ڈونلڈ ٹرمپ: امریکہ کے رنگین مزاج ارب پتی سے دوسری بار صدارتی انتخابات میں فتح کا اعلان تک
اگرچہ ابھی امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج آنا باقی ہیں، تاہم اہم سوئنگ ریاستوں میں فیصلہ کُن برتری حاصل کرنے کے بعد رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ’شاندار فتح‘ کا اعلان کر دیا ہے۔
اہم سوئنگ ریاستوں شمالی کیرولائنا، جارجیا اور پینسولوینیا میں فیصلہ کُن برتری کے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ نے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی شہریوں نے انھیں غیرمعمولی مینڈیٹ دیا ہے اور اب اُن کا اگلا دور امریکہ کا ’سنہری دور‘ ہوگا جس میں وہ اپنے ملک کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔
سنہ 2016 میں امریکہ کی صدارت کے لیے پہلی بار امیدوار بننے سے پہلے، ڈونلڈ ٹرمپ کا شمار ملک کے مشہور اور رنگین ارب پتیوں میں ہوتا تھا۔
ایک وقت تھا جب اُن کا امریکہ کے صدر بننا ایک ناممکن سی بات سمجھی جاتی تھی، لیکن اب 78 سالہ ٹرمپ نے دوسری بار امریکہ کا صدر بننے کا اعلان کیا ہے۔
جب ٹرمپ 2016 میں پہلی بار صدارتی انتخاب لڑ رہے تھے، تو ان کے امیدوار بننے کے بارے میں بہت سے سوالات تھے اور ان کی کامیابی پر شک کی کئی وجوہات تھیں۔
ان کی متنازع انتخابی مہم میں، تارکینِ وطن پر سختی سب سے اہم مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ، ان کی ایک مشہور شخصیت کے طور پر زندگی بھی سوالوں میں گھری ہوئی تھی۔
لیکن انہوں نے تمام پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کیا اور رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں بے باک مہم کی مدد سے تجربہ کار سیاستدانوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اور پھر ایک قدم آگے بڑھ کر ہلیری کلنٹن کے خلاف صدارتی انتخاب بھی جیت لیا۔
ان کا پہلا صدارتی دور تنازعات سے بھرپور رہا، مگر اس کے باوجود وہ حیران کن طریقے سے سیاسی میدان میں واپسی کرنے میں کامیاب رہے۔
لیکن وہ یہاں تک کیسے پہنچے؟
وارث
نیویارک میں جائیداد کے کاروبار سے منسلک فریڈ ٹرمپ کے بچوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کا چوتھا نمبر تھا۔ بےپناہ خاندانی دولت کے باوجود انہوں نے اپنے والد کی کمپنیوں میں معمولی ملازمتیں کیں، اور جب ڈونلڈ ٹرمپ 13 سال کے تھے، تو ان کے والد کو ان کے کمرے سے ایک چاکو ملا، جس پر انہوں نے فوراً اصلاح کے لیے انہیں ملٹری سکول بھیج دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ بیس بال ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے بہترین کھلاڑی ثابت ہوئے اور انھیں صفائی ستھرائی کے لیے 'نیٹ نیس اینڈ آرڈر' کا اعزاز بھی ملا، لیکن ملٹری اکیڈمی میں وہ قریبی دوست بنانے میں ناکام رہے۔
سنہ 1964 میں سکول سے فارغ ہونے کے بعد اور شوبز کی دنیا سے متاثر ہونے کے باعث اُن کے ذہن میں فلم سکول جانے کا خیال مچلنے لگا، مگر انھوں نے فورڈہم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعد میں دو سال بعد پینسلوینیا یونیورسٹی کے وارٹن بزنس سکول منتقل ہو گئے۔
یہیں سے وہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اپنے والد کی پسندیدہ اولاد بنے۔ انھیں ان کے بڑے بھائی فریڈ ٹرمپ جونیئر پر ترجیح دی گئی تھی، جنھوں نے پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا تھا اور 43 برس کی عمر میں شراب نوشی کے سبب وفات پا گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بھائی کی موت ہی ان کی شراب اور سگریٹ ترک کرنے کی وجہ بنی۔
جائیداد کی تعمیر اور خرید و فروخت کے کاروبار کے بارے میں ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے والد سے 10 لاکھ ڈالر قرض لے کر کاروبار شروع کیا اور بعد میں، وہ خود ان کے کاروبار میں شامل ہو گئے۔
ان کے والد رہائشی عمارتوں کی تعمیر کا کاروبار کرتے تھے۔ ٹرمپ نے نیویارک میں اپنے والد کے غیر منقولہ جائیداد کے کاروبار میں اضافہ کیا اور پھر 1971 میں اس کمپنی کی باگ ڈور سنبھالی اور اس کا نام ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا۔
ان کے والد کی وفات سنہ 1999 میں ہوئی تھی۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد سے بہت متاثر تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سروسز چیفس کی مدت،پریکٹس اینڈ پروسیجر سمیت اہم بلز کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری
کاروباری برانڈ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کمپنی کے کاروبار کو نیو یارک شہر میں بروکلین اور کوئینز میں رہائشی عمارتوں کی تعمیر سے مین ہٹن میں بڑے تعمیراتی منصوبوں تک پہنچایا۔ انھوں نے پرانے کموڈور ہوٹل کو گرینڈ حیات میں تبدیل کیا اور ففتھ ایوینیو پر علاقے کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک، 68 منزلہ دی ٹرمپ ٹاور بنائی۔
اس کے بعد وہ اپنے خاندانی نام پر ایک ایک کر کے عمارتیں تعمیر کرتے رہے۔ ٹرمپ پیلس، ٹرمپ ورلڈ ٹاور، ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل اینڈ ٹاور۔ یہ فہرست طویل ہے اور آج ممبئی، استنبول اور فلپائن میں بھی ٹرمپ ٹاورز موجود ہیں۔
انھوں نے تفریح کی دنیا میں بھی قدم رکھا اور یہاں بھی اپنی سلطنت قائم کی۔ 1996 سے 2015 تک وہ مس یونیورس مقابلوں کے مالک رہے۔ اس کے علاوہ وہ مس یو ایس اے، مس ٹین یو ایس اے جیسے مقابلہ حسن کے منتظم بھی تھے۔
سنہ 2003 میں ٹرمپ این بی سی ٹی وی شو اپرینٹس میں نمودار ہوئے۔ اس شو میں امیدوار ٹرمپ کی کمپنی میں نوکری حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے تھے۔ انھوں نے شو کے 14 سیزنز میں کام کیا اور دعویٰ کیا کہ اس کے لیے ٹی وی کمپنی نے انھیں 213 ملین ڈالر ادا کیے۔ اس شو کے دوران ان کا معروف جملہ 'یو آر فائرڈ' (یعنی تمھیں نوکری سے نکالا جاتا ہے) بہت مشہور ہوا۔
ٹرمپ نے بہت ساری کتابیں لکھی ہیں اور اُن کا اپنا برانڈ بھی ہے جو ٹائی سے لے کر پانی کی بوتلوں تک ہر چیز کا کاروبار کرتا ہے۔ فوربز کے مطابق، ٹرمپ کے کل اثاثوں کی مالیت چار ارب ڈالر ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کم از کم چھ بار کاروباری بینک کرپسی یعنی دیوالیہ پن کا اعلان کیا اور ان کے کئی منصوبے، جن میں ٹرمپ یونیورسٹی اور ٹرمپ سٹیکس شامل ہیں، ناکام ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آپ کا آج (جمعے) کا دن ستاروں کی روشنی میں کیسا ہوگا؟
خاندان
ڈونلڈ ٹرمپ نے تین بار شادی کی، تاہم ان کی سب سے مشہور بیوی ایوانا زیلنیکووا تھیں جو ایک چیک ماڈل اور ایتھلیٹ ہیں۔ ان کے تین بچے ہوئے: ڈونلڈ جونیئر، ایوانکا اور ایرک۔
1990 ٹرمپ کے لیے ان کی بیوی سے مہنگی طلاق کا باعث بنی کیونکہ ان کی بیوی کو ٹرمپ کی ایک معاشقے کا علم ہو گیا تھا۔
عدالتی مقدمے کے دوران، جس نے اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنائی، ٹرمپ کی سابقہ بیوی نے گھریلو تشدد کے الزامات بھی عائد کیے، لیکن بعد میں انہوں نے ان الزامات کی سنجیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس معاملے کو ٹرمپ پر بننے والی ایک نئی فلم میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
1993 میں ٹرمپ نے اداکارہ مارلا میپلز سے شادی کی، ان کی ایک بیٹی ٹفنی ہے اور یہ شادی بھی 1999 میں طلاق پر ختم ہوئی۔ ٹرمپ نے سلووینیا کی میلانیا ناس سے 2005 میں شادی کی اور ان کا ایک بیٹا بیرن ولیم ٹرمپ ہے۔
تاہم غیر ازدواجی تعلقات اور جنسی نوعیت کے الزامات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ رواں سال دو مختلف عدالتوں میں جیوری نے فیصلہ سنایا کہ ٹرمپ مصنفہ ای جین کیرول کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تردید کر کے ہتک عزت کے مرتکب ہوئے ہیں اور ٹرمپ کو 88 ملین ڈالر کا ہرجانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر چکے ہیں۔
ٹرمپ کا ایک اور تنازع سٹورمی ڈینیئل نامی پورن انڈسٹری کی ایک سابق اداکارہ سے جڑا ہوا ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ 2006 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ سیکس کیا اور پھر صدارتی امیدوار بننے کے بعد ٹرمپ نے اپنے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر اس شرط پر ادا کیے کہ وہ اپنے اور ٹرمپ کے تعلق کو ظاہر نہیں کریں گی۔ اس ادائیگی کو چھپانے کے الزام میں ٹرمپ کو مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور، اغواء ہونیوالی 3 سالہ بچی قتل کردی گئی
صدارتی امیدوار
1980 میں نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں 34 سالہ ٹرمپ نے کہا کہ 'سیاست اوچھی زندگی ہے' اور یہ کہ 'زیادہ باصلاحیت لوگ کاروباری دنیا کا رخ کرتے ہیں۔'
1987 میں ٹرمپ صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں سوچنے لگے تھے۔ 2000 کے انتخابات سے پہلے وہ ریفارم پارٹی کی طرف سے صدارتی دوڑ میں شامل ہونے پر غور کر رہے تھے اور پھر 2012 میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے بھی انتخاب میں حصہ لینے کا سوچا۔
ٹرمپ ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی جائے پیدائش سے جڑے سازشی نظریے کا شدت سے دفاع کیا اور 2016 تک انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ یہ سب جھوٹ پر مبنی تھا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کرنے پر کبھی معافی نہیں مانگی۔
جون 2015 میں ٹرمپ نے باضابطہ طور پر وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی کوشش کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ ’امریکی خواب مر چکا ہے‘، تاہم انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس خواب کو زندہ کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے اپنی دولت اور کاروباری کامیابیوں کا ذکر کیا، میکسیکو پر منشیات، جرائم اور ریپ کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگایا، اور ساتھ ہی وعدہ کیا کہ وہ میکسیکو کے ساتھ سرحد پر باڑ لگا کر سبق سکھا دیں گے۔
میڈیا کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ نے مداحوں اور نقادوں کی برابر توجہ حاصل کی اور ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے‘ کے نعرے کے ساتھ انھوں نے ری پبلکن پارٹی میں تمام حریفوں کو باآسانی شکست دی۔ یوں ٹرمپ ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
صدارتی انتخابات سے قبل مہم متنازع رہی، جس کے دوران ایک لیک ہونے والی آڈیو میں انھیں جنسی ہراسانی پر فخر کرتے ہوئے سنا گیا۔ انتخابات سے قبل، ٹرمپ ہر سروے میں پیچھے دکھائی دے رہے تھے۔
تاہم تمام تر اندازوں اور تجزیہ کاروں کو ٹرمپ نے ایک تجربہ کار سیاست دان کو حیران کن طریقے سے شکست دے کر غلط ثابت کیا اور 20 جنوری 2017 کو امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ،اسلام آبادہائیکورٹ کے6 ججز کے خط پر مشاورت
صدر ٹرمپ
ٹرمپ کی صدارت کے پہلے چند گھنٹوں میں ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ دور کتنا ڈرامائی ہو گا، کیوں کہ اکثر وہ باضابطہ اعلانات کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے اور غیر ملکی سربراہان مملکت سے کھلے عام جھگڑتے بھی نظر آئے۔
ٹرمپ نے اہم موسمیاتی تبدیلی اور تجارتی معاہدوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا، سات مسلم اکثریتی ممالک سے لوگوں کی امریکہ آمد پر پابندی لگائی، چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کی، ریکارڈ ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا اور مشرق وسطی سے تعلقات کو یکسر تبدیل کر دیا۔
تقریباً دو سال تک انھیں ایک اور تنازع کا سامنا بھی رہا جس میں ایک خصوصی وکیل 2016 کے انتخابات میں ٹرمپ کی مہم اور روس کے درمیان مبینہ اشتراک کی چھان بین کرتے رہے۔ اس معاملے میں 34 افراد پر فرد جرم بھی عائد ہوئی، جن میں کمپیوٹر ہیکنگ سے لے کر مالیاتی جرائم جیسے الزامات شامل تھے، لیکن ان میں ٹرمپ شامل نہیں تھے۔ تاہم تفتیش میں کسی قسم کا مجرمانہ اشتراک ثابت نہیں ہو سکا تھا۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ٹرمپ امریکی تاریخ میں مواخذے کا سامنا کرنے والے تیسرے صدر بن گئے۔ اس کی وجہ یہ الزام تھا کہ انھوں نے ایک غیر ملکی حکومت پر اپنے حریف جو بائیڈن کے خلاف مواد تلاش کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔ امریکی ایوان نمائندگان، جہاں مخالف ڈیموکریٹ جماعت کی اکثریت تھی، میں ان کا مواخذہ کیا گیا، تاہم سینیٹ میں، جہاں ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن پارٹی اکثریت میں تھی، یہ تحریک ناکام رہی۔
2020 میں انھیں کورونا وبا پر حکمت عملی کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا جب امریکہ میں اموات کی تعداد بڑھی اور ٹرمپ کی جانب سے ایسے متنازع بیانات سامنے آئے جن میں انھوں نے مشورہ دیا کہ ‘یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا ڈس انفیکٹینٹ جسم میں انجیکٹ کرنے سے وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔’
اکتوبر میں ٹرمپ خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور انھیں اپنی صدارتی الیکشن کی مہم میں وقفہ کرنا پڑا تھا۔
اگرچہ اس سال انھیں سات کروڑ 40 لاکھ ووٹ ملے، جو اب تک کسی امریکی صدر کو ملنے والے سب سے زیادہ ووٹ ہیں، وہ 70 لاکھ ووٹوں سے اپنے حریف جو بائیڈن سے شکست کھا بیٹھے۔
نومبر 2020 سے جنوری 2021 تک ٹرمپ نے مہم چلائی کہ ’ووٹ چوری ہوئے‘ اور ’الیکشن میں دھاندلی ہوئی‘۔ ان کے ان دعووں کو 60 سے زیادہ عدالتی مقدمات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاہم نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چھ جنوری کو ٹرمپ نے اپنے مداحوں اور سپورٹرز کو دارالحکومت واشنگٹن میں جمع کیا اور انھیں کیپیٹل پر اکھٹا ہونے کی تاکید کی جہاں کانگریس کی جانب سے جو بائیڈن کی فتح پر باضابطہ مہر ثبت کی جانی تھی۔
ان کے حامیوں کا اجتماع ہنگامے میں تبدیل ہوا جس کے دوران ٹرمپ کے نائب صدر سمیت اراکین اسمبلی کی جان کو خطرہ لاحق ہوا اور ٹرمپ کو تاریخی دوسرے مواخذے کا سامنا ہوا۔ اس بات بھی وہ سینیٹ میں بچ گئے لیکن مشکل سے۔
اس دن کی وجہ سے ٹرمپ کو دو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔
سیاسی واپسی
کیپیٹل ہل واقعے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ ٹرمپ کا سیاسی کریئر ختم ہو چکا ہے۔ ان کے بہت سے حامیوں سمیت عطیہ دینے والوں نے بھی آئندہ ان کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا اور بہت سے قریبی اتحادیوں تک نے ان سے منہ موڑ لیا تھا۔
ٹرمپ نے روایت توڑتے ہوئے بطور سابق صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی اور اپنے خاندان کو فلوریڈا منتقل کر دیا۔ تاہم مداحوں کی ایک فوج اب بھی ان کے ساتھ تھی جس کے باعث رپبلکن پارٹی میں ان کا اثرورسوخ کم نہ ہو سکا۔
شاید ٹرمپ کی صدارت کا سب سے اہم لمحہ ان کا صدارتی دور ختم ہونے کے بعد آیا ان کے نامزد کردہ تین دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ججوں کی مدد سے سپریم کورٹ نے 50 سال پرانے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا۔
ایسے میں ٹرمپ نے ایک بار پھر صدارتی امیدوار بننے کا اعلان کیا اور جلد ہی اپنی جماعت میں دوسرے امیدواروں پر حاوی ہو گئے۔ ٹرمپ نے اپنی مہم کا آغاز کیا تو انھیں 91 مقدمات کا سامنا تھا جن میں چار فوجداری نوعیت کے مقدمات بھی شامل تھے تاہم ان کی جانب سے مقدمات کو طول دینے کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے۔
اب تین مقدمات ایسے ہیں جنھیں الیکشن سے قبل نہیں سنا جائے گا جبکہ کمزور نوعیت کے الزامات پر مبنی ایک مقدمہ میں انھیں سزا سنائے جانے کا عمل نومبر تک موخر ہو چکا ہے۔
13 جولائی کو ایک 20 سالہ مسلح نوجوان نے پنسلوینیا میں انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ تھامس میتھیو کروکس نے ایک قریبی چھت سے آٹھ گولیاں چلائیں جن میں سے ایک نے ٹرمپ کے دائیں کان کو زخمی کیا۔ حملہ آور کو سنائپرز نے ہلاک کر دیا تھا۔
چند ہی دن بعد رپبلکن جماعت کے کنونشن میں ان کی تعریفیں کی گئیں اور انہیں باقاعدہ طور پر جماعت کا امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ تاریخی اعتبار سے کم مقبول صدر جو بائیڈن کا مقابلہ ٹرمپ سے ہونا تھا، لیکن وہ الیکشن سے دستبردار ہو گئے، جس کے بعد ان کی جماعت نے نائب صدر کملا ہیرس کو نامزد کیا۔
اور آج کے صدارتی انتخاب کے نتائج ظاہر کر رہے ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ فتح کے قریب ہیں۔