0
ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی ان کے سب سے اہم حامی ایلون مسک کے لیے بھی اہم فتح ثابت ہو سکتی ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے الیکشن کی رات فلوریڈا میں ٹرمپ کے ساتھ ان کے مار آ لاگو نامی ریزارٹ میں گزاری اور انتخابی نتائج کا جائزہ لیا۔
جب ٹرمپ کی فتح یقینی نظر آنے لگی تو ایلون مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ 'امریکہ کی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو آج رات ایک واضح مینڈیٹ دیا ہے۔'
پام بیچ کنوینشن سینٹر میں اپنی فتح کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ٹرمپ نے کئی منٹ تک مسک کی تعریف کی اور مسک کی کمپنی سپیس ایکس کے ایک راکٹ کی کامیاب لینڈنگ کے بارے میں بات کی۔
رواں ماہ جولائی میں جب پینسلوینیا میں ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو اس کے فوراً بعد ہی مسک نے ان کے لیے اپنی حمایت فراہم کر دی تھی۔
نامزد صدر ٹرمپ کے سب سے اہم حامی سمجھے جانے والے مسک نے ان کی انتخابی مہم کو 11 کروڑ 90 لاکھ کا فنڈ دیا ہے۔ مسک گذشتہ چند ہفتوں سے صدارتی انتخاب پر اثرانداز ہونے والی ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ دینے کے لیے گھروں سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہے تھے اور اس دوران انہوں نے ہر روز 10 لاکھ ڈالر بھی تقسیم کیے۔
الیکشن کے روز جہاں ٹیسلا کے ایک شیئر کی قیمت 250 ڈالر تھی وہیں ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ قیمت 280 ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔
اس معاملے پر انہیں قانونی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم ریاست میں ایک جج سے انہیں ایسا کرنے کی اجازت مل گئی۔
ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ مسک کو اپنی انتظامیہ میں کام کرنے کی دعوت دیں گے تاکہ وہ حکومت کے غیر ضروری خرچے کم کر سکیں اور کام کو مؤثر بنانے میں مدد کر سکیں۔
مسک نے اپنے ممکنہ کام کو 'ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی' یا (DOGE) رکھا ہے جو ایک میم اور کرپٹوکرنسی کا نام بھی ہے۔
مسک کے حوالے سے یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے صدارتی دور میں اپنی خلائی کمپنی سپیس ایکس کے حوالے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو پہلے ہی حکومتی سیٹلائٹس کو خلا میں بھیجنے کی کاروباری صنعت پر غلبہ حاصل کر چکی ہے۔
اب جبکہ مسک وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے حمایتی کے طور پر موجود ہوں گے تو وہ حکومت کے ساتھ بہتر روابط سے فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
مسک کی جانب سے ماضی میں اپنی حریف کمپنی بوئنگ کے حکومت کے ساتھ معاہدوں کی نوعیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے منصوبوں کو بجٹ اور وقت کے اندر ختم کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
سپیس ایکس کی جانب سے اب جاسوس سیٹلائٹس بھی بنائی جا رہی ہیں اور پینٹاگون اور امریکی خفیہ ایجنسیاں ان میں اربوں کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہیں۔
ایلون مسک کی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں (الیکٹرک وہیکل) بنانے والی کمپنی ٹیسلا کو ٹرمپ کی انتظامیہ سے فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے دوسرے دور میں ’کم ترین نگرانی‘ ہو گی۔
گذشتہ ماہ امریکی ایجنسی جو روڈ سیفٹی کے حوالے سے قواعد کی نگرانی کرتی ہے نے بتایا تھا کہ وہ ٹیسلا کے ’بغیر کسی ڈرائیور کے چلنے والی گاڑی‘ کے سافٹ ویئر سسٹمز کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔
ایلون مسک پر ٹیسلا میں کام کرنے والوں کو مبینہ طور پر یونین بنانے پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ٹرمپ کی جانب سے کارپوریشنز اور امیر افراد پر کم ٹیکسز لگانے کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ چین پر مزید ٹیرف لگانے کی بات بھی کی گئی ہے جس کا فائدہ ایلون مسک کو اس طرح ہو سکتا ہے کہ ان کی الیکٹرک گاڑیوں کو چینی کمپنیوں سے ملنے والی مقابلے میں کمی آئے گی۔
ایلون مسک جنھوں نے اپنی پہلی شناخت ایک ہونہار اور قابل ٹیک جینئس کے طور پر قائم کی اور جو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے اب مکمل طور پر ٹرمپ کی حمایت میں سیاست میں کود چکے ہیں۔
امریکی عوام کی نظر میں 53 سالہ ٹیک جائنٹ اپنا وقت، اپنی سمجھ بوجھ اور اپنا پیسہ ریپبلیکنز کو جیت دلانے کی کوشش پر خرچ کر رہے ہیں۔ یہ ایک انہونی بات ہے کیونکہ امریکی اشرافیہ اکثر پس پردہ رہ کر سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔
یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو عموماً روایتی سی ای اوز سے بہت مختلف ہے کیونکہ روایتی طور پر ایسی بڑی کمپنیوں کے سربراہان کو اپنے شاندار گھروں میں مہنگے ڈنرز اور فنڈ ریزنگ پروگرام منعقد کرتے ہی دیکھا گیا۔
اور اسی بات نے مبصرین کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کیا کہ آخر ایلون مسک ٹرمپ کی حمایت کر کے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا اتنی رقم، وقت اور اپنی کوششیں صرف کرنا بے مقصد نہیں اور وہ ٹرمپ اور اپنے تعلق کا فائدہ اٹھائیں گے۔
ان خیالات کا اظہار کرنے والوں میں الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ پلیٹ فارم بنانے والی کمپنی چارج وے کے سربراہ میٹ ٹیسکے بھی شامل ہیں۔
ان کے مطابق ایلون مسک کی سیاسی وابستگی میں تبدیلی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیے سمجھنا کچھ مشکل ضرور ہے لیکن اس میں کوئی حیرانی نہیں کیونکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران وہ سیاست میں کافی متحرک رہے ہیں۔
میٹ ٹیسکے کا کہنا ہے کہ ’میرا خیال ہے کہ مسک کے مفادات بہت واضح ہیں اور ممکنہ طور پر چیزوں سے منسلک ہیں جو ان کے اور ان کے کاروبار کے لیے اہم ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے کووڈ پابندیوں کے دوران کیلیفورنیا میں ان پابندیوں پر عمل کرنے میں بہت مزاحمت کی تھی۔‘
مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر گورڈن اس سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسک اپنے آپ کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جسے ریگولیٹرز نے روک رکھا ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومتی مداخلت نے ان کی ٹیکنالوجیز کی ترقی کو روک دیا ہے جن پر ان کی توجہ مرکوز ہے، جیسے کہ ’سیلف ڈرائیونگ۔‘
پروفیسر گورڈن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک ایسا کاروباری شخص بننا چاہتے ہیں جو روایات کو توڑ کر نئی راہیں بنا سکتا ہے اور قواعد و ضوابط میں نہیں پھنستا، جو ٹیکنالوجی میں ترقی سے پانچ، 10، 20 سال آگے رہنا چاہتا ہے۔‘
پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’وہ مریخ پر جانا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تجویز دی کہ اگر وہ نومبر کا صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ ایلون مسک کو امریکی حکومت کے اخراجات میں کمی کے معاملات کی ذمہ داری سونپ سکتے ہیں۔‘
پروفیسر گورڈن کے مطابق اگر ٹرمپ ایسا نہیں بھی کرتے تو بھی ایلون مسک نے ان کی انتخابی مہم کے لیے جو کچھ کیا، ٹرمپ ان کی بات ضرور سنیں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کا امریکہ کی انتظامیہ کی فیصلہ سازی پر گہرا اثر ہو گا۔
جبکہ مسک کا کہنا ہے کہ وہ ’حکومتی کارکردگی کے محکمے‘ کی ذمہ داری سنبھالنے کو تیار ہیں اور وہ ایسے تمام قواعد و ضوابط کو ختم کریں گے ’جو امریکہ کا گلا گھوٹتے ہیں۔‘
ایلون مسک جو روایتی طریقوں اور نظام سے منحرف ہونے کو پسند کرتے ہیں، ایسے میں یہ سوال ہے کہ کیا امریکی حکومت کے ساتھ ان کے منافع بخش تعلقات برقرار رہیں گے۔