رکشے کا لالچ اور ‘جلتے پٹاخے’ پر بیٹھنے کی شرط: وہ مذاق جو بیروزگار نوجوان کی جان لے گیا
موقع تھا ہندوؤں کے خوشیوں بھرے تہوار دیوالی کا اور رات تھی 31 اکتوبر کی۔ ایسے میں انڈیا میں سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوتا گیا۔ ایک سنسان سڑک پر کچھ آٹو رکشوں کے بیچ سات آٹھ نوجوان سفید قمیض میں ملبوس ایک شخص کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں۔
یہ لوگ سفید لباس والے شخص کو ایک ڈبے پر بٹھاتے ہیں جس کے نیچے دھماکہ خیز شے یا پٹاخہ موجود ہے۔ پھر یہ لوگ اس پٹاخے کو آگ لگا کر دور بھاگتے ہیں، جیسا کہ عام طور پر پٹاخہ جلاتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
وہ شخص اس کین پر اطمینان سے بیٹھا ہوا نظر آتا ہے کہ اچانک ایک دھماکہ ہو جاتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتا ہے۔
ایک لمحے کے لیے وہ شخص اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر گر کر بظاہر بے ہوش ہو جاتا ہے جبکہ دھوئیں کے درمیان وہاں موجود سارے نوجوان اس کے گرد جمع ہونے لگتے ہیں۔
یہ وائرل ویڈیو در اصل ایک سی سی ٹی وی فوٹیج ہے جس میں وہ واقعہ وقت کے ساتھ ریکارڈ ہوا ہے۔
یہ واقعہ دراصل دیوالی کی شب 31 اکتوبر کو ساڑھے نو بجے انڈیا میں پیش آیا لیکن اس کا شکار بننے والے 32 سالہ شخص شبریش کی تین نومبر کو ہسپتال میں موت ہوئی ہے جس کے بعد انڈین میڈیا کے مطابق پولیس نے چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
دنیا بھر میں خوشی کے اظہار کے لیے آتش بازی کوئی نئی چیز نہیں لیکن انڈیا میں ہندوؤں کے تہوار دیوالی کے موقع پر کی جانے والی آتش بازی بہت سے لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی ہے اور خوشی کا تہوار ماتم میں بدل جاتا ہے۔
ایسے ہی واقعات میں جنوبی ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلور کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص کی پٹاخے پھٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ دیوالی کے دوران انڈیا کے مختلف علاقوں سے پٹاخوں سے زخمی ہونے اور اس کی زد میں آنے سے ہونے والی اموات کی خبریں موصول ہوئی تھیں۔ ایسا ایک واقعہ جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک مندر میں پیش آیا جہاں کی جانے والی آتش بازی کی زد میں آ کر چار افراد ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 150 زخمی ہوئے۔
معاملہ اتنا سنجیدہ ہوا کہ انڈین سپریم کورٹ نے دلی کی حکومت سے پوچھا کہ فضائی آلودگی کی روک تھام کے لیے آتش بازی پر جو پابندی لگائی گئی تھی آخر اس کی خلاف ورزی کیونکر ہوئی۔
وہ مذاق جو مہنگا پڑا
جنوبی بنگلور کی پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے بنگلور میں ہونے والی ہلاکت پر چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
انڈین خبررسان ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق پولیس نے بتایا کہ 32 سالہ شبریش اور اس کے دوست 31 اکتوبر کو دیوالی منا رہے تھے اور مبینہ طور پر نشے میں تھے۔
شبریش کے دوستوں نے پیشکش کی کہ اگر وہ پٹاخوں کے ڈبے پر بیٹھ جائیں تو وہ انھیں آٹورکشا خرید دیں گے۔
بنگلور ساؤتھ کے ڈی سی پی لوکیش بی جگلاسر نے بتایا کہ شبریش بے روزگار تھے اور انھوں نے اسی لیے یہ چیلنج قبول کر لیا۔
علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں شبریش کے دوست پٹاخوں کے ڈبے کو جلانے کے بعد موقع سے پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
انگریزی اخبار دکن ہیرالڈ کے صحافی پرجول ڈیسوزا کی رپورٹ کے مطابق شبریش کے دوستوں نے کہا کہ ’اگر وہ بیٹھ جاتے ہیں تو وہ انھیں آٹو رکشہ دلا دیں گے، نہیں تو انھیں شہر چھوڑ کر چلے جانا ہوگا۔‘
پولیس کے مطابق تعزیرات ہند کی دفعہ 304 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
’دوست نہیں دشمن ہے‘
انڈیا میں سوشل میڈیا پر اس واقعے پر غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کرناٹک پورٹفولیو نامی ایک صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’اس بے معنی نقصان نے علاقے کے مکینوں میں غم وغصے کو جنم دیا ہے اور وہ احتساب اور انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
’مذاق کے طور پر دیے جانے والے چیلنج کا نتیجہ جان لیوا تھا جو پٹاخوں جیسے خطرناک مواد پر مشتمل غیر ذمہ دارانہ رویے کے سنگین خطرات کو اجاگر کرتا ہے۔‘
اشوک گویر نامی ایک صارف نے اس کے جواب میں لکھا: ’یہ مذاق نہیں ایک جان لیوا بھونڈا کھیل ہے۔ ایسا کوئی کبھی کسی کے ساتھ نہ کرے۔ ایسا سوچنا بھی ظالمانہ ہے۔ کچھ دیر کے مزے کے لیے کسی کا خاندان ہمیشہ کے لیے درد میں ڈوب گیا۔‘
بہت سے لوگوں نے سخت کارروائی کی بات کی ہے تو بعض نے یہ چیلنج دینے والوں کو دوست کے بجائے دشمن قرار دیا۔
انڈیا میں دیوالی کے موقعے پر آتش بازی پر ہمیشہ مباحثہ ہوتا ہے لیکن اس پر قابو پانا ابھی تک مشکل نظر آ رہا ہے۔
دنیا بھر میں اپنے خیالات کے لیے مشہور جدید طرز کے سادھو سدھگرو نے ایک ٹویٹ کیا جس میں انھوں نے پٹاخوں پر پابندی کے خلاف بات کی۔
انھوں نے اپنے پیغام کے ساتھ لکھا: ’فضائی آلودگی کے بارے میں تشویش کی وجہ سے بچوں کو پٹاخوں کی خوشی کے تجربے سے محروم نہ کریں۔‘
ان کا مشورہ تھا کہ لوگ تین دن تک پیدل کام پر جائیں تاکہ بچے پٹاخوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
تنبیہ: Uses in Urdu دیگر ویب سائٹس کے مواد کی ذمہ دار نہیں ہے۔
Twitter پوسٹ کا اختتام
مواد دستیاب نہیں ہے
Twitter مزید دیکھنے کے لیے Uses in Urdu. Uses in Urdu بیرونی سائٹس پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے.
چند لوگوں نے جہاں اس بیان کو خوش آئند قرار دیا وہیں بہت سے لوگوں نے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
راہل جیٹلی نامی ایک صارف نے ایک ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ ’یہ جشن سے زیادہ پریشان کرنا ہے‘ اور اس کے ساتھ انھوں نے بتایا ہے کہ پولیس نے دو سکوٹر سواروں کو حراست میں لیا جو بنگلور کی سڑک پر ساتھ چلنے والی سواریوں پر پٹاخے جلا کر پھینک رہے تھے۔
بہت سے لوگوں نے بنگلور میں پٹاخے پر بیٹھ کر مرنے والے کے لیے ’بے کسی بے بسی کا مذاق‘ لکھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔