سارہ شریف قتل کیس: سوتیلی ماں ہی اصل ملزم قرار، پاکستانی نژاد والد کا عدالت میں بیان
برطانیہ میں اپنی 10 سالہ بیٹی سارہ شریف کے قتل کے الزام میں گرفتار پاکستانی نژاد والد نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے اپنی بیٹی کی جان بچانے اور ایمبولنس منگوانے پوری کوشش کی تھی لیکن انھیں بتایا گیا کہ 'چھوڑ دو، وہ مر چکی ہے۔'
یہ دعویٰ سارہ کے والد عرفان شریف نے مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت میں کیا ہے۔ یاد رہے کہ سارہ شریف کی زخموں سے چُور لاش گذشتہ سال 10 اگست کو برطانیہ میں ووکنگ کے علاقے میں ایک گھر سے ملی تھی۔
سارہ کے والد عرفان شریف، اُن کی اہلیہ بینش بتول اور عرفان کے بھائی فیصل ملک نے قتل کے الزام کی تردید کی ہے۔
برطانیہ میں مقدمہ کی سماعت کے دوران عرفان شریف نے کہا کہ انھوں نے کبھی بھی سارہ کو نہیں پیٹا اور نہ ہی کبھی اسے جلایا یا زخم دیا۔
انتباہ: اس تحریر میں چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کُن ہو سکتی ہیں۔
عرفان شریف کے وکیل نعیم میاں نے عدالت میں کہا کہ آٹھ اگست 2023 کو جب اُن کے موکل گھر پہنچے تو سارہ لنگڑا کر چل رہی تھی۔ عرفان کے وکیل کے مطابق انھوں نے سی پی آر (سانس لینے کے عمل کو بحال کرنے کی کوشش) کیا اور ایمبولنس منگوانے کی کوشش کی۔
عرفان شریف کے وکیل کا بیان
نعیم میاں نے عدالت میں کہا کہ بینش بتول نے عرفان سے اُردو یا پنجابی زبان میں کہا کہ 'چھوڑ دو، وہ مر چکی ہے۔' نعیم میاں نے یہ بھی کہا کہ ڈسپلن (نظم و ضبط) کے لیے بچوں کو جسمانی سزا دینا عرفان شریف کا 'آخری حربہ' تھا۔
نعیم میاں نے کہا کہ سارہ کو نہ تو کرکٹ بیٹ سے اور نہ ہی ڈنڈے سے پیٹا جاتا تھا جیسا کہ دعویٰ کیا گیا بلکہ اس کی جگہ تھپڑ تھا۔
عرفان شریف کے وکیل کا مؤقف تھا کہ سارہ کی موت کی ذمہ دار بینش بتول تھیں اور عرفان نے پولیس کو فون کرنے کے بعد جھوٹا اعتراف جرم کیا اور پھر ایک نوٹ بھی لکھا جس کا مقصد اپنی بیوی کو بچانا تھا۔
عرفان شریف نے خود عدالت کے سامنے کہا کہ انھوں نے ماضی میں ایسے کورس کر رکھے ہیں جو باپ کی تربیت سے متعلق تھے۔ اس کے علاوہ ان کا دعویٰ تھا کہ غذائیت اور بچوں کے امراض پر بھی انھوں نے کورس کر رکھا تھا اور ایمرجنسی میں سی پی آر دینے کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔
عرفان شریف نے عدالت میں کہا کہ سارہ ایک خوبصورت فرشتہ تھی، بہت پیاری اور وہ بڑی ہو کر بیلے ڈانسر بننا چاہتی تھی۔
عرفان شریف نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے چند مواقع پر سارہ کو تھپڑ مارا تھا۔ "میری زندگی میں بہت خامیاں ہیں، لیکن میں نے اسے کبھی نہیں مارا، کبھی نہیں۔"
یہ بھی پڑھیں: آپ وہی محسوس کرتے ہی جو آپ سوچتے ہیں، اپنے آپ سے پوچھیے کہ رنجیدہ اورغمگین سمجھنے میں کچھ فائدہ ہے؟ گہری نظر سے خیالات کا جائزہ لیجیے
گھر میں ’اصل باس‘ بینش بتول تھیں
عرفان نے اس بات کی بھی تردید کی کہ وہ اپنی اہلیہ بتول کو کنٹرول کرتے تھے۔ عرفان نے کہا کہ اُن کا رشتہ روایتی تھا اور گھر میں ان کی اہلیہ ہی باس تھیں۔
عرفان شریف نے دعویٰ کیا کہ سنہ 2016 میں بینش بتول نے اُن کو پہلی بار سر پر لیموں نچوڑنے والے لکڑی کے تختے سے مارا تھا اور اُس کے بعد ایک اور موقع پر جھاڑو سے بھی اُن پر حملہ کیا۔
واضح رہے کہ حالیہ سماعت سے قبل وکیل استغاثہ بل ایملن جونز نے عدالت میں بتایا کہ سارہ کے جسم پر درجنوں اندرونی اور بیرونی چوٹیں اور زخم تھے جن میں ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور جلنے سے بننے والے زخموں کے نشان بھی تھے۔
استغاثہ کے مطابق سارہ کے جسم پر استری سے جلانے کے نشانات موجود تھے۔ اس کے علاوہ انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سارہ کی ٹانگوں اور بازو پر دیکھے گئے تھے۔
اولڈ بیلی کی عدالت میں جیوری کو بتایا گیا کہ "پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ سارہ کے جسم پر انسانی دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات سمیت گرم استری سے لگنے والا اور گرم پانی سے آنے والے زخموں کے نشان بھی تھے۔"
سرکاری وکیل ایملن جونز نے کہا کہ خاندان کے گھر کے باہر سے خون آلود کرکٹ بیٹ، ایک دھات کا ڈنڈہ، ایک بیلٹ اور رسی سمیت ایک پن ملی جس پر سارہ کا ڈی این اے پایا گیا۔
والد کا اعتراف
اس کیس کی گذشتہ سماعت میں بتایا گیا تھا کہ سارہ شریف کے پاکستان میں موجود والد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے ہی اپنی 10 سالہ بیٹی کو برطانیہ میں قتل کیا تھا۔
برطانیہ میں اس مقدمہ کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا ہے کہ یہ اعتراف عرفان شریف نے پاکستان سے فون کے ذریعے کیا تھا۔
عرفان شریف نے گذشتہ سال برطانیہ کے علاقے سرے میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد اپنے اہلخانہ سمیت پاکستان پہنچتے ہی آٹھ منٹ کی فون کال میں اعتراف جرم کر لیا تھا۔ تب تک سارہ شریف کی لاش بھی نہیں ملی تھی۔
تاہم مقدمے کی سماعت کے دوران 42 سالہ عرفان شریف، سارہ کی 30 سالہ سوتیلی والدہ بینش بتول اور عرفان کے 29 سالہ بھائی اور سارہ کے چچا فیصل ملک نے قتل کے الزام سے انکار کیا ہے۔
عدالت میں بتایا گیا کہ عرفان شریف کا دعویٰ ہے کہ سارہ کی موت کی ذمہ دار ان کی اہلیہ بینش بتول تھیں اور انھوں نے فون پر 'جھوٹا اعتراف جرم' ان کو بچانے کے لیے کیا تھا۔