پاکستان میں سانس لینے کی جنگ: بیجنگ اور لندن نے بدترین سموگ کے بحران کا حل کیسے تلاش کیا؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں موسم سرما کا باقاعدہ آغاز تو نہیں ہوا ہے لیکن فضاء کی آلودگی نے اس قدر شدت اختیار کر لی ہے کہ ہر طرف دھند کی چادر سی بچھ گئی ہے۔
صرف لاہور ہی نہیں، بلکہ ملتان، فیصل آباد، قصور اور دیگر شہروں کی صورتحال بھی کافی پریشان کن ہے، جہاں اکثر شہری سینے میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی اور زکام کی شکایت کر رہے ہیں۔
موٹروے پولیس نے نومبر کے آغاز میں کئی مقامات پر 'دھند کی وجہ سے' موٹروے کو جزوی طور پر بند کر دیا ہے۔
اس صورت حال میں پنجاب اور خاص طور پر لاہور کے رہائشی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اس مسئلے کا کوئی مستقل حل بھی موجود ہے؟
پنجاب حکومت نے صوبے کے چار ڈویژن میں پہلی سے 12ویں جماعت تک کے سکولوں کی تعطیلات میں 17 نومبر تک توسیع کر دی ہے، جن میں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ شامل ہیں۔ ان اضلاع میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
صوبے بھر میں سرکاری اور نجی دفاتر میں 50 فیصد عملے کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لاہور کے مختلف علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور شہریوں کو گھروں سے باہر نہ نکلنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔
نہ صرف پنجاب، بلکہ دارالحکومت اسلام آباد بھی جو کہ ملک کے خوبصورت شہروں میں شامل ہے، یہاں بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سموگ کی وجہ سے پنجاب حکومت نے سکول بند کیے ہوں، بلکہ یہ معمول 2021 سے ہر سال دہرایا جا رہا ہے، نومبر اور دسمبر میں سکولوں کو بند کیا جا رہا ہے۔
اس تمام صورت حال میں جو سوال سب کی زبان پر ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ کیا ہر گزرتے سال کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا؟
پاکستان میں اس مسئلے کا ایک عارضی حل مصنوعی بارش پر بھی غور کیا گیا تھا، اور پچھلے سال متحدہ عرب امارات کے تعاون سے 'کلاؤڈ سیڈنگ' کی گئی تھی۔ وزیرِ ماحولیات مریم اورنگزیب کے مطابق حکومت نے اس حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
پاکستان وہ پہلا ملک نہیں ہے جہاں سموگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہو؛ ماضی میں دو ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومت بھی سموگ کی زد میں آ چکے ہیں اور انہیں اس مسئلے سے نکلنے میں برسوں لگے۔
یہ شہر بیجنگ اور لندن تھے، جہاں ایئر کوالٹی میں غیر معمولی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ ان شہروں نے سموگ سے نمٹنے کے لیے کیا کیا مراحل طے کیے اور پاکستان ان ممالک سے کیا سبق حاصل کر سکتا ہے؟
دی گریٹ سموگ آف لندن کیا تھی؟
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں 19ویں اور 20ویں صدی میں کئی بار سموگ کے واقعات پیش آئے۔ یہ عام طور پر اس وقت ہوتا تھا جب لوگ کوئلہ جلا کر اپنے گھروں کو گرم کرنے کی کوشش کرتے اور شہر کی بھاری صنعتوں سے مختلف کیمیکلز فضاء میں چھوڑے جاتے تھے۔
سنہ 1952 میں دی گریٹ سموگ آف لندن ایک انتہائی معروف واقعہ تھا جب چار دن تک دور دور تک کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ کچھ اندازوں کے مطابق اس دوران 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سموگ نے زندگی کو اس قدر متاثر کیا کہ یہ گھروں اور تہہ خانوں میں بھی داخل ہوگئی تھی اور سنیما کی سکرینیں بھی نظر نہیں آ رہی تھیں۔
5 دسمبر 1952 کو جب تیوہاری موسم کا آغاز ہوچکا تھا، لندن کے لوگ شہر میں سیر و تفریح کر رہے تھے، اسی دوران صنعتوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھتا رہا۔
جیسے جیسے رات گزرنے لگی، دھند گہری ہوتی گئی اور جلد ہی سموگ نے دارالحکومت کو اندھیرے میں ڈبو دیا، جس سے زندگی کا نظام متاثر ہوگیا۔
لندن کے لوگ سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انھیں چند گز کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
اگلی صبح سورج کی کرنیں ابھریں تو بھی سموگ برقرار رہی۔ بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہوگئی یہاں تک کہ بعض علاقوں میں لوگ باہر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔
اگلے چار دنوں کے دوران شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبا رہا۔
زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن کے باشندے ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے۔ شہر میں نمونیا اور برونکائٹس جیسے امراض پھیل گئے۔ شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھرنے لگے کیونکہ ہزاروں افراد زہریلی ہوا سے ہلاک ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی صارفین سے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 9 کھرب 79ارب سے زائد کی وصولی
برطانیہ اس سے کیسے نمٹا؟
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شہر کی خوبصورتی اور رونقیں اس وقت بحال ہوئیں جب حکمرانوں نے عوامی مطالبات پر ایسے اقدامات کیے کہ سموگ، دھوئیں اور فضائی آلودگی کے زہریلے بادل چھٹ گئے، اور دنیا بھر کے لوگ اب اس شہر کا رخ کرتے ہیں اور وہاں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کرتے ہیں۔
لندن میں اس واقعے کے بعد سے حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے، لیکن سنہ 1956 میں برطانیہ کی پارلیمان کی جانب سے ’کلین ایئر ایکٹ‘ پاس کیا گیا جس میں صنعتی اور گھروں سے نکلنے والے دھوئیں کو کنٹرول کرنے کے لیے شہروں اور قصبوں میں ’سموک کنٹرل ایریاز‘ بنائے گئے۔ یہاں ایسے ایندھن جلائے جاتے ہیں جن کا دھواں کم ہوتا ہے، اور گھروں کے مالکان کو سبسڈی دی گئی تاکہ وہ پائیدار ایندھن پر منتقل ہوسکیں۔
سنہ 1968 میں اس ایکٹ میں توسیع کی گئی اور لندن کی فضائی کوالٹی میں اس کے بعد کی دہائیوں میں بہتری آنے لگی۔
شہر کی جانب سے ’الٹرا لو ایمشن زون‘ متعارف کروائے گئے جن میں زیادہ دھواں پھیلانے والی گاڑیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ لندن سٹی ہال کی جانب سے اس پالیسی کے نفاذ کے چھ ماہ بعد کہا گیا کہ فضائی آلودگی میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اب بھی لندن میں فضائی آلودگی یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
لندن کے لوگ سڑکوں پر ٹھوکریں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے مگر انہیں چند گز سے زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اگلے دن جب سورج طلوع ہوا تو سموگ پھر بھی برقرار رہی۔ بلکہ سورج کی روشنی میں یہ مزید گہری ہو گئی یہاں تک کہ کچھ علاقوں میں لوگ ایک قدم باہر نہیں نکال سکتے تھے۔
اگلے چار دنوں تک شہر مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا۔ زہریلی ہوا میں سانس لیتے لندن والے اب ایک نئی مصیبت میں گِھر گئے۔ شہر میں نمونیا اور برونکائٹس (کھانسی، گلے کی خرابی جیسے امراض) پھیل گئے اور شہر کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے کیونکہ ہزاروں لوگ زہریلی ہوا میں دم توڑ گئے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 9 فیصد لوگوں نے میری سوچ سے اختلاف کیا، ڈاکٹر ذاکر نائیک
چین میں سموگ کب آئی اور اس کا کیسے بندوبست کیا گیا؟
چین میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی کے باعث فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا۔
سنہ 1980 کی دہائی کے بعد سے جب چین میں کوئلے سے چلنے والے پاور سٹیشن اور گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو چین کے دارالحکومت بیجنگ میں زہریلے کیمیکلز اور فضائی آلودگی میں بتدریج اضافہ ہونے لگا۔
سنہ 2014 میں شنگھائی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کا کہنا تھا کہ شہر ’انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘ کیونکہ یہاں آلودگی بہت زیادہ ہے۔
تو پھر چین نے اس کا حل کیا نکالا؟ اس کے لیے سالوں کی محنت کرنا پڑی۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2013 سے 2017 میں چار سال کے درمیان بیجنگ میں ہوا میں زرات کی شرح 35 فیصد سے کم ہو کر 25 فیصد ہو گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’دنیا کے کسی اور شہر نے ایسی کامیابی حاصل نہیں کی۔
تاہم یہ اس لیے تھا کیونکہ چین نے جو اقدامات متعارف کروائے وہ سنہ 1998 کے بعد سے دو دہائیوں تک مختلف اشکال میں نافذ کیے جاتے رہے۔
چین کی حکومت نے صنعتوں کے اخراج کو بہت کم کرنے کے لیے معیار وضع کیے، جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم بنایا اور مزید پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر بھی تخلیق کیا۔ چین میں گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی کو بھی بہتر بنایا گیا۔
بیجنگ نے اب تک مکمل طور پر اس مسئلے کا حل نہیں نکالا۔ شہر میں اب بھی فضائی آلودگی موجود ہے اور آمدورفت کے دوران اکثر افراد ماسک کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی معلومات سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہیکل سے خارج ہونے والے دھوئیں میں کمی، نجی کاروبار کے لیے حکومت کی طرف سے دی گئی مراعات، ڈیٹا کا درست استعمال، اور صنعت کو ہیوی انڈسٹری کے علاوہ دیگر شعبوں میں پھیلانے سے فضائی آلودگی میں کیسے کمی آتی ہے۔
ایک بڑے ایکشن پلان کے تحت دیگر اقدامات کے علاوہ کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی گئی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹمز کو بند کر دیا گیا، ڈیزل ٹرکوں میں ایندھن اور انجن کے معیار کو بہتر بنایا گیا جبکہ آلودگی پھیلانے والی پرانی گاڑیوں کا استعمال بند کر دیا گیا۔ لوگوں کو الیکٹرک گاڑیوں کو اپنانے اور مختصر سفر کے لیے سائیکل چلانے کی ترغیب دی گئی۔
فن لینڈ کے دارالحکومت ہلسنکی میں قائم ’سینٹر آف انرجی اینڈ کلین ایئر‘ سے جڑے تجزیہ کار لوری میلیورتا کہتے ہیں کہ ’بیجنگ نے شہر میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی، لیکن گزشتہ ایک دہائی میں نمایاں بہتری اس وقت دیکھنے میں آئی جب انہوں نے اپنی کوششوں کو شہر کی حدود سے باہر بھی بڑھا دیا۔‘
لوری میلیورتا کے مطابق ’ایک ’کلیدی کنٹرول کا علاقہ‘ قائم کرکے حکام نے زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کے لیے بجٹ سنہ 2013 میں 430 ملین ڈالر سے بڑھ کر سنہ 2017 میں 2.6 ارب ڈالر ہو گیا۔
پاکستان میں سموگ سے ستائے شہری
یوں تو سموگ سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور ہوتا ہے، لیکن اب ہر گزرتے سال کے ساتھ اسلام آباد، ملتان، پشاور اور فیصل آباد سمیت لاہور کے گرد و نواح میں موجود شہر بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین تصاویر پوسٹ کر کے دکھا رہے ہیں کہ کیسے ان کے شہر پر سموگ چھائی ہوئی ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے حقوقِ خلق پارٹی کے رہنما عمار علی جان نے لکھا کہ ’یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ سموگ کے مسئلے پر کتنی کم بات ہوئی ہے حالانکہ اس کے باعث ہماری زندگی کا دورانیہ کم ہو رہا ہے۔‘
ایک صارف شاہویز نے لکھا کہ ’سانس لیں، لیکن اپنی ذمہ داری پر۔‘
رامین نامی صارف نے لکھا کہ ’اسلام آباد میں اس وقت ہم سموگ کا ابتدائی سٹیج دیکھ رہے ہیں جو لاہور میں ایک دہائی پہلے دیکھنے کو ملتی تھی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اسلام آباد کی فضا بھی لاہور جتنی ہی آلودہ ہو جائے گی، یا شاید اس سے بھی زیادہ خرابی کی طرف جائے۔‘
کچھ صارفین اس موقع پر مریم نواز کے سوئٹزرلینڈ کے دورے پر تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جبکہ اکثر لوگ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ کیسے ان کے اردگرد ہر دوسرا شخص بیمار ہو رہا ہے۔
ایک پاکستانی صارف نے لکھا کہ ’ہمیں بیرونِ ملک سے ماہرین کو بلا کر اس بارے میں تحقیق کرنی چاہیے کہ ہم اس مسئلے کا حل کیسے نکالیں، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔