کیا بھارتی کرکٹ میں مشہور کھلاڑیوں کا دور ختم ہو رہا ہے یا ان کا ‘آخری خواب’ حقیقت بنے گا؟
مایوسی کے عالم میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ’کیا اِس رات کی کوئی صبح ہو گی؟‘
ممبئی میں نیوزی لینڈ کے خلاف مسلسل تیسرے ٹیسٹ میچ میں لنچ کے بعد شکست کے بعد یہ کہا جا سکتا تھا کہ انڈین کرکٹ میں اس دوپہر کے بعد کوئی شام نہیں ہے۔ اور اگر وہ شام آ بھی جائے تو اگلے سال جنوری سے پہلے انڈین کرکٹ میں نئے دور کی صبح نظر نہیں آتی۔
انڈین کرکٹ کا قلعہ جسے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اسے نیوزی لینڈ نے فتح کر لیا ہے اور وہ بھی اپنے کامیاب ترین اور سب سے زیادہ تجربہ کار کھلاڑی کین ولیم سن کی غیر موجودگی میں۔
اس کے ساتھ اس نے اپنی ہی سرزمین پر مسلسل 18 سیریز جیتنے کے انڈیا کے ’گھمنڈ‘ کو بھی چکناچور کر دیا۔
جب آپ کی توجہ اس بات کی جانب مبذول ہوتی ہے کہ پونے ٹیسٹ کے ہیرو مچل سینٹنر بھی ممبئی کے وانکھیڑے میں نہیں تھے، تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گذشتہ 25 سالوں میں ٹیسٹ کرکٹ میں انڈین کرکٹ کی سب سے مایوس کن کارکردگی تھی۔
اس سے قبل سنہ 1999-2000 میں جنوبی افریقہ کے خلاف دو میچوں کی سیریز میں سچن ٹنڈولکر کی ٹیم کو کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد ماسٹر بلاسٹر ہمیشہ کے لیے کپتانی سے دستبردار ہو گئے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب انڈین کرکٹ میچ فکسنگ کے سائے پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کے بعد سورو گنگولی کی کپتانی میں انڈین کرکٹ نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
24 سال قبل اپنی ہی سرزمین پر ملنے والی شکست فاش کے بعد انڈیا میں خود شناسی کے ذریعے ایک مضبوط بنیاد ڈالی گئی جس کی وجہ سے انڈیا نے نہ صرف اندرون ملک تاریخی فتوحات حاصل کیں بلکہ غیر ملکی دوروں پر بھی وقفے وقفے سے اس نے پرچم بلند کیے۔
انڈین کرکٹ اب کس سمت جائے گی؟
اب سوال یہ ہے کہ کیا انڈین کرکٹ میں ایک بار پھر خود آگہی آئے گی؟ کیا چیف سلیکٹر اجیت اگارکر اور ہیڈ کوچ گوتم گمبھیر تجربہ کار کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت اور ان کے مستقبل کے حوالے سے حساس معاملات پر ایماندارانہ رائے قائم کر سکیں گے؟
یہ مکمل طور پر ممکن ہے کہ کپتان روہت شرما اور وراٹ کوہلی رواں ماہ شروع ہونے والے آسٹریلیا کے دورے میں اپنے بلے کی سوئنگ دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیم انڈیا معجزانہ طور پر آسٹریلیا میں مسلسل تیسری بار ٹیسٹ سیریز جیت لے۔
لیکن پھر بھی انڈین کرکٹ کو ایک کڑوے سچ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نیوزی لینڈ نے انڈین کرکٹ کو جو کڑوا سچ دکھایا ہے وہ یہ ہے کہ شاید روہت اور وراٹ کے غلبے کا دور ختم ہو گیا ہے۔
یہ دونوں عظیم کھلاڑی ہیں اور ان کی صلاحیت راتوں رات ختم نہیں ہو گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انڈین کرکٹ کے مستقبل کا راستہ ان تجربہ کار کندھوں کی مضبوطی پر طے کیا جاسکے۔
کرکٹ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ دیکھا گیا ہے کہ کرکٹ اکثر آخری دور میں اپنے سب سے پیارے بیٹوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتی ہے۔ اس کھیل نے اپنی آخری اننگز میں سر ڈان بریڈمین کو بھی نہیں بخشا اور وہ صفر پر آوٹ ہو گئے اور کرکٹ کو الوداع کہا۔ اگر وہ صرف مزید چار رنز بنا لیتے تو ان کی اوسط پورے 100 رنز ہوتی۔
کرکٹ نے ویوین رچرڈز، رکی پونٹنگ اور یہاں تک کہ سچن ٹنڈولکر کو یہ بتانے سے گریز نہیں کیا کہ بڑھتی عمر نے ان سب کے کھیلوں کو متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کی حال اے،کتھوں آئے او۔۔وزیر اعلیٰ کی پنجابی میں گفتگو ، ایئر ایمبولینس سے شفٹ ہونیوالے مریض کا ” سلیوٹ “
وراٹ کوہلی اور روہت شرما
تو کیا وراٹ کوہلی اور روہت شرما بھی اسی مرحلے پر پہنچ گئے ہیں؟
میچ ہارنے کے بعد خود روہت نے کھلے طور پر اعتراف کیا کہ وہ بلے باز اور کپتان کے طور پر اپنی بہترین فارم میں نہیں ہیں۔
انڈین کرکٹ میں سیریز ہارنے کے بعد کوئی بھی کپتان اس انداز میں اپنی غلطی کو کھلے دل سے قبول نہیں کرتا۔ لیکن، کیا روہت کے پاس کوئی اور آپشن بچا تھا جب سنیل گواسکر، روی شاستری یا سنجے منجریکر جیسے ممبئی کے لیجنڈ کھلاڑی موجودہ کپتان کے مزاج اور تکنیک پر تیکھے تبصرے کرنے سے نہیں ہچکچا رہے تھے؟
وراٹ کوہلی کے لیے 2014 کے دورہ انگلینڈ کے بعد یہ ان کے کریئر کا بدترین دور ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں ان کی اوسط 55 سے گر کر اب 30 کے قریب آ گئی ہے۔
اس عرصے میں بڑی اننگز کو اگر نظر انداز کر دیں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی سنچریاں بھی بہت مشکل سے آتی ہیں۔ دوسری جانب ان کے ہم عصر اور ’فیب فور‘ کے اہم رکن جو روٹ سنچریاں بنا رہے ہیں اور انھوں نے گذشتہ چار سالوں میں 18 سنچریاں بنائی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی، کوہلی کے لیے اس سیریز کی چھ اننگز میں 100 رنز بھی نہ بنا پانا ان کی ’کنگ کوہلی‘ والی شبیہہ سے بالکل متصادم لگتا ہے۔
آخر قصور کس کا ہے؟
آل راؤنڈر رویندر جڈیجہ نے ممبئی میں دونوں اننگز میں 5-5 وکٹیں لے کر ناقدین کو خاموش کر دیا، لیکن دوسری جانب یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس میچ سے قبل آخری 24 اننگز میں جڈیجہ نے صرف ایک بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔
اس سیریز کے بعد روی چندرن اشون پر تنقید کرنا مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ وہ بنگلہ دیش کے خلاف پچھلی سیریز میں مین آف دی سیریز تھے۔
تو کیا آپ رواں سال ٹیسٹ کرکٹ میں انڈیا کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے یشسوی جیسوال کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے یا ممبئی میں دونوں اننگز میں ناکام رہنے والے نوجوان سرفراز خان کو، جنھوں نے صرف ایک میچ پہلے بنگلور میں 151 رنز بنائے تھے؟
یا پھر شبمن گل پر بھی انگلی اٹھائیں گے جو بظاہر مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہیں، لیکن پھر بھی ان کی صلاحیت کے مطابق رنز نہیں بنا رہے ہیں؟
کے ایل راہل اکثر سوشل میڈیا پر قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں، لیکن اس سیریز میں وہ پچھلے دو میچوں میں پلیئنگ الیون کا حصہ نہیں رہے ہیں۔
دوسری جانب رشبھ پنت اور واشنگٹن سندر مکمل مایوسی کے درمیان امید کی واحد کرن بن کر ابھرے ہیں۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ دونوں نے آسٹریلیا کے دورے پر میچ نہیں بلکہ سیریز جیت کر انڈین کرکٹ کو نازک لمحات سے بچا لیا تھا۔
لیکن، کچھ ہفتوں بعد آسٹریلیا کے خلاف ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں صرف ان دونوں کی بنیاد پر واپسی کی امید نہیں کی جا سکتی۔
گذشتہ سال نومبر میں ون ڈے ورلڈ کپ کے فائنل میں ناکامی کے باوجود روہت شرما اور ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے تجربہ کار کھلاڑیوں پر اعتماد کم نہیں ہونے دیا اور صرف چھ ماہ بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں یادگار فتح حاصل کی۔
لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف اس عبرتناک شکست کے بعد انڈین کرکٹ کے پاس ٹیسٹ کرکٹ میں چھ ماہ کا صبر نہیں ہو گا اور نہ ہی بڑی ٹیموں کے پاس اگلے چھ ہفتوں تک مزید وقت ہوگا۔
اگر روہت، وراٹ، اشون، جڈیجہ اور بمراہ ان چھ ہفتوں کے دوران اپنی فارم حاصل کر لیتے ہیں، تو پھر 29 جون سنہ 2024 کو بارباڈوس میں جو ہوا وہ سات جنوری 2025 کو سڈنی میں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ایک خواب اور یادگار فتح کے ساتھ موجودہ نسل کی چیمپئن چوکڑی کے لیے ایک یادگار الوداع بھی ممکن ہو سکے گا۔