کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ، پاکستان کے لیے کون زیادہ موزوں ہے؟-1
یکم جنوری 2018 کی صبح اسلام آباد میں ایک ہنگامہ برپا ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر (موجودہ ایکس) پر پاکستان پر دھوکہ دہی اور جھوٹ کا الزام لگایا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے فوراً جواب دیا اور تجزیہ کاروں نے اس ٹوئٹ کو صدر ٹرمپ کی جانب سے اسی سال اگست میں دی گئی نئی افغان پالیسی کی ایک کڑی سمجھا۔
یاد رہے کہ 2018 کے نئے سال کے پیغام میں ٹرمپ نے پاکستان کے متعلق ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ 'امریکہ نے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد احمقانہ انداز میں دی، اور ہمارے لیڈروں کے بے وقوف سمجھتے ہوئے انھوں نے ہمیں چھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ انھوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی جنھیں ہم افغانستان میں پکڑنا چاہتے۔'
اگلے ہی سال، وہی صدر ٹرمپ پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر انہیں اپنا 'اچھا دوست' کہتے رہے۔
اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ صرف افغانستان تک محدود نہیں، لیکن حالیہ برسوں میں دونوں نے ایک دوسرے کو ایک ہی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھنے والے دونوں طرف تبدیل ہوتے رہے ہیں، لیکن نکتہ نظر وہی رہا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کی جانب امریکی پالیسی اور بیانات میں سختی نظر آئی۔
آج جب دو روز بعد امریکہ میں صدارتی انتخاب ہونے جا رہا ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہی سوال اٹھتا ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ جیتے تو پاکستان امریکہ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا، یا پھر اگر کملہ ہیرس امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوتی ہیں تو پاکستان کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں گی؟
اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ اہم ہے کہ دو چیزیں سمجھی جائیں۔ ایک یہ کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بنیاد کن عوامل پر ہے اور دوسرے یہ کہ دونوں امیدواروں کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں ہم ان عوامل پر کیا اثرات دیکھ سکتے ہیں۔
امریکہ ہمیشہ سے پاکستان کو سیکورٹی کے تناظر میں ہی دیکھتا آیا ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے جب بھی واشنگٹن میں پاکستان کا نام لیا گیا ہے، عموماً اسے افغانستان کے حوالے سے اہمیت دی گئی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے دوران امریکہ کی جنوبی ایشیا پالیسی میں انڈیا کو خاص اہمیت دی گئی ہے جو پاکستان شاید مثبت انداز میں نہیں دیکھتا۔ ادھر پاکستان کے لیے امریکہ معاشی حوالے سے اہم ہے۔
پاکستان کی برآمدات کا تقریباً پانچواں حصہ امریکہ جاتا ہے اور پاکستان کے لیے بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف جیسے اداروں میں امریکہ کا اہم کردار ہے۔
’ٹرمپ کے جیتنے پر اُتار چڑھاؤ، کمالہ کی صورت میں تسلسل‘
جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر اور یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا کے سینیئر مشیر ڈین مارکی کہتے ہیں کہ اس تناظر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکی صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کی پاکستان پالیسی کیا ہوگی، یہ کہنا مشکل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور میں ہم نے نسبتاً غیر متوقع پالیسی فیصلے دیکھے۔
’آپ کو یاد ہوگا کہ ایک طرف انھوں نے پاکستان کے حوالے سے ایک ٹویٹ میں شدید الفاظ کا چناؤ کیا اور دوسری جانب عمران خان کا دورہ ہوا جہاں ٹرمپ نے گرم جوشی دکھائی۔ تو ٹرمپ 2.0 میں یہ رشتہ کیسا رہے گا، کہنا ذرا مشکل ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان کی نظر سے دیکھیں تو میرے خیال میں انھیں اس رشتے میں قدرے اتار چڑھاؤ کے لیے تیار ہونا چاہیے جن کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ اگر کملہ ہیرس اقتدار سنبھالتی ہیں تو یہ کہنا شاید درست ہوگا کہ ہمیں بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیوں کا تسلسل نظر آئے گا۔
ان کے مطابق مگر یہاں ایک چیز اہم ہے۔ چاہے یہ غلط ہے یا صحیح حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں امریکہ انڈیا کے تعلقات اور افغانستان کی صورتحال کا اہم کردار ہوتا ہے۔ افغانستان کے معاملے میں بائیڈن دور کافی خراب رہا اور ممکن ہے کہ ہیرس اس سے مختلف پالیسی اپنائیں گی۔
’اب (امریکی فوج کے) انخلا کو کئی سال ہو چکے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ وہاں پر پالیسی کچھ تبدیل کی جائے جس کے پاکستان پر اثرات ہو سکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ امریکہ کو بایئڈن دور کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ روابط میں اضافہ کرنا پڑے۔ اسی طرح انڈیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ممکن ہے کہ ہیرس بائیڈن پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھیں مگر کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے انڈیا کو بہت زیادہ توجہ یا اہمیت دی ہے، شاید ہیرس اس میں تھوڑی کمی کریں اور انڈیا کو وہ اہمیت نہ ملے جو صدر بائیڈن کے دور میں ملی تھی۔ اس لیے شاید امریکہ کی جنوبی ایشیا کی پالیسی میں کچھ ایڈجسمنٹ ہو۔‘
کملہ ہیرس کی والدہ کا آبائی تعلق انڈیا سے تھا اور وہ اپنی تعلیم کے لیے امریکہ منتقل ہو گئی تھیں۔ مگر بیشتر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈیا پالیسی کے حوالے سے کملہ ہیرس بائیڈن انتظامیہ سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہوں گی۔ بائیڈن کی نائب صدر بننے سے پہلے جب کملہ ہیرس ایک امریکی سینیٹر تھیں تو انھوں نے انڈیا میں انسانی حقوق کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا، خصوصاً مودی سرکار پر کشمیر کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے۔
اس کے علاوہ بطور نائب صدر بھی انھوں نے وزیراعظم مودی کے ساتھ ملاقاتوں میں وہ گرم جوشی نہیں دکھائی جو صدر بائیڈن کی جانب سے دکھائی گئی۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر بھی کملہ ہیرس کو قدرے نئی سوچ رکھنے والے رہنماؤں میں سے مانا جاتا ہے۔ ان کے ذاتی خیالات میں شاید یہ بھی اہم ہے کہ نوجوان ڈیموکریٹس کے لیے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار اہم ہیں۔
ایک معاملہ جو کملہ ہیرس اور ان کے ووٹرز کے لیے اہم ہے، وہ ہے ماحوالیاتی تبدیلی۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات انتہائی شدت سے نظر آ رہے ہیں۔ اسی لیے ممکن ہے کہ کمالہ ہیرس کی انتظامیہ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہو۔
یاد رہے کہ کملہ ہیرس نے رواں برس اگست میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن میں اپنی تقریر کے دوران صاف ہوا میں سانس لینے اور صاف پانی تک رسائی کو بنیادی حقوق کے زمرے میں شامل کیا۔
ادھر ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں ہم نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ جمہوری اقدار پر ان کی توجہ زیادہ نہیں رہی۔ وہ فوجی آمروں جیسے کہ کم جونگ ان سے بھی مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر جمہوری اقدار کے حوالے سے دباؤ ڈالیں گے شاید غلط ہوگا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے ٹرمپ اس کی صداقت پر سوال اٹھا چکے ہیں اور ان کے ووٹرز میں بھی ایک بڑی تعداد اس کو ایک مسئلے کی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔
صدر ٹرمپ نے ماضی میں کئی بار ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں غیر مصدقہ باتوں کی تائید کی ہے۔ اپنے دورِ حکومت میں انھوں نے پاور پلانٹوں سے خارج ہونے والی گیسز کی حدود بڑھائیں، گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کی اشیاء کے انرجی اسٹینڈرڈز کو کم کیا، اور سب سے اہم یہ کہ امریکہ کو 2015 کے پیرس میں ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی معاہدے سے بیدخل کر دیا۔
ڈین مارکی کہتے ہیں کہ ’ان کے دور میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس حوالے سے روابط میں اضافے کا امکان کم ہی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: معلوم ہو گیا: دو ماہ سے غائب اڈیالہ جیل کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کا سراغ مل گیا
ٹرمپ اور کملا پاکستان-چین تعلقات کو کیسے دیکھیں گے؟
یہاں ٹرمپ انتظامیہ اور بائیڈن انتظامیہ کے درمیان بیانات میں زیادہ تر پالیسیوں میں فرق کم ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اگرچہ صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں چین سے درآمدات پر عائد کردہ ٹیکسز کی سخت مخالفت کی تھی، تاہم انھوں نے بھی اپنے دور میں انھیں برقرار رکھا۔
امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی اور عسکری مقابلہ بھی جاری ہے مگر دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر اقتصادی طور پر انحصار بھی ہے، اسی لیے اس سرد مہری یا کشیدگی کو زیادہ بڑھایا نہیں جا سکتا۔
اگر کملا ہیرس کے چین سے متعلق خیالات کا جائزہ لیا جائے تو ماضی میں انھوں نے چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور آبادی کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے امریکہ میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی تھی۔
مگر شاید ان کی چین سے متعلق پالیسی کو سمجھنے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ انھوں نے تین بار بطور نائب صدر جنوبی مشرقی ایشیا کا دورہ کیا اور فلپائن، ویتنام، سنگاپور اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں امریکی دوستی کی یقین دہانی کرائی تاکہ یہ ممالک چین کے اثر و رسوخ کے تابع نہ آئیں۔ مگر کیا وہ پاکستان کے ساتھ بھی ایسا طرز عمل اختیار کریں گی؟
اس پر ڈین مارکی کہتے ہیں کہ اس تناظر میں یہ سوال اہم ہے کہ کیا مستقبل کی کسی بھی امریکی انتظامیہ میں پالیسی ساز پاکستان اور چین کے درمیان پیدا ہونے والی کسی بھی دوری کو دیکھیں گے اور کیا وہ اس دوری سے فائدہ اٹھانے یا اسے برقرار رکھنے کے لیے ضروری وسائل مختص کریں گے یا نہیں۔
کیا امریکی پالیسی سازوں کی نظر میں ایسا کرنے سے امریکہ کو کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا؟ اس سوال پر ڈین مارکی کہتے ہیں کہ بائیڈن دور میں ہم نے ایسا نہیں دیکھا۔ بائیڈن دور میں تو شاید پاکستان کے حوالے سے ایک بے ضرر قسم کی غفلت ہی رہی ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان فیل ہو جائے یا حد سے زیادہ معاشی مسائل میں گھرا رہے، اسی لیے اس نے آئی ایم ایف جیسے معاملات میں پاکستان کی حمایت کی ہے مگر کیا ہیرس انتظامیہ پاکستان کو مختلف انداز میں دیکھے گی، اس کا امکان کم ہی ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ حتیٰ کہ افغانستان کی صورتحال بدل جائے یا ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں کوئی تبدیلی آئے تو پھر یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کا رویہ تھوڑی بہت تبدیلی کو دیکھے۔ یا پھر پاکستان ان روابط میں بہتری کے لیے کوشش کرے اور یہ پیغام دے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور پاکستانی عوام چین کے حوالے سے اپنی خودمختاری کو اہم سمجھتے ہیں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔
’خطے کے سیاسی حالات کے تناظر میں پاکستان کو نہیں دیکھا جاتا‘
اگلے چند دنوں میں ہونے والے انتخابات میں جو بھی امریکی صدر منتخب ہو، خارجہ پالیسی کے حوالے سے اہم ترین مسائل روس-یوکرین کی جنگ اور مشرق وسطیٰ کا تنازع ہوں گے۔
اس حوالے سے بیشتر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطی کے حوالے سے واشنگٹن میں پاکستان کا ذکر نہیں ہوتا۔
ڈین مارکی کہتے ہیں کہ 'میں جانتا ہوں کہ پاکستان ایران کا ہمسایہ ملک ہے، اور مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے ممالک سے پاکستان کے گہرے سیاسی اور معاشی تعلقات ہیں۔
'تاہم امریکی پالیسی ساز جب بھی مشرقِ وسطی کے معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں تو چاہے غلط یا صحیح وہ پاکستان کو اس تناظر میں نہیں دیکھتے۔'