الأقصر شہر دریائے نیل کے مشرقی کنارے آباد ہے، بازار وں میں قاہرہ کی طرح یہاں بھی جعلی اشیاء کا کاروبار عروج پر تھا، ٹریفک بھی زیادہ نہیں تھی.

مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 55
یہ بھی پڑھیں: رانا ثنا اللہ کا ایاز لطیف پلیجو اور زین شاہ سے ٹیلیفونک رابطہ، کینال زوکارپوریٹ فارمنگ کے مسئلے پر مذاکرات کی پیشکش
ایئرپورٹ پہنچنے کا منظر
جہاز نے الأقصر شہر کا ایک چکر لگایا اور آہستگی سے رن وے پر اتر گیا اور خراماں خراماں ایئرپورٹ کی عمارت کی طرف چلا۔ یہ ایک چھوٹا سا ایئرپورٹ تھا جہاں سارے دن میں چند ہی پروازیں آتی تھیں اور وہ بھی زیادہ تر غیر ملکی سیاحوں کے لیے ہوتی تھیں۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور دوسرے سیاحوں کی تقلید میں اکلوتے ہال میں آ پہنچا۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن آڈٹ کے امکانات: خواجہ آصف کی عدلیہ میں تبدیلی پر تشویش
استقبال کا لمحہ
وہاں بے شمار گائیڈ اور ایجنٹ ہاتھوں میں مطلوبہ مہمانوں کے ناموں کے پلے کارڈ لئے ایک قطار میں کھڑے تھے۔ جیسے ہی مسافر ہال میں سے باہر نکل کر وہاں پہنچتے، وہ ان کا نام پکار کر اشارے سے اپنے کارڈ کی طرف متوجہ کرتے۔ میں بھی ان کے سامنے سے گزرا لیکن میری آواز نہ پڑی اور میں چلتا ہی گیا۔ قطار کے آخر میں ایک نوجوان کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پلے کارڈ پر عربی اور انگریزی میں "ا لسّید جافید" لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے میرے نام کا بھی حشر نشر کر دیا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو کبھی بھی ڈھونڈ نہ پاتا لیکن میں ان چھوٹی موٹی مصری اٹھکیلیوں سے خوب واقف تھا، اس لئے اپنا نام پہچان کر میں اس کے پاس چلا آیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں شیری رحمان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بلاک
ہوٹل کی روانگی
اس نے اپنا نام بتا کر تعارف کروایا اور انتہائی گرم جوشی سے مجھے اہلاً و سہلاً کہا اور اپنے ساتھ آنے کو کہا۔ باہر ایک نئے ماڈل کی گاڑی کھڑی تھی۔ ہم اس میں بیٹھ کر اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے جہاں میرا کمرہ بک تھا۔ ضروری کاغذی کارروائی ہوئی اور مجھے ہوٹل کی دوسری منزل پر ایک کمرہ الاٹ کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے ہائپرسونک میزائل کی خاص بات جو اینٹی میزائل سسٹمز کو چکمہ دے سکتی ہے
دن کی منصوبہ بندی
دن کا ابھی کچھ نہیں بگڑا تھا، ابھی صرف گیارہ ہی بجے تھے اور ایک پہاڑ جیسا دن میرے سامنے پڑا تھا۔ اس کو کمرے میں بیٹھ کر ضائع کرنے کے بجائے میں نے مناسب سمجھا کہ فوراً ہی باہر نکل لیا جائے۔ کچھ ایسا ہی خیال میرے راہبر یعنی گائیڈ کا بھی تھا۔ جو قاہرہ والے عبدو سے ذرا مختلف اور قدرے باتونی بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سیما ہندو مذہب قبول کرچکی، ڈی پورٹ ہونے کی خبروں پر وکیل کا موقف آگیا
سیر کا آغاز
اس نے سیر کا آغاز ایک تانگے سے کیا اور مجھے اس پر بٹھا کر الأقصر شہر دکھانے نکل کھڑا ہوا۔ اس کا پروگرام تھا کہ ابھی اس چھوٹے سے شہر کو گھوم پھر کر دیکھ لیا جائے اور پھر شام کو وہ مجھے یہاں کے عجائب گھر اور سلطنت فرعونیہ کے پایۂ تخت تھبیس اور وہاں کے سب سے بڑے کرناک مندر لے جائے گا اور پھر رات کو اسی مندر میں ہم مشہور زمانہ ساؤنڈ اینڈ لائیٹ شو بھی دیکھ لیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مشہور بھارتی کرکٹر کو داعش کا دھمکی بھرا پیغام موصول، حیران کن انکشاف
شہر الأقصر کا تعارف
اس وقت الأقصر ایک عام اور چھوٹا سا شہر تھا جو دریائے نیل کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ وہاں ایک مرکزی شاہراہ تھی جس کے اردگرد ہر طرح کے روایتی مصری بازار تھے جن میں عام ضروریات کی اشیاء کے علاوہ سیاحوں کی دلچسپی کی چیزیں اور نوادرات بھی موجود تھے۔
نوٹ
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔