ڈولفن ایان: ‘مجھے ویڈیو بنا کر مسلسل بلیک میل کیا گیا، اسی خوف کے باعث صلح کی تھی’
’اس لیے صلح کی تھی کہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دی جائے گی۔۔۔‘
یہ کہنا ہے معروف ٹرانس جینڈر ڈولفن ایان کا جن کی برہنہ ویڈیو مبینہ طور پر وائرل کیے جانے کے بعد پشاور پولیس نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
پولیس کے مطابق اس معاملے پر وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ساتھ مل کر تفتیش کر رہی ہے۔
ایان نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’میں ان لوگوں (ملزمان) کے خلاف طویل عرصے سے لڑ رہی ہوں۔ میں نے نہ تو ہمت ہاری ہے نہ ہی حوصلہ۔ میں انصاف کے حصول تک اپنی لڑائی جاری رکھوں گی۔‘
پشاور پولیس کے ترجمان عالم خان کے مطابق پولیس اس وقت ملزمان کی گرفتاری کے لیے ضلع مہمند، چارسدہ اور پشاور میں چھاپے مار رہی ہے۔
عالم خان نے کہا کہ ’پولیس ٹرانس جینڈرز کے حقوق کا ’تحفظ کرے گی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کی خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔
’ماضی میں ویڈیو کے ڈر سے صلح کی تھی‘
ڈولفن ایان نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ماضی میں بھی ان کی جانب سے ملزمان کے خلاف مقدمات درج کروائے گئے تھے تاہم انھوں نے صرف اس لیے ’صلح کی تھی کہ یہ میری ویڈیو وائرل نہ کریں۔ مگر اب ویڈیو وائرل کر دی ہے تو انھوں نے میرے خاموش رہنے کا جواز ختم کر دیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہ مجھے قتل بھی کر دیں تو کر دیں۔ مگر میں انصاف کے لیے لڑائی جاری رکھوں گی۔‘
ڈولفن ایان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے ماضی میں مقدمہ درج کروانے پر ملزم کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم انھیں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔ اس کے بعد ڈولفن ایان کے بقول ملزم نے بیان حلفی دیا تھا کہ ’اگر میں صلح کر لوں تو وہ میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گا اور اس کو کبھی بھی وائرل نہیں کرے گا، نہ ہی مجھے بلیک میل کرے گا۔‘
ڈولفن ایان، جو خود بھی ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کے لیے سرگرم رہتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’میں کسی بھی طور پر نہیں چاہتی تھی کہ میری نازیبا ویڈیو وائرل ہو۔ میری اور میرے خاندان کی بے عزتی ہو۔
’میں نے ان سے صلح کر لی تھی کہ اس طرح میری ویڈیو ڈیلیٹ ہو جائے گی۔۔۔ مگر ان لوگوں نے اس تحریری معاہدے کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔‘
ڈولفن ایان کا کہنا ہے کہ ان کا اصل نام ماہین محمد ہے اور ان کے پاس سول انجینیئرنگ کا ڈپلوما بھی ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے حالات سے مجبور ہو کر تعلیم چھوڑ دی تھی اور آمدن کمانے کے لیے پرفارم کرنا شروع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: رانی پور کمسن ملازمہ ہلاکت کیس، ہائیکورٹ کا مقدمہ واپس اے ٹی سی بھیجنے کا حکم
ڈولفن ایان کی ویڈیو پر درج کیے گئے مقدمے میں کیا ہے؟
ڈولفن ایان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے متعلق یہ مقدمہ پشاور پولیس نے پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا جس میں قتل کی دھمکی اور ریپ سمیت دیگر دفعات بھی شامل ہیں۔
اس مقدمے میں پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 اور 21 شامل ہیں جو بلیک میلنگ اور نازیبا مواد شیئر کرنے سے متعلق ہیں۔ سیکشن 20 کے تحت تین سال قید اور دس لاکھ جرمانہ جبکہ سیکشن 21 کے تحت پانچ سال قید اور پچاس لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔ اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی ریپ کے خلاف دفعہ 376 بھی شامل ہے جس کے تحت 10 سے 25 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
تھانہ ہشت نگری میں درج اس مقدمے میں ڈولفن ایان کا کہنا ہے کہ سنہ 2023 کے دوران وہ شبقدر کے علاقے میں ایک پروگرام کے لیے موجود تھیں جہاں سے ملزم اپنے تین، چار ساتھیوں کے ہمراہ انھیں ’اٹھا کر اپنے حجرے میں لے گئے تھے۔‘
ان کا الزام ہے کہ ملزمان نے ’اسلحے کے زور پر نازیبا ویڈیوز بنائیں اور اپنے موبائل فونز میں محفوظ کر لیں۔‘
ان کا الزام ہے کہ ملزمان نے چھ ماہ تک انھیں بلیک میل کیا اور اپنے ڈیرے پر بلا کر تشدد اور ریپ کیا۔ ’جب تنگ آ کر میں نے ان کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا تو انھوں نے 29 اکتوبر کو باہمی مشاورت کے ساتھ میری ویڈیو کو وائرل کر دیا۔‘
پشاور پولیس کے ترجمان عالم خان نے Uses in Urdu کو بتایا کہ پولیس کی ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف علاقوں میں چھاپے مار رہی ہیں۔
’ویڈیوز بنا کر خواجہ سراؤں کو بلیک میل کیا جاتا ہے‘
صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کی تنظیم ’ٹرانزسیکشن‘ کی سربراہ فرزانہ ریاض نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ڈولفن ایان کے معاملے پر آواز اٹھانے پر انھیں دھمکیاں دی گئی ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’ڈولفن ایان کی ہی نہیں بلکہ کئی اور خواجہ سراؤں کی بھی نازیبا ویڈیوز بنائی گئی ہیں جن کو بلیک میلنگ، بھتہ خوری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘ ان کے مطابق خواجہ سرا خوفزدہ ہونے کی وجہ سے اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
فرزانہ ریاض نے کہا کہ "خواجہ سرا اپنی ویڈیو کے وائرل ہونے کے خوف سے ان کے تمام مطالبات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر ان کی ویڈیو وائرل ہوگئی تو ان کا خاندان انہیں (نام نہاد) غیرت کے نام پر قتل کر دے گا، اور یہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔"
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرانس جینڈر مختلف تقاریب پر پرفارم کرنے کے لیے جاتے ہیں، مگر بعض اوقات انہیں "بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا جاتا ہے اور ویڈیو بنالی جاتی ہے۔۔۔ اگر بلیک میل ہوتا رہے تو اس کی ساری زندگی عذاب بن جاتی ہے اور اگر بلیک میل نہ ہو تو اس کی ویڈیو وائرل کر دی جاتی ہے۔"
صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کے حقوق کی تنظیم ٹرانز سیکشن کے ریکارڈ کے مطابق نام نہاد غیرت اور دیگر وجوہات کی بنا پر "2015 سے 2024 تک 145 خواجہ سرا قتل ہو چکے ہیں۔"
پشاور میں انسانی حقوق کے کارکن قمر نسیم نے بتایا کہ صوبے میں خواجہ سراؤں کو ایسی ویڈیوز کی بنیاد پر دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ٹرانس جینڈر برادری کی حفاظت کے لیے حکومت اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو تجاویز دی گئی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے کوآرڈینیٹر رضوان اللہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ "خواجہ سرا کمیونٹی اس وقت انتہائی خطرے کا شکار ہے اور یہ بہت آسان ہدف ہوتے ہیں۔"
ان کی رائے میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبے میں ٹرانس جینڈر برادری کی حفاظت کے لیے مناسب قانون موجود نہیں۔
رضوان اللہ نے کہا کہ "خواجہ سراؤں کا بڑا مسئلہ روزگار ہے۔ زیادہ تر کو ناچ گانا کرنا پڑتا ہے، اور جب یہ فنکشنز میں جاتے ہیں تو یہ آسان ہدف بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے خواجہ سراؤں کو روزگار فراہم کرنے پر توجہ دی جارہی ہے، مگر ان مجوزہ قوانین کا مسودہ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس موجود ہے۔ وہاں سے منظوری کے بعد ہی اسے صوبائی اسمبلی سے منظور کروایا جا سکے گا۔