تعلیم عام کرنے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ عوام میں سیاسی شعور، بنیادی شہری و جمہوری حقوق کی شناخت پیدا ہو گی،غلط اور صحیح میں تمیز کرنے میں آسانی ہو گی

مصنف کی سوچ
مصنف: جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط: 78
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ڈی چوک پر لاشیں گرانے آ رہی ہے؛ فیصل واوڈا
تعلیم کی اہمیت
دنیا کا بہترین عدالتی نظام قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ملک میں تعلیم کے حصول کو سستا اور آسان بنائیں۔ تعلیم کو ضروری اور آسان بنایا جائے۔ ملک بھر میں بچوں کی ابتدائی تعلیم میٹرک تک مفت اور بلامعاوضہ ہونی چاہئے اور ہر شہری کے لئے لازم ہو کہ وہ کم از کم میٹرک کا امتحان پاس کرے۔ اس صورت میں اسے معاشرے میں روزگار، شناختی کارڈ، اور پاسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ثناء میر کا آئی سی سی ہال آف فیم میں شامل ہونا پاکستان کی ہر بیٹی کی جیت ہے: مریم نواز
سیاسی شعور کا فروغ
تعلیم کے عام ہونے سے عوام میں سیاسی شعور اور اپنے بنیادی شہری و جمہوری حقوق کی شناخت پیدا ہوگی۔ اس کے ذریعے عوام کو صحیح اور غلط امور میں تمیز کرنے میں آسانی ہوگی۔ حکومت پاکستان کو متعدد تعلیمی نظام نافذ کرنے کی بجائے ایک جدید ترین نظام تعلیم اپنانا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور اور دہلی کی سموگ: الزامات اور حقائق – کیا یہ ممکن ہے کہ بھارت کے پنجاب سے آلودگی کی وجہ سے ایسا ہو؟
مدرسے کی تعلیم کی حقیقت
مدرسوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے؟ ہر سال لاکھوں مولوی پیدا ہو رہے ہیں، جس سے ملک میں مذہبی فرقہ بندی اور تعصبات کو فروغ ملتا ہے۔ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم ہونا چاہئے، جس میں ہر شخص کو مذہبی تعلیم کے ساتھ جدید کمپیوٹر سائنس جیسی دیگر مضامین کی تعلیم بھی دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے مختلف شہروں میں فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا
جدید دور کا تقاضا
اب ہمارے علماء کرام انگریزی تعلیم سے گریز نہیں کرتے؛ وہ خود انگریزی سیکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنے شاگردوں کو انگریزی سے نابلد کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ ملک میں تعلیم کے عام ہونے سے آئین کی بالادستی، عدالتوں کا احترام اور جمہوریت کی قدر میں اضافہ ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں شیخ مجیب الرحمن نے بڑی سختی سے کہا کہ اگر میرے جلسے کو خراب کیا گیا تو پھر مولانا مودودی کا طیارہ ڈھاکہ میں لینڈ نہیں کر سکے گا
سنیارٹی کے اصول کی اہمیت
ہر حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جوڈیشری اور تمام سرکاری محکموں میں سنیارٹی کے اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے۔ جہاں بھی اس اصول کو نظرانداز کیا گیا ہے، اس کے ناگوار نتائج ملک کو بھگتنا پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر، بھٹو نے فوج میں سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کیا تو اسے بھی منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں فیض کی مشہور نظم ’ہم دیکھیں گے‘ گانا ’بغاوت‘ قرار، ایک تقریب کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج۔
عدلیہ کا وقار
جب حکمران جوڈیشری میں سنیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اعلیٰ عدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں عدالتیں تقسیم ہو جاتی ہیں اور عوام کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب اور قطر کا شام کے ذمہ ورلڈ بینک کا قرض ادا کرنے کا اعلان
ضابطوں کا نفاذ اور جوڈیشری کی خود مختاری
جوڈیشری کے ایک جانب دارانہ فیصلے سے اعلیٰ ترین عدالت سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عدالتیں آئینی تشریح اور قانون کے نفاذ کے مقاصد کے حامل مقدمات کا سامنا کریں، جبکہ سیاسی مقدمات میں نہیں الجھیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔