نوجوان مصری لڑکیاں مسافروں کو کھانے پینے کی اشیاء اور پھلوں کا رس پیش کرتی جہاز میں تتلیوں کی طرح اِدھر سے اُدھر آ جا رہی تھیں، لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے.
سفر کا آغاز
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 54
الأقصر
کوئی اتنی لمبی چوڑی پرواز بھی نہیں تھی، قاہرہ سے الأقصر تک کوئی گھنٹے سوا گھنٹے کی مسافت تھی۔ میں اپنے اس سفر کو لے کر زیادہ فکر مند بھی نہیں تھا، کیونکہ ایک تو قاہرہ میں اتنے روز قیام کرنے کے بعد میرے اندر اب کافی اعتماد آگیا تھا، دوسرا ایک معاہدے کے تحت قاہرہ کے ہوٹل والوں نے الأقصر میں میرے لئے اچھے ہوٹل اور ایک گائیڈ کا بندوبست کیا ہوا تھا، جس نے مجھے ایئرپورٹ سے وصول کرکے سب کچھ دکھا کر مجھے اگلی منزل کے لئے روانہ کرنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی سی بی نے سینٹرل کنٹریکٹس میں بڑی تبدیلیاں، کھلاڑیوں میں بے چینی
مسافروں کی صورت حال
ہر چند کہ یہ ایک اندرون ملک پرواز تھی تاہم اس میں زیادہ تر مسافر غیر ملکی سیاح تھے۔ اس کے علاوہ متمول مصری باشندے بھی شریک سفر تھے۔ مالی طور پر پہنچ سے دور ہونے کی وجہ سے ابھی عام لوگ اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اور وہ بسوں اور ریل گاڑی کے سفر کو ہی ترجیح دیتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آپ کی جیت نے دنیا کے آمروں کو ہلا کر رکھ دیا ہوگا،سابق صدرعارف علوی کا ٹرمپ کوخط
دریائے نیل کا منظر
مجھے یقین تھا کہ جہاز کا سارا سفر دریائے نیل کے اوپر سے ہونا تھا اور یہ سوچ کر میں نے کھڑکی والی نشست حاصل کی تھی۔ یہ بڑا ہی دلنشیں منظر ہوتا ہے جب ایک بڑے سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا دریا جہاز کے نیچے نیچے چلتا ہے۔ ریاض سے آتے ہوئے ہمارا جہاز اسی طرح ہی گزر کر قاہرہ آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ’’عوامی مشروب‘‘ کی نئی قیمت مقرر کردی
پرواز کا راستہ تبدیل
مگر افسوس ایسا نہ ہوا۔ قاہرہ سے باہر نکلتے ہی پائلٹ نے ڈنڈی ماری اور دریائے نیل کے اوپر سے سفر کرنے کے بجائے جہاز کی نکیل صحرا کی طرف موڑ لی۔ میں کافی دیر تک اس آس پر بیٹھا چپ چاپ نیچے دیکھتا رہا کہ کسی بھی وقت یہ دوبارہ اپنا رخ بدلے گا اور ادھر اُدھر بھٹکنے کے بجائے اپنے اصلی راستے پر واپس آ جائے گا مگر ایسا ہوا نہیں۔ ہر طرف صحرا اور چھوٹی بڑی پہاڑیاں ہی پھیلی ہوئی تھیں۔ میں نے تنگ آ کر کھڑکی ہی بند کر دی۔ غالباً ایئر لائن کمپنیاں ایندھن بچانے کی خاطر یہ صراطِ مستقیم اختیار کرتی تھیں。
یہ بھی پڑھیں: خاتون ٹیچر کو دن دیہاڑے قتل کرنے والا گرفتار، بڑا انکشاف سامنے آگیا
طعام کی پیشکش
نوجوان مصری میزبان لڑکیاں مسافروں کو کھانے پینے کی ہلکی پھلکی اشیاء اور پھلوں کا رس پیش کرتی جہاز میں تتلیوں کی طرح ادھر سے اُدھر آ جا رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھالیا
منزل کا قریب ہونا
ابھی وہ برتن سمیٹ ہی رہی تھیں کہ سپیکر پر الأقصر کے آنے کا شور و غوغا اٹھا اور لوگ سنبھل کر بیٹھ گئے۔ میں نے بھی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا تو مجھے بچھڑا ہوا دریائے نیل ایک بار پھرنظر آگیا، جس کے کنارے کے آس پاس پہاڑیوں کے دامن ایک چھوٹا سا شہر آباد نظر آیا اور یہی ہماری منزل تھی۔ قریب ہی تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھوٹے بڑے گاؤں بسے ہوئے تھے۔ چاروں طرف دور دور تک ہرے بھرے کھیت اور باغات دکھائی دے رہے تھے، جن میں کھڑا ہوا پانی دور سے کسی آئینے کی طرح روشنی منعکس کر رہا تھا۔
جھیل ناصر کا اثر
جیساکہ پہلے کہیں لکھا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسوان کے مقام پر ایک عظیم بند باندھ کر اس منہ زور اور سرکش دریا کو روکا گیا، جو پہلے بپھر کر کنارے توڑتا ہوا باہر نکل جایا کرتا تھا اور ہر طرف تباہی پھیلا دیتا تھا۔ اب اس کا سارا پانی جھیل ناصر میں روک کر وہاں سے ضروریات کے مطابق ہی پانی نشیبی مصر کی طرف چھوڑا جاتا ہے۔ اس لئے اب مقامی لوگ سیلاب کے خطروں سے بے نیاز بارہ مہینے اپنے کھیتوں میں موسمی پھل، سبزیاں، کپاس اور مکئی وغیرہ کاشت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں