قطر سے واپسی پر وہاب علی کی ہلاکت پر کرم میں احتجاج جاری: “میں مسافر ہوں اور راستہ کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں”
’میرے بھائی معصوم اور بے ضرر انسان تھے۔ اُن کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ وہ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ قطر میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے وہاں ضلع کرم کے بہت سے لوگ کام کرتے تھے۔ میرے بھائی تو بس اپنے علاقے میں جا کر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں ایک گاڑی پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے شخص وہاب علی کے بھائی ذوالفقار علی کا۔
گذشتہ دنوں پیش آئے اس واقعے میں وہاب علی کے ہمراہ کرائے پر لی گئی گاڑی کے ڈرائیور مشتاق علی بھی ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار میں امن و امان کی سنگین صورتحال کے باعث آمدورفت پر عائد پابندی کو دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ سڑکیں بند ہونے کے باعث علاقے کے لوگ ناصرف مشکلات کا شکار ہیں بلکہ علاقے میں اشیائے خوردونوش کی قلت بھی پائی جاتی ہے۔ اور وہاب علی بھی بظاہر اسی صورتحال کا شکار ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی اور یہ وہی زمینیں ہیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد اس علاقے میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
تاہم اس علاقے میں حالیہ کشیدگی میں اضافہ اُس وقت ہوا جب 11 اکتوبر کو ضلع کرم کے علاقے کونج علیزئی میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ذوالفقار علی کے مطابق اُن کے بھائی وہاب قطر میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے اور چند روز قبل علاج کے غرض سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان پہنچے تھے۔
نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں اُن کی ہلاکت کے بعد سے ضلع کرم میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن میں شریک مظاہرین علاقے میں امن و امان کی بحالی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
وہاب علی کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی؟
وہاب علی کے اپر کرم میں مقیم بھانجے صدف علی نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’جس دن یہ واقعہ پیش آیا اُس دن میرے ماموں نے مسیج کیا کہ میں سرکاری افسر کی گاڑی کا انتظار کر رہا ہوں۔ جب گاڑی آئے گی تو میں اُن کے ساتھ پاڑہ چنار آؤں گا۔‘
صدف علی کے مطابق اُسی روز انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنے سفر کی ویڈیو بھی شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک سبز رنگ کی نمبر پلیٹ والی گاڑی کے پیچھے سفر کر رہے ہیں۔
صدف علی کے مطابق امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ضلع کرم کے علاقے ’ٹل‘ کے قریب تمام گاڑیوں کا اندراج کیا جاتا ہے اور کانوائے کی صورت میں گاڑیوں کو آگے روانہ کیا جاتا ہے، کسی کو اکیلے سفر کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’وہ سرکاری گاڑیوں کے ایک چھوٹے سے کانوائے میں سفر کر رہے تھے۔ چیک پوسٹ سے گزر کر آئے تھے مگر پھر بھی اُن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے۔‘
تاہم دوسری جانب ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید مسعود کا دعویٰ ہے کہ ’وہاب علی کو سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے زبردستی سرکاری گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے سفر کیا۔ سرکاری گاڑی کرم جا رہی تھی۔‘
جاوید مسعود کے مطابق چیک پوسٹ پر وہاب کی جانب سے سکیورٹی پر معمور افراد کو جو کچھ بھی بتایا گیا، وہ معلوم نہیں، تاہم اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ذیابیطس: دل کے دوروں، فالج اور پاوں کے کٹنے کا اہم سبب ‘شوگر’ کیا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
’گاڑی موڑ لو‘
گاڑی پر ہونے والی فائرنگ کے واقعے میں وہاب علی کی اہلیہ محفوظ رہیں، جنھوں نے بعد ازاں پورے واقعے کی تفصیلات اہل خانہ کو بتائی ہیں۔
وہاب کے بھائی ذوالفقار علی کے مطابق ’مجھے بھابھی نے بتایا کہ ہمارا سفر خوشگوار چل رہا تھا۔ وہاب علی نے کرائے کی گاڑی حاصل کی تھی اور ہم ایک چھوٹے کانوائے میں سفر کر رہے تھے۔ اُن کی گاڑی کے آگے تین گاڑیاں چل رہی تھیں، جن میں سے چند میں سکیورٹی اہلکار بھی موجود تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہاب گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے جبکہ اُن کی اہلیہ پچھلی سیٹ پر تھیں۔ قافلہ جب کونج علیزئی کے مقام پر پہنچا تو تین فائر ہوئے۔ اس پر وہاب علی نے ڈرائیور سے کہا کہ فوراً گاڑی موڑ لو۔ ہماری بھابھی کے مطابق ڈرائیور نے گاڑی موڑنے کی کوشش کی مگر شاید وہ صورتحال کے باعث کنفیوز ہو گیا یا ڈر گیا۔‘
’ڈرائیور گاڑی موڑ نہیں پایا اور اس دوران مسلح لوگ بالکل گاڑی کے سامنے آ گئے اور انھوں نے اندھا دھند گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس موقع پر وہاب نے اپنا سر نیچے کر لیا اور پھر کافی دیر تک فائرنگ ہوتی رہی۔ میرے بھابھی کا کہنا ہے کہ فائرنگ سن کر وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔‘
واضح رہے کہ اس واقعے میں ایک خاتون کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ زخمی ہونے والی خاتون پچھلی گاڑی میں سوار تھیں۔ فائرنگ کے نتیجے میں وہاب علی اور اُن کی گاڑی کا ڈرائیور موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
صدف علی بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ابھی تک اس واقعہ کے بارے میں کوئی درخواست نہیں دی اور نہ ہی ہم سے کسی نے مقدمہ درج کروانے کے لیے درخواست دینے کا کہا ہے۔ صورتحال ایسی ہے کہ ہم پولیس سٹیشن جانے کے لیے بھی سفر نہیں کر سکتے۔‘
ضلع کرم پولیس سے اس واقعہ کا مقدمہ درج ہونے سے متعلق معلومات کے لیے رابطہ قائم کیا گیا، لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔
’میں باہر سے مسافر آیا ہوں، راستے کُھلنے کا انتظار کر رہا ہوں‘
سوشل میڈیا پر وہاب علی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جو انھوں نے اُس وقت بنائی تھی جب وہ قطر سے واپس آ کر پشاور میں موجود تھے اور اپنے گھر جانے کے لیے راستے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ صدف علی کے مطابق وہاب 12 اکتوبر کو قطر سے پاکستان کے شہر پشاور علاج کے لیے آئے تھے اور اس کے بعد سے راستے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
اس ویڈیو میں حاجی وہاب علی کہہ رہے ہیں کہ ’میں باہرسے آیا ہوں، مسافر ہوں۔ راستے کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ پولیس، اے سی، ڈی سی سب آ جا رہے ہیں۔ میں نے نہ تو کوئی جرم کیا ہے اور نہ ہی کسی کو مارا ہے۔ کیا میں گھر نہیں جا سکتا؟‘
حاجی وہاب علی اور ڈرائیور مشتاق کا نماز جنازہ اور تدفین چھ نومبر (بدھ) کو کی گئی تھی اور اس موقع پر شدید احتجاج بھی کیا گیا۔
بنگش قبائل کے رہنماؤں جلال بنگش، علامہ تجمل حسین اور عنایت طوری نے اس موقع پر خطاب بھی کیا۔
علامہ تجمل حسین کا کہنا تھا کہ ’26 روز سے راستے بند ہیں۔ لوگوں کو بے گناہ مارا جا رہا ہے۔ اب ہمیں خود کچھ کرنا ہو گا۔ اس کے لیے پوری قوم اور علاقے کو تیار رہنا ہو گا۔ پریس کلب پاڑہ چنار سے صدہ تک لوگ پیدل مارچ کریں گے۔ یہ امن مارچ ہو گا کوئی بھی ساتھ بندوق، ڈنڈا نہیں لائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پیدل جائیں گے اور خود راستے کھولیں گے، مگر پُرامن رہیں گے۔ اگر ہمیں مارنا ہے تو مار دیں۔‘
وہاب علی نے سوگواروں میں بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔
ذوالفقار علی بنگش کا کہنا تھا کہ اُن کا خاندان کبھی بھی مسلکی تنازعات کا حصہ نہیں رہا ہے۔
’میں سات، آٹھ سال سے آسٹریلیا میں ہوں۔ یہاں پر میرے زیادہ دوست سنی ہیں۔ حاجی وہاب علی تو لوگوں کی خدمت کرنے والے تھے۔ جب بھی علاقے میں آتے تو لوگوں کے مسائل حل کرتے تھے۔ پاڑہ چنار کے لوگوں نے اپنا خدمت گار خود قتل کر دیا ہے۔‘