بین المذاہب ہم آہنگی، خواتین اور خواجہ سراؤں کی با اختیاری، پانی اور نکاسی آب کی بحالی: کراچی میں عوامی آگاہی مہم کا آغاز کر دیا

کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ
کراچی (ڈیلی پاکستان آن لائن) کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ (KWSSIP) کا ذیلی پروجیکٹ ابتدائی طور پر کراچی کی دو کچی آبادیوں (عیسٰی نگری اور صوبہ نگر) میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ کچی بستیوں کے عوام کو سماجی طور پر متحرک اور بااختیار بنایا جانا بھی اس پروجیکٹ کے خاص مقاصد میں شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بانی کو بتایا جب تک بڑا الائنس نہیں بنتا حکومت پر دباﺅ نہیں بڑھ سکتا: فواد چودھری
پروجیکٹ کی قیادت
کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ کی جانب سے جینڈر سپیشلسٹ اور فوکل پرسن کچی آبادی پروگرام حمیدہ کلیم ہیں، جبکہ نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (NRSP) کی نمائندگی جاوید اقبال کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: انگلینڈ کے خلاف تیسرا ٹیسٹ، قومی ٹیم میں زیادہ تبدیلیاں نہ کرنے کا فیصلہ
NRSP کی شمولیت
واضح رہے کہ NRSP نامی ادارہ بطور Implementing Partner اس پروجیکٹ میں شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ داخلہ پنجاب نے محفوظ پنجاب ایکٹ 2025 کا مسودہ تیار کر لیا
کچی آبادیوں کی صورتحال
کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ کی جانب سے جینڈر سپیشلسٹ اور فوکل پرسن کچی آبادی پروگرام حمیدہ کلیم کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں کچی آبادیوں میں پانی اور نکاسی آب کی صورتحال خراب ہے، عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات کے حل کے لیے یہ پروجیکٹ کام کررہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محرم الحرام کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس آج ہوگا
بین المذاہب ہم آہنگی
نیشنل رورل سپورٹ پروگرام کے نمائندے جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ پانی اور نکاسی آب کی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سنگ میل بھی عبور کر رہا ہے، جیسے کہ اس پروجیکٹ کے تحت بین المذاہب ہم آہنگی بھی فروغ پا رہی ہے۔ کرسچن، مسلم اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس پروجیکٹ سے وابستہ ہو کر ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آگیا ہے جہاں وہ مل جل کر اپنے علاقوں کی بہتری اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم اور پرجوش ہیں۔
خواتین اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی شمولیت
دوسرا یہ کہ خواتین اور خواجہ سراؤں کی شمولیت کو بھی ممکن بنایا گیا ہے تاکہ محرومی، بے بسی اور لاچارگی دم توڑ سکے اور بااختیاری اور خود مختاری ایک نیا جنم لے لے۔ خواتین اور ٹرانس جینڈر کمیونٹی اپنے علاقوں کی بہتری کے لیے آگے آسکیں گے، فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہوں گے، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گے اور اپنے سماجی کردار کو بااعتماد طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔