شان مسعود کی ٹیم سیمینگ پچز پر کیسے کامیابی حاصل کر پائے گی۔
لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ مسلسل فلیٹ ہوم پچز کھیلنے سے پاکستان کے کھیل میں سیمینگ کنڈیشنز میں کیا ترقی ہوئی؟
یہ قصور رمیز راجہ کا بھی نہیں تھا۔ بطور چیئرمین آسٹریلیا کی میزبانی کے دوران، انہوں نے ہمیشہ سے نتیجہ خیز راولپنڈی پچ کو نہ صرف بانجھ کیا بلکہ کمنٹری باکس میں بیٹھے اپنے ساتھیوں پر بھی زور دیتے رہے کہ پچ پر کوئی تنقید نہ کی جائے۔
ان کی چیئرمن کی حیثیت سے یہ بھی کہا کہ پچز کی تیاری کے معاملے میں پاکستان تاریک ادوار میں رہا ہے جسے بدلنے کے لیے دہائیاں درکار تھیں، مگر علیم ڈار اور عاقب جاوید کے تخلیقی ذہنوں نے اس سفر کو دو ہفتے میں طے کردیا ہے، اس کے بعد ضروری ہے کہ سالوں سے پاکستانی پچز کے بارے میں ہونے والی بحث کی گرد بھی اب سمیٹ دی جائے۔
بنگلہ دیش کے ہاتھوں پہلی شکست کے بعد نسیم شاہ نے بھی پی سی بی سے شکوہ کیا تھا کہ انہیں ہوم ایڈوانٹیج اٹھانے کی کوئی سمت تلاش کرنی چاہیے۔ تاریخی طور پر پاکستان اکثر آسٹریلوی پچز کے باؤنسی کی نقالی میں ناکام کوششیں کرتا آیا ہے جو ہائی وے جیسی پچز کی پیدائش کا موجب رہی ہیں۔
پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ خطہ عموماً بیٹنگ کے لیے سازگار فلیٹ پچز کی وجہ سے معروف رہا ہے۔ آج بھی سارو گنگولی مزاح کے طور پر انضمام الحق اور محمد یوسف کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ ان کے ضخیم کریئر کی بیٹنگ اوسط پاکستان کے 'روڈ' پر ہی مبنی ہے جو پچز کے نام پر آپریٹ ہوتے رہے ہیں۔
لیکن پاکستانی پچز کبھی بھی بولرز کے لیے ایسے قبرستان ثابت نہیں ہوتیں جیسی ہم نے پچھلے چند برسوں میں دیکھی ہیں۔ اگر ان ہی پچز پر فضل محمود، خان محمد، سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے سیمرز نے عمدہ اوسط سے کامیابیاں حاصل کی ہیں تو وہاں اقبال قاسم، عبدالقادر، مشتاق احمد، ثقلین مشتاق اور دانش کنیریا نے بھی اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
تاریخی اعتبار سے راولپنڈی پاکستان کا وہ گراؤنڈ رہا ہے جہاں سپنرز کو کبھی سہولت نہیں ملی، جبکہ کراچی وہ وینیو ہے جہاں سپنرز اور سیمرز دونوں کو یکساں مواقع فراہم کیے گئے۔ لاہور میں دھیمے باؤننس کی وجہ سے بلے بازوں کی زندگی آسان ہوتی رہی جبکہ پاکستانی سیمرز اِن دشوار کنڈیشنز میں بھی ڈسپلن اور ریورس سوئنگ کے ساتھ نتائج نکالنے میں کامیاب رہے۔
پاکستان میں ہوم کرکٹ کی واپسی کے بعد، اگر پچھلے پانچ سالوں میں کھیلی گئی ٹیسٹ کرکٹ کو دیکھا جائے، تو پہلی تین سیریز میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلے گئے پانچ ٹیسٹ میچز میں سے چار فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ سری لنکا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ بارش کے باعث ڈرا ہوا۔
باقی ماندہ چار مکمل میچز میں پاکستانی بولرز نے 619 اوورز پھینک کر 23.9 کی زبردست اوسط سے 80 وکٹیں حاصل کیں اور یہ چاروں میچز پاکستان کے نام رہے۔
راولپنڈی اور کراچی کی دو مختلف مزاج والی پچز پر پاکستان کے لیے بیس وکٹیں حاصل کرنا اب کوئی چیلنج نہیں رہا۔ یہ صرف پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ مہمان ٹیموں کے پیسرز اور سپنرز کے لیے بھی یہ حالات کافی موافق رہے، مگر پھر اس منظر نامے میں رمیز راجہ کا کردار آتا ہے اور سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔
اپنے پہلے میچ میں راولپنڈی کی پچ پر جو شاندار کارکردگی انہوں نے دکھائی، وہاں پانچ دن میں تقریباً 1200 رنز کے عوض صرف 14 وکٹیں حاصل ہوئیں۔ ہر وکٹ پر رنز کی اوسط 84.7 تھی، جیسے بلے بازوں کو ایک ففٹی کے ساتھ سینچری بڑے آرام سے مل رہی ہو۔
اسی راولپنڈی کی پچ پر جہاں ایک سال قبل شاہین آفریدی اور حسن علی نے 202 رنز کے عوض 15 وکٹیں حاصل کی تھیں، وہاں پیٹ کمنز، مچل سٹارک، ہیزل ووڈ، شاہین آفریدی اور نسیم شاہ کی پیس بولنگ نے پانچ دن میں 135 اوورز میں 305 رنز کے عوض صرف چار وکٹیں حاصل کیں۔
رمیز راجہ نے ایک بار میں پانچ بہترین ورلڈ کلاس ٹیسٹ بولرز کی بولنگ اوسط کو 76 رنز سے بھی زائد کر دیا اور یہ بھی بتایا کہ پچز کی بہتری میں کئی سیزنز کی محنت درکار ہوگی۔
لیکن عاقب جاوید اور علیم ڈار کے سلیکشن پینل نے اپنے جادوئی ماحول میں یہ ثابت کر دیا کہ اگر بنیادی سوجھ بوجھ استعمال کی جائے تو کسی بھی قسم کی پچ تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔
راولپنڈی ٹیسٹ کے بعد برینڈن میکلم بھی یہ سوچ کر حیران تھے کہ اتنا آسان کام کرنے میں پی سی بی کو اتنے سال کیوں لگ گئے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان ٹرننگ پچز سے ہوم ایڈوانٹیج حاصل کر بھی لیتا ہے تو سیمنگ اور باؤنسی کنڈیشنز میں کیا کرے گا؟
اگرچہ اس سوال کا پہلا جواب یہ ہے کہ جب گرین ٹاپ کے نام پر فلیٹ ہائی ویز بنی تھیں، تب بھی پاکستان سے باؤنسی کنڈیشنز میں کیا کچھ حاصل ہوا؟
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آسٹریلین کنڈیشنز کا تنوع پاکستان کے لیے ایک عمدہ مثال بن سکتا ہے، جہاں ہر قسم کی پچز ہونے کے باوجود مہمان ایشیائی ٹیموں کو پہلے میچ میں پرتھ میں بازیاب کیا جاتا ہے تاکہ اپنے ہوم ایڈوانٹیج سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
دوسرا میچ اکثر میلبرن میں ہوتا ہے، جہاں ایک بار پھر اضافی باؤنس ایشیائی بلے بازوں کی ذہنی پریشانی کو بڑھاتا ہے اور اگرچہ تیسرا میچ سڈنی یا ایڈیلیڈ کی موزوں باؤنس میں ہوتا ہے، مگر اس وقت تک ایشیائی ٹیمیں ذہنی طور پر اتنی شکست خوردہ ہو چکی ہوتی ہیں کہ موافق کنڈیشنز میں بھی مشکل محسوس کرتی ہیں۔
اگر پاکستان آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ جیسے مہمانوں کے لیے اس ماڈل کو ہوشیاری سے استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے، تو اس کے لیے ہوم کرکٹ میں برتری کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
ملتان کی پچ اپنی سپن کی مہارت ثابت کر چکی ہے۔ لاہور کی پچ اکثر دھیمے باؤنس اور ریورس سوئنگ کی خصوصیت رکھتی ہے، جبکہ راولپنڈی ہمیشہ پیس اور باؤنس کے لیے معروف رہی ہے، تو کراچی میں ابتدا میں کچھ سیم اور بعد ازاں سپن و ریورس سوئنگ کو فائدہ حاصل رہا ہے۔
سو، اگر اگلی بار بین سٹوکس یا پیٹ کمنز کی ٹیم دورے پر آئے اور پاکستان اس کا استقبال ملتان کی گرد اڑاتی پچ پر کرے، دوسرے میچ میں لاہور کے دھیمے باؤنس سے اس کا رستہ روکے اور اس کے بعد تیسرا میچ بھلے راولپنڈی یا کراچی میں گرین ٹاپ بنا کر بھی کھیل لے تو بھی مہمان ٹیم وائٹ واش سے شاید ہی بچ پائے۔
یہ وہ تنوع اور توازن ہے جسے سمجھنے کے لیے بنیادی انسانی شعور اور موسموں کی ہلکی سی سوجھ بوجھ ہی کافی ہو سکتی تھی، مگر پی سی بی کی ذہانت نے یہ گتھی سلجھانے میں اتنے سال لگا دیے کہ مہمان کپتان بھی اپنی حیرت نہ چھپا سکے۔