سرینگر پر قبضے کے لیے کشمیر آنے والے پاکستانی قبائلی جنگجوؤں کو کیوں خالی ہاتھ واپس آنا پڑا؟
27 اکتوبر 1947 کو طلوع ہونے والا سورج وادیِ کشمیر کی دُھند کو پچھاڑ چکا تھا جب دِلی کے ’وِلنگڈن ایئرفیلڈ‘ سے ایک ڈکوٹا طیارہ ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد 15 مسلح فوجیوں کو لیے سرینگر کے نواح میں واقع بڈگام ایئربیس پر اُترا۔
صبح 9:30 بجے سِکھ رجمنٹ کی پہلی بٹالین کے اِن اہلکاروں کا بڈگام ایئربیس پر آنا اس بات کا اعلان تھا کہ انڈیا نے اس شاہی ریاست یعنی جموں کشمیر میں اپنی فوج اُتار دی ہے۔
ایلسٹئر لیمب اپنی کتاب ’برتھ آف اے ٹریجڈی: کشمیر 1947‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان اُس تنازع کا باقاعدہ آغاز تھا، جو آج تک حل طلب ہے۔
15 اگست کی ڈیڈ لائن کے بعد دو ماہ سے زیادہ عرصے تک، مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست کشمیر کے مستقبل کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
تاریخ دان الیگزینڈر روز کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے جنوب میں واقع 14 لاکھ آبادی والا یہ مسلم علاقہ (کشمیر) جغرافیائی اور مذہبی اعتبار سے پاکستان کا مقدر تھا۔
تاہم انڈیا کا کہنا ہے کہ اُس نے کشمیر میں اپنی فوج 22 اکتوبر کو پاکستانی قبائلیوں کے کشمیر پر حملے اور اس کے تناظر میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کی درخواست پر تب بھیجی جب مہاراجہ نے انڈیا سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے۔
انڈیا کے اُس وقت کے وزیرِ داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے شاہی ریاستوں کو انڈیا میں شامل کرنے کا کام ویپلا پنگونی (وی پی) مینن کو سونپا تھا۔
وی پی مینن اپنی کتاب ’دی سٹوری آف انٹیگریشن آف انڈین سٹیٹ‘ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ ’200 سے 300 لاریوں میں سوار تقریباً پانچ ہزار آفریدی، وزیر، محسود، سواتی اور سرحدی قبائلیوں اور ’چھٹی پر موجود‘ پاکستانی فوج کے سپاہیوں پر مشتمل چھاپہ ماروں کا مرکزی دستہ، جس کی قیادت کشمیر کو اچھی طرح جاننے والے کچھ باقاعدہ فوجی افسران کر رہے تھے، پاکستان کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے شہر ایبٹ آباد سے جہلم ویلی روڈ کے ساتھ آگے بڑھے۔‘
اینڈریو وائٹ ہیڈ نے اُن قبائلیوں کے حملے پر اپنی کتاب ’اے مشن اِن کشمیر‘ میں کافی تفصیل سے لکھا ہے لیکن اس میں پاکستانی فوج کی باقاعدہ شمولیت کا کہیں تذکرہ نہیں۔
وزیر قبائل میں فقیر آف اپی نے اپنے پیروکاروں کو ’جہاد‘ کے لیے کشمیر جانے سے روکا تو پیر آف وانا نے اپنے پیروکاروں کی خدمات پیش کیں ’کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کرتاریخ ِ اسلام کی اس اہم گھڑی میں سرگرمِ عمل ہوں۔‘
’بغدادی پیر‘ کہلوائے جانے والے پیر آف وانا نے پشاور میں ’نیویارک ہیرالڈ ٹربیون‘ کی مارگریٹ پارٹن کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ اگر کشمیرانڈیا کا حصہ بنا تو ’وہ دس لاکھ قبائلیوں کو جہاد کے لیے کشمیر لے کر جائیں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’اگر ہمیں پاکستان سے گزرنے کی اجازت نہ دی گئی تو ہم چترال کے پہاڑوں سے شمال کی طرف جائیں گے۔‘
’ہم اپنی رائفلوں اور بندوقوں کے ساتھ جائیں گے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو ہندو مہاراجہ کی من مرضی سے بچائیں گے۔‘
اِسی طرح پیر آف مانکی شریف بھی ’کشمیر میں جہاد‘ کے مبلغ تھے۔ وہ مسلم لیگ کے مقامی رہنما تھے اور صوبہ سرحد کی پاکستان میں شمولیت کا ریفرینڈم جتوانے میں اُن کا بڑا کردار تھا۔ اُن کے لگ بھگ دو لاکھ پیروکار تھے اور یہ کسی ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں تھے۔
وائٹ ہیڈ لکھتے ہیں کہ اس ’بغاوت کو پاکستان کے علاقے سے مربوط کیا جا رہا تھا لیکن نئی قوم کے رہنما اپنی مسلح افواج سے انھیں مدد فراہم نہیں کر سکتے تھے۔‘
سر جارج کننگھم صوبہ سرحد کے گورنر تھے۔ برٹش لائبریری میں کننگھم کی ڈائری اس بڑھتی ہوئی بیداری کا ایک طاقتور احساس دیتی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’میں نے آفریدیوں اور مہمندوں سمیت ہر کسی کو خبردار کیا ہے کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔‘
لیکن کننگھم کی اس تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ صوبائی وزیر اعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے نجی طور پر اعلان کیا کہ وہ کشمیر جانے والے مسلح افراد کی حمایت کرتے ہیں تاہم وہ اس بات پر متفق تھے کہ پولیس اور دیگر حکام کو آپریشن میں الجھنا نہیں چاہیے۔
مسلم نیشنل گارڈ کے رُکن خورشید انور لکھتے ہیں کہ ’ڈی ڈے‘ 21 اکتوبر بروز منگل مقرر کیا گیا تھا لیکن اسے اگلی صبح تک مؤخر کرنا پڑا۔ متعدد تاریخی حوالوں میں خورشید انور کو وادی کشمیر پر حملے کا فوجی کمانڈر بتایا گیا ہے۔
بعد میں انھوں نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ اُن کے ساتھ چار ہزار آدمی تھے اور کشمیری علاقے کے اندر تک انھیں کسی سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
دوسری جانب کشمیر کی ریاستی افواج نے محدود مزاحمت کی، اُن کی صفوں میں پونچھ سے تعلق رکھنے والا مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ تھا جو انھیں چھوڑ چکے تھے۔
البتہ وائٹ ہیڈ لکھتے ہیں کہ مہاراجہ کے خلاف ابتدائی بغاوت مقامی تھی اور اس میں قبائلی شمولیت ہرگز نہیں تھی۔
’اپنی مسلم رعایا کے ساتھ سلوک کی وجہ سے کشمیر کے مہاراجہ کی شہرت خراب تھی۔۔۔ ریاست کی مسلح افواج پر جموں صوبے میں مسلمانوں کے خلاف مظالم میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مہاراجہ کی جانب سے یہ فیصلہ کرنے میں تاخیر سے، کہ وہ کس نئے ملک میں شامل ہوں گے، وہ شکوک و شبہات شدت اختیار کر گئے تھے کہ کشمیر انڈیا کا حصہ بننے کی طرف بڑھ رہا ہے، حالانکہ اُس کے جغرافیہ اور مسلم اکثریت کا اشارہ پاکستان کے ساتھ الحاق تھا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جموں کے شمال مغرب لیکن وادی کشمیر سے باہر واقع علاقے پونچھ کی اپنی شکایات تھیں، خاص طور پر مقامی اختیار میں کمی اور بھاری ٹیکسوں کے خلاف۔ یہاں کے کوئی 60 ہزار افراد دوسری عالمی جنگ میں حصہ لے چکے تھے اور یہیں سے کشمیر کی اپنی فوج بھرتی ہوتی تھی۔ مہاراجہ کے خلاف شورش اگست 1947 کے آخرتک جڑ پکڑ چکی تھی۔‘
وائٹ ہیڈ نے اِس مہم کے رہنماؤں میں سے ایک کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’ستمبر1947 کے اواخر تک ہم کافی علاقہ حاصل کر چکے تھے۔ تب میں ہی اپنے ضلع پونچھ سے اس کا انتظام کر رہا تھا۔ تب ریاست کی فوج ریاست کے لوگوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ سرحد سے تب تک کوئی نہیں آیا تھا۔‘
پونچھ کے نزدیک واقع علاقے راولا کوٹ کے سردار محمد ابراہیم خان سرینگر میں وکیل تھے اور پاکستان کی حامی مسلم کانفرنس کے اہم رہنما بھی تھے۔ وہ ریاست سے نکلے اور پاکستان میں مری کو اپنا ٹھکانا بنایا جہاں انہوں نے مہاراجہ کی فوج سے بھاگے ہوئے فوجیوں کی مدد سے 'مسلح جدوجہد' شروع کی۔
وائٹ ہیڈ کے مطابق ستمبر 1947 میں بریگیڈیئر اکبر خان، جو اُس وقت پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹر میں اسلحے اور آلات کے ڈائریکٹر تھے، نے مری میں سردار ابراہیم خان اور دیگر سے رابطہ قائم کیا۔
'ایسا لگتا ہے کہ اکبر خان نے پونچھ میں پاکستان کی حامی شورش کی مدد کرنے کا فیصلہ خود کیا۔ اکبر خان خود بتاتے ہیں کہ انہوں نے پنجاب پولیس کے لیے منظور کی گئی چار ہزار فوجی رائفلیں مہیا کرنے میں مدد کی اور پرانے گولا بارود کی ایک بڑی کھیپ بھی فراہم کی جسے ناکارہ قرار دیا جا چکا تھا۔'
اکتوبر کے آخر میں سردار ابراہیم کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی عبوری حکومت کا صدر بنایا گیا۔
وائٹ ہیڈ کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دونوں خان شورش کی ابتدا کا دعویٰ کرنے پر متفق نہ ہوں، لیکن اس معاملے میں قبائلیوں کی شمولیت کے محدود ہونے پر ان کی رائے ایک ہی ہے۔
عبد القیوم خان کے مطابق 'تحریک کو شدید نقصان پہنچا کیونکہ قبائلی کسی کے قابو میں نہیں تھے۔'
'جب وہ میرے علاقے میں آئے، تو اُن کے ٹھہرنے کے لیے ایک پورا گاؤں خالی کروا دیا گیا اور اُس کے گرد پہرا بٹھا دیا گیا۔ میں نے انہیں لڑائی میں شریک نہیں ہونے دیا، لیکن باقی ریاست میں انہوں نے کافی نقصان کیا۔'
'غیرمنظم ہونے کی وجہ سے انہوں نے لوٹ مار کی۔ ہر قبیلے کا اپنا کمان دار تھا، جبکہ وزیر اور محسود بالکل کسی کے کہنے سننے میں نہیں تھے۔ مظفرآباد میں تو میرا اُن کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔'
قبائلیوں نے شروع میں یہ سوچا ہوگا کہ وہ مظفرآباد سے تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں 26 اکتوبر کو عید کا تہوار منا سکیں گے۔
وائٹ ہیڈ لکھتے ہیں کہ بارہ مولا میں اُن کی پیش قدمی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ 27 اکتوبر کے بعد سے ہر روز ہندوستانی فوج کے سینکڑوں فوجیوں کے طیاروں سے آنے کے باوجود، قبائلی سرینگر کے مرکز سے چند میل کے فاصلے پر اور تقریباً فضائی پٹی کے اطراف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
اکبر خان اپنی کتاب 'ریڈرز ان کشمیر' میں لکھتے ہیں کہ 'انھوں نے (قبائلیوں کو) سب سے پہلے کشمیر کی وادی میں گہری دھند میں اُبھرتے ہوئے دیکھا۔'
'وہ خاموشی سے آگے بڑھے، احتیاط سے، لیکن آسانی کے ساتھ اور اندھیرے میں۔ یہ 29 اکتوبر 1947 کی آدھی رات تھی۔ بجلی کی رفتار سے ریاست میں داخل ہونے کے بعد پانچ دنوں میں 115 میل کا فاصلہ طے کر کے اب سرینگر کی ٹمٹماتی روشنیوں سے صرف چار میل کے فاصلے پر تھے۔'
’جوں جوں حملہ آور آگے بڑھے، اُن کا سامنا سرینگر کے اردگرد بہنے والے پانی سے ہونا شروع ہو گیا۔ بالآخر ایسا لگتا تھا کہ اس رکاوٹ سے نمٹنے کے لیے سیدھے راستے پر جانا ہی باقی رہ گیا ہے۔‘
سردار ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’اُن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ لڑیں اور قبضہ کریں اور پھر سنبھلے رہیں (یعنی حاصل کیے گئے علاقے پر اپنا قبضہ برقرار رکھیں)۔ جب قبائلی لشکر نے سرینگر سے واپسی اختیار کی تو اُن کے خالی کیے گئے علاقے کو سنبھالنے کے لیے کوئی فوجی نہیں تھے۔‘
’انڈیا کی فوج کے ابتدائی اہلکار تو فوجی طیاروں سے آئے تھے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ ہوئی تو مزید کمک گرداسپور سے آنے لگی۔‘
تاریخ دان الیگزینڈر روز کے مطابق کشمیر، پاکستان اور انڈیا کے جنوبی چوراہے پر واقع 14 لاکھ آبادی والا مسلم علاقہ، جغرافیائی اور مذہبی دونوں بنیادوں پر، پاکستان کا مقدر تھا۔
لیکن تقسیم ِ ہند کے وقت سرحدوں کے تعین کے ذمہ دار سر سِرل ریڈ کلف نے صرف شکرگڑھ تحصیل پاکستان کو دی اور باقی تحصیلیں انڈیا کو۔ پٹھان کوٹ کی تحصیل ملی تو گویا انڈیا کو کشمیر کا زمینی راستہ مل گیا۔
انڈیا کے شمال مشرقی ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کے عدالتی کمرے میں لگے لکڑی کے بورڈ پر اُن افسران کی فہرست دیکھیں جو یہاں 1852 سے 1947 تعینات رہے، تو اُن میں سب سے کم عرصہ مشتاق احمد چیمہ کا ہے، جو چنایا لال کے یہاں ڈپٹی کمشنر بننے سے پہلے صرف تین دن کے لیے تعینات ہوئے، یعنی 17 اگست کو پاکستان جانے سے پہلے۔
اس مختصرتعیناتی کی وجہ بتاتے ہوئے صحافی جُوپِندرجیت سنگھ اخبار ’ٹربیون انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ 17 اگست 1947 تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ پنجاب کا یہ مسلم اکثریتی ضلع پاکستان کی حدود میں ہو گا۔
برطانوی دور حکومت میں ضلع گورداسپور لاہور ڈویژن کا حصہ تھا، اپنی چار تحصیلوں گورداسپور، بٹالا، شکر گڑھ اور پٹھان کوٹ کے ساتھ۔
ڈومینیک لیپیئر اور لیری کولنز نے اپنی کتاب ’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘ میں لکھا ہے کہ گورداسپور کے بغیر انڈیا کو کشمیر تک قابل عمل زمینی رسائی حاصل نہ ہوتی۔
امریکی جریدے ’دی نیشنل انٹرسٹ‘ کے لیے اپنے مضمون ’پیراڈائزلوسٹ: دی آرڈیل آف کشمیر‘ میں الیگزینڈر روز لکھتے ہیں کہ ریڈکلف نے بعد میں وضاحت کی کہ ’ریلوے، مواصلات اور پانی کے نظام میں خلل جیسے عوامل (موجود تھے) جن سے متصل اکثریت کے بنیادی دعوؤں کو زَک پہنچتی۔‘
’لیکن پاکستان نے محسوس کیا کہ نہرو نے ماؤنٹ بیٹن کو مائل کیا کہ وہ حد بندی تبدیل کرنے کے لیے ریڈ کلف پر دباؤ ڈالیں۔‘
روز کے مطابق ’سنہ 1992 میں تقسیم کے عمل کی گہری معلومات رکھنے والے آخری برطانوی اہلکار، کرسٹوفر بیومونٹ (ریڈکلف کے پرائیویٹ سیکریٹری) نے انکشاف کیا کہ ریڈ کلف نے اصل میں پاکستان کو دو متصل تحصیلیں دی تھیں، لیکن دوپہر کے کھانے پر ماؤنٹ بیٹن نے ریڈ کلف ایوارڈ کو تبدیل کروا لیا۔‘
روز کے مطابق انڈیا کا کہنا ہے کہ اس کی فوج تب تک متحرک نہیں ہوئی جب تک دلی کی تیزی سے مداخلت کی قیمت کے طور پر، مہاراجہ نے رضاکارانہ طور پر الحاق کی دستاویز پر دستخط نہیں کیے۔ 27 اکتوبر کو جیسے ہی ہوائی جہاز کے ذریعے فوجی دستے سرینگر کے ہوائی اڈے پر اترے اور ’لوٹ مار کرنے والوں کو شکست‘ دینے کے لیے آگے بڑھے، ماؤنٹ بیٹن نے باضابطہ طور پر مہاراجہ کے فیصلے کو تسلیم کر لیا اور کشمیر باضابطہ طور پر انڈیا کا حصہ بن گیا۔
لیکن پاکستانی پوچھتے ہیں کہ ہری سنگھ 26 اکتوبر کو اس دستاویز پر کیسے دستخط کر سکتے تھے جب کہ یہ معلوم ہے کہ وہ اس دن سرینگر سے موٹر کیڈ کے ذریعے اپنے سرمائی دارالحکومت جموں کی جانب سفر کر رہے تھے، اور اس وجہ سے اُن کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ لہٰذا ہندوستانی فوجی دستے دستاویز پر دستخط اور اسے قبول کرنے سے پہلے ہی کشمیر کی طرف جا رہے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہاراجہ کی رضامندی دباؤ کے تحت حاصل کی گئی تھی۔
وائٹ ہیڈ اور پریم شنکر جھا ایسے مصنفین الحاق پر شک کا اظہار کرتے ہیں۔
ماؤنٹ بیٹن کے الحاق کی دستاویز کو قبول کرنے والے خط میں کہا کہ ’میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو جائے اور اس کی سرزمین کو حملہ آوروں سے پاک کر دیا جائے، یہاں کے لوگ ریاست کے الحاق کا سوال طے کر دیں۔‘
جنگ بندی کے بعد کشمیریوں کے حق رائے شماری کے حق میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے علاوہ نہرو نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ رائے شماری کے ارادے کا اعلان کیا۔
روز لکھتے ہیں کہ شروع میں انڈیا اس طرح کی رائے شماری پر آمادہ تھا لیکن پھر یہ خیال ترک کر دیا جب یہ محسوس ہوا کہ غیر ہندو اکثریت کے اس کے حق میں ووٹ دینے کا کوئی امکان نہیں۔
قبائلی جنگجو ناکام کیوں ہوئے؟
اپنی کتاب ’انڈرسٹینڈنگ کشمیر اینڈ کشمیریز‘ میں کرسٹوفر سنیڈن لکھتے ہیں کہ 26 اکتوبر 1947 کے بعد ہری سنگھ تیزی سے انڈیا، انڈین جموں و کشمیر انتظامیہ اور ’اپنی‘ (سابق) ریاست کے تنازع میں غیر اہم ہونے لگے تھے۔
اور شاید ایسی ہی صورتحال قبائلیوں کی تھی جو وائٹ ہیڈ کے مطابق 27 اکتوبر کے بعد سے ہر روز انڈین فوج کے سینکڑوں فوجیوں کو ہوائی جہاز سے بھیجنے کے باوجود سرینگر کے مرکز سے چند میل کے فاصلے پر اور تقریباً فضائی پٹی کے اطراف تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
وادی کشمیر سے اِن چھاپہ ماروں کو نکالے جانے کے ایک ماہ بعد مسلم نیشنل گارڈ کے رُکن خورشید انور کراچی کے ایک ہسپتال میں اپنے زخموں کا علاج کروا رہے تھے۔ انھوں نے ڈان اخبار سے بات کرتے ہوئے شکایت کی کہ حکومتِ پاکستانی کی بے عملی کشمیر میں اُن کے لیے رکاوٹ بنی۔
اینڈریو وائٹ ہیڈ نے لکھا ہے کہ وہ (خورشید انور) ’سرینگر پر قبضہ کرنے کی بہادرانہ کوشش میں قبائلیوں کی کوئی مدد نہ کرنے پر حکومت پاکستان کے خلاف بہت تلخ نوا تھے۔‘
خورشید انور نے بعدازاں کراچی میں قبائلی افواج کی سنگین کوتاہیوں کے بارے میں بھی سرحد کے ایک برطانوی ماہر سے بات کی تھی۔ ’وہ محسود قبائل کے خلاف بہت تلخ تھے، جو اُن (خورشید انور) کے بقول، بدترین مظالم اور ابتدائی حملے کی تباہ کن تاخیر دونوں کے ذمہ دار تھے۔‘
سنیڈن لکھتے ہیں کہ ’پختون اچھے جنگجو تھے لیکن ساتھ ساتھ وہ انتہائی غیر منظم بھی تھے۔‘
’22 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر میں داخل ہونے کے فوراً بعد انھوں (قبائلیوں) نے سرینگر پر قبضہ کرنے کے لیے براہ راست پیش قدمی کرنے کی بجائے لوٹ مار اور قتل و غارت کی۔ کئی غیر ملکی بھی اس کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے عالمی اخبارات میں رپورٹنگ کو انڈیا نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ جب پختون بالآخر 27-28 اکتوبر 1947 کو سرینگر کے مضافات میں پہنچے تو انڈین فوج سرینگر کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنا چکی تھی اور مزید فوجیوں کے آنے تک پختونوں کو روکنے کے لیے دفاعی پوزیشنیں سنبھال چکی تھی۔‘
’انڈین فوجیوں کا ابتدائی مقصد سرینگر کے ہوائی اڈے کو محفوظ بنانا اور پیش قدمی کرتے پختونوں سے بچانا تھا۔ انھوں نے دونوں مقاصد حاصل کیے۔۔۔ سرینگر میں انڈین سپاہیوں کی تیزی سے آمد اور اُن کے شہر کو محفوظ بنانے سے سست رفتار، لوٹ مار میں مشغول پختونوں کی گرمائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کی کوششوں کا خاتمہ ہوا۔‘
سنیڈن کے مطابق آنے والے دنوں میں ’انڈیا ہوائی بمباری سے اپنے پختون مخالفین کو وادی کشمیر سے نکالنے میں کامیاب رہا۔‘
سنیڈن لکھتے ہیں کہ البتہ اُڑی کے مغرب میں تحصیل مظفرآباد میں زیادہ نظم و ضبط والی آزاد فوج کے جوانوں نے انڈین فوج کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ ’آزاد فوج کی صلاحیتوں ہی سے کچھ انڈینز نے باور کیا کہ پاکستانی فوج جموں و کشمیر میں اس قابل فورس کی حمایت میں شامل تھی۔ مگر یہ غلط تھا۔‘
اُن کے مطابق ’پاکستان آرمی باضابطہ طور پر مئی 1948 میں آزاد فوج کی مدد کے لیے جموں و کشمیر میں داخل ہوئی۔ اور یوں پہلی پاکستان، انڈیا جنگ شروع ہوئی۔‘