برطانیہ کے شراب خانوں میں 50 سال پہلے ہونے والے دھماکوں کا حل نہ ہونے والا معمہ
50 سال پہلے، 21 نومبر 1974 کی رات تھی۔ پانچ افراد برطانیہ میں برمنگھم نیو سٹریٹ سٹیشن سے ٹرین میں سوار ہوئے جس کی منزل لنکاشائر کی بندرگاہ ہیشم تھی۔
یہ لوگ آئرلینڈ میں آئرش رپبلکن آرمی کے ایک بمبار کی آخری رسومات میں شرکت کرنے جا رہے تھے جس نے صرف ایک ہفتے قبل خود کو اڑا لیا تھا۔
ٹرین رات تقریباً 8 بجے کے قریب روانہ ہوئی۔ صرف 20 منٹ کے بعد، برمنگھم کے مرکزی علاقے میں ایک شراب خانے، ’ملبری بش‘، میں بم پھٹ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک اور قریبی شراب خانے میں دوسرا دھماکہ ہوا۔ مجموعی طور پر ان دھماکوں میں 21 افراد ہلاک اور 220 زخمی ہوئے۔
ٹرین پر سوار ہونے والے پانچ افراد ایک دوست سمیت حراست میں لے لیے گئے جو انھیں سٹیشن پر چھوڑ کر آیا تھا۔ ان پر شراب خانوں میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور یہ برمنگھم سکس کے نام سے مشہور ہوئے۔
1975 میں ایک مقدمے میں، ان سب کو 21 افراد کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم 1991 میں، یعنی 16 سال بعد، ان کی سزائیں ختم کر دی گئیں اور یہ رہا ہوئے۔ اس فیصلے کی وجہ ایک صحافی، کرس ملن، کی تحقیق تھی جو اس وقت تک پارلیمنٹ کے رکن بن چکے تھے۔
ان کو کسی نے بتایا کہ جن افراد کو سزا ملی وہ ان دھماکوں میں ملوث ہی نہیں تھے۔ کرس نے خود سے تحقیق شروع کی۔
کرس ملن کہتے ہیں کہ ’مجھے ابتدا ہی سے احساس ہوا کہ صرف پولیس کے شواہد میں خامیاں نکالنا کافی نہیں ہو گا۔ مجھے اصلی بمباروں کو تلاش کرنا ہو گا جو شاید آئرلینڈ میں زندہ سلامت موجود ہوں گے۔‘
’مبہم وارننگ‘
ان افراد کی بے گناہی ثابت کرنے میں کئی سال لگ گئے، لیکن بہت سے سوال اب بھی باقی ہیں۔ دھماکوں کے 50 سال بعد، برطانیہ کی جدید تاریخ میں ہونے والی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے ذمہ دار کون تھے؟ یہ معمہ اب تک حل نہیں ہوا۔ آج بھی برطانیہ میں ان دھماکوں کی تفتیش کے مطالبے ہو رہے ہیں۔
اینڈی سٹریٹ مغربی مڈلینڈز کے سابق میئر ہیں۔ ستمبر میں انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’مجھے یقین ہے کہ حکومت عوامی انکوائری کی اجازت دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ میرے پاس مضبوط شواہد ہیں، تو یہ ایک فیصلہ ہے جو لیا جا سکتا ہے۔‘
یعنی 50 سال قبل ہونے والے دھماکوں کے ذمہ داران کا تعین کرنے کی ایک نئی کوشش ہو سکتی ہے۔ اگر عوامی انکوائری شروع ہوتی ہے، تو شاید یہ معلوم ہو سکے کہ اس رات واقعی کیا ہوا تھا اور کیوں کسی کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔
کرس ملن کا اس واقعے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہے کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا۔ انھوں نے اپنی تحقیقات کا آغاز جیل میں موجود معروف آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) کے افراد سے ملاقات کر کے کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک مشکل کام تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر کافی لوگوں نے تعاون کیا۔ سب جانتے تھے کہ غلط لوگوں کو جیل میں بند کیا گیا ہے اور یہ بات ان کے ضمیر پر بوجھ تھی۔‘
ملن نے اپنی ملاقاتوں کا احوال اپنی کتاب ’ایرر آف ججمنٹ‘ میں بیان کیا جو 1986 میں شائع ہوئی۔ لیکن انھوں نے بطور صحافی رازداری کے اصول کا پاس رکھا اور جن لوگوں سے معلومات ملیں ان کا نام ظاہر نہیں کیا۔
اگرچہ ملن کی تحقیق نے برمنگھم 6 کی رہائی کو ممکن بنایا لیکن آئی آر اے نے کبھی ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ وہی اس کے پیچھے تھے۔
آئی آر آے نے 1970 کی دہائی میں جدوجہد کا کھلے عام آغاز کیا اور اگرچہ 1974 میں کچھ بھیانک حملے ہو چکے تھے لیکن پب بم دھماکوں سے پہلے کسی حملے میں شہریوں کو اس طرح نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔
برمنگھم بم دھماکوں کی رات 8:11 پر ایک آدمی نے آئرش لہجے میں برمنگھم پوسٹ اور میل کو فون کر کے بتایا کہ شہر کے مرکز میں دو بم رکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ وارننگ مبہم تھی۔
اس نے پب کے نام تک نہیں بتائے اور کچھ ہی منٹوں بعد یہ بم پھٹ گئے۔ جان پلِمر دھماکے سے کچھ وقت پہلے ایک شراب خانے، ’ٹیورن اِن دی ٹاؤن‘، میں موجود تھے۔ ان کو وہ رات آج بھی یاد ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ کل جیسا ہی ہے۔ جو جگہ روشن تھی اور خوشیوں اور جوش و خروش سے بھرپور تھی، مکمل تاریکی میں ڈوب چکی تھی اور ایک ناخوشگوار دھماکہ خیز مواد کی بو پھیل رہی تھی۔‘
کرس ملن کے مطابق شراب خانوں کو ان عمارتوں کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا تھا جن کا یہ حصہ تھے۔ ’ٹیورن ان دی ٹاؤن‘ ایک ٹیکس دفتر کے بالکل نیچے واقع تھا۔
تاہم اتنا وقت گزرنے کے بعد پولیس کے لیے اب اس کیس کو حل کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ممکنہ گواہان وفات پا چکے ہیں، اور یادیں دھندلا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی شواہد بشمول ایک تیسرا بم جو پھٹ نہیں سکا تھا اور اسی شام ملا تھا، اب گم ہو چکا ہے۔
پھر بھی وقت کے گزرنے سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے۔ کچھ انکشافات سامنے آئے ہیں کہ شاید یہ بم دھماکے کس نے کیے تھے۔ ایک سابقہ آئی آر اے بمبار نے کچھ لوگوں کے نام بھی لیے ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ حملے کیے تھے۔
ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے برمنگھم 6 کی رہائی کے بعد 1991 میں اس کیس کی دوبارہ تحقیقات شروع کیں تاکہ کوئی نیا سراغ مل سکے اور پرانے شواہد کا جائزہ لیا جا سکے مگر پھر 1994 میں کیس دوبارہ بند کر دیا گیا۔
اُس وقت کے چیف کانسٹیبل، ران ہیڈفیلڈ نے بتایا کہ ویسٹ مڈلینڈز پولیس نے ان سنگین جرائم کے مجرموں کو عدالت میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جو 20 سال پہلے ہوئے تھے۔
اس کے بعد کچھ برسوں تک زیادہ سرگرمی نہیں ہوئی۔ مگر 2010 میں، ایک متاثرہ شخص کی بہن نے انصاف کے لیے مہم کا آغاز کیا، جسے ’جسٹس فار دی 21‘ کہا جاتا ہے۔
اس مہم کا پہلا مقصد یہ تھا کہ 21 متاثرین کی ہلاکتوں کی تحقیقات دوبارہ کھولی جائیں۔ انکوائری کبھی مکمل نہیں ہوئی تھی کیونکہ 1970 کی دہائی میں ان بم دھماکوں پر ایک مقدمہ چلا تھا جس میں سزا بھی ہوئی تھی۔
جولی ہیملٹن کی بڑی بہن میگزین ٹیورن اِن دی ٹاؤن بم دھماکے میں ہلاک ہوئیں۔ جولی اُس وقت 11 سال کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں انھیں اس مسئلے کو پہلے نہ اٹھانے پر افسوس ہے۔ لیکن وہ مانتی ہیں کہ پہلے وہ خود کو مضبوط محسوس نہیں کرتی تھی۔
ان کی مہم کے نتیجے میں بالآخر 2019 میں تحقیقات کا آغاز ہوا لیکن ہلاک ہونے والوں کے خاندان مایوس تھے اور محسوس کرتے تھے کہ انھیں اس تحقیق سے کچھ زیادہ جاننے کو نہیں ملا۔ جیسا کہ ہیملٹن نے کہا: ’یہ وقت کا ضیاع تھا۔‘
یہ بھی پڑھیں: چھتوں پر سنائپرز اور ڈرونز کی نگرانی: امریکہ میں ووٹوں کی گنتی کا مرکز جس پر دنیا بھر کی توجہ مرکوز ہے
اصلی بمبار کون تھے؟
تحقیقات کے دوران ایک حیران کن پیش رفت ہوئی۔ ایک گواہ جو ایک سزا یافتہ آئی آر اے بمبار تھا اور جسے صرف ’گواہ او‘ کے نام سے جانا گیا، نے گواہی دی کہ اسے آئی آر اے کے رہنما نے چار ممکنہ ملزمان کے نام ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے: مک مرے، جیمز فرانسس گیون، شیمس میکلاکلن اور مائیکل ہیز۔
تحقیقات کے موقع پر کرس ملن نے ان چار افراد میں سے تین کے نام لیے جنھیں وہ ان حملوں کے ذمہ دار سمجھتے تھے اور جنھیں انھوں نے اپنی کتاب میں X ،Y اور Z کا کوڈ دیا تھا: مرے، گیون اور ہیز۔
ملن نے کہا کہ اب وہ ان کا نام بتا سکتے ہیں کیونکہ پہلے دو افراد فوت ہو چکے ہیں اور تیسرے، ہیز، نے کبھی بھی ان سے تعاون نہیں کیا، اس لیے ان کے ساتھ رازداری کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔
ملن نے آج تک چوتھے شخص کا نام بتانے سے انکار کیا ہے جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی ان دھماکوں میں ملوث ہے اور اس شخص کو انھوں نے ’ینگ پلانٹر‘ کا نام دیا۔ وہ شخص ممکنہ طور پر اب بھی زندہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے 77 برس مکمل، قومی اسمبلی میں یوم سیاہ کی قرارداد منظور
’اجتماعی ذمہ داری‘
گواہ او (Witness O) کے نامزد چوتھے شخص، سیمس میک لافلین، کو اس وقت برمنگھم میں آئی آر اے کا سربراہ سمجھا جاتا تھا، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ان کو کم از کم اس منصوبہ بندی کا علم ہوتا۔ وہ اب فوت ہوچکے ہیں اور ان کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ ’ینگ پلانٹر‘ تھے۔
یہ سب وہ لوگ تھے جن کے بارے میں پولیس کو پہلے ہی سے معلوم تھا، لیکن کیا کسی سابق آئی آر اے کے رکن کے ذریعہ نامزد کیے جانے سے کچھ فرق پڑے گا، چاہے یہ حملوں کے 45 سال بعد ہی کیوں نہ ہو؟ تین افراد فوت ہوچکے ہیں، لیکن چوتھا شخص کون ہے؟ کیا مائیکل ہیز وہ چوتھا شخص ہے؟
2017 میں Uses in Urdu کے ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو میں ہیز نے برمنگھم پب بم دھماکوں کے لیے ’اجتماعی ذمہ داری‘ قبول کی۔ لیکن اس رات اپنے مخصوص کردار کے بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی۔ سوالات کے جواب میں بار بار ’نو کمنٹ‘ کہتے رہے۔
ایک اور نام بھی ہے: مائیکل پیٹرک ریلی۔ 2018 میں آئی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک ڈاکومینٹری فلم میں تجویز کیا گیا کہ ریلی وہ ’ینگ پلانٹر‘ تھا جس نے دھماکہ خیز مواد لگایا تھا۔ جب یہ بات ملن کے سامنے رکھی گئی تو انھوں نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کر دیا۔ گواہ ’او‘ سے بھی ریلی کے بارے میں پوچھا گیا، لیکن اس نے کہا کہ اس نے ریلی کا نام کبھی نہیں سنا۔
ریلی، جسے 1970 کی دہائی میں انگلینڈ میں دھماکے کروانے کی سازش کے الزام میں سزا ہوئی تھی (لیکن پب دھماکوں میں ملوث نہیں تھا)، نے ہمیشہ ان پب دھماکوں میں کسی بھی قسم کی شمولیت سے انکار کیا ہے۔ Uses in Urdu اور دیگر ذرائع کے مطابق، ریلی کو 2020 میں گرفتار کیا گیا اور بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا۔
ویسٹ مڈلینڈز پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ڈیمیئن بیرٹ نے مجھے بتایا کہ ’2023 میں بھی ہم نے ریلی اور ہیز کے خلاف شواہد کی فائلیں کراؤن پروسیکیوشن سروس کو پیش کیں تھیں لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ شواہد ناکافی ہیں، جس کی وجہ سے مزید کارروائی ممکن نہیں۔‘
ان افراد کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی بنیادی وجہ شاید ناکافی شواہد ہیں جس کی وجہ سے کسی کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا۔ تاہم کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
1998 کے گڈ فرائیڈے معاہدے نے شمالی آئرلینڈ میں 30 سالہ تنازع کا خاتمہ کیا اور تقریباً 220 پیرا ملٹری قیدیوں کی رہائی کا سبب بنا۔ حالیہ برسوں میں مذاکرات کے ایک اور پہلو کا انکشاف ہوا ہے جس میں بھاگے ہوئے افراد شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر تنازع سے متعلق جرائم کے الزامات تھے لیکن ان پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔
برمنگھم سکس میں شامل پیڈی ہل اور دیگر نے دعویٰ کیا ہے کہ معاہدے کے تحت، کچھ اصل بمباروں کو استثنیٰ کی پیشکش کی گئی تاکہ ان پر مقدمہ نہ چلایا جا سکے۔ اے سی سی بیرٹ نے کہا کہ پولیس کو اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ایک اور نظریہ بھی پیش کیا جا رہا ہے جس پر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بات کر رہے ہیں۔ ان میں سابقہ آئرش ریپبلکن آرمی کے وہ ارکان بھی شامل ہیں جن سے میں نے بات کی، اور انصاف کے لیے مہم چلانے والے اور ان کے حمایتی بھی شامل ہیں کہ اس کیس کو کبھی حل نہ کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر تمام تفصیلات سامنے آتی ہیں تو حکام کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔
کچھ لوگوں نے تو یہ الزام بھی لگایا ہے کہ حکام کو ان دھماکوں کے ہونے کا علم تھا اور انھوں نے سیاسی فائدے کے لیے ان دھماکوں کو ہونے دیا اور خصوصاً نئے انسداد دہشت گردی قوانین منظور کرائے اور عوام کو IRA کے خلاف کیا۔
ان الزامات کے جواب میں ہوم آفس نے Uses in Urdu کو بتایا کہ انھیں ’اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ ظاہر ہو کہ حکومت یا کسی ریاستی ادارے نے دھماکوں کے بارے میں معلومات چھپانے کی کوشش کی ہو۔‘
’حکومت کا جاسوس‘
یہ سب محض نظریات ہیں مگر اب ہمیں معلوم ہے کہ آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) میں کئی مخبر موجود تھے۔ برطانوی ریاست پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے مشکلات کے اس دور میں غیر قانونی قتل اور حملوں کے واقعات پر مناسب کارروائی نہیں کی۔
اسٹیکنائف کی کہانی اہم ہے جو برطانوی فوج کے آئی آر اے میں شامل جاسوس ’فریڈی اسکیپاٹچی‘ کا کوڈ نام تھا اور جو 2003 میں بے نقاب ہوا۔ 1980 کی دہائی میں آئی آر اے کی داخلی سیکیورٹی یونٹ کے رکن کی حیثیت سے وہ متعدد افراد کے قتل میں ملوث تھے جبکہ اس وقت وہ فوج سے تنخواہ بھی لے رہے تھے۔
یہ خیال ظاہر نہیں کیا گیا کہ برطانوی ریاست کے کسی عنصر کا برمنگھم بم دھماکوں میں ہاتھ تھا۔ 2019 میں ہونے والی انکوائری میں جیوری نے کہا کہ ’دستیاب شواہد کی بنیاد پر‘ انھیں نہیں لگتا کہ پولیس کو پیشگی اطلاع تھی۔
لیکن بہت سے لوگوں کو ابھی تک ان سوالات کے جواب نہیں ملے کہ آیا پولیس کو برمنگھم کے آئی آر اے یونٹ میں کوئی مخبر تھا اور کیا بم دھماکوں سے پہلے انھیں کسی قسم کی اطلاع دی گئی تھی یا نہیں۔
جوابات تلاش کرنا آسان نہیں رہا اور فائلوں تک رسائی حاصل کرنا بھی پیچیدہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عوامی انکوائری کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عوامی انکوائریاں پیسے اور وقت کا صحیح استعمال نہیں ہیں، خاص طور پر پرانے واقعات کے لیے۔
پال بریج واٹر، جن کے والد پال انتھونی ڈیوس ان کی پیدائش سے تین ماہ قبل ان دھماکوں میں مارے گئے تھے، کہتے ہیں: ’ہم اپنی آخری سانس تک لڑتے رہیں گے اور پھر دوسرے لوگ یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ میری بیٹی، جو 25 سال کی ہے، سب جانتی ہے اور وہ اس کا ذمہ لے گی۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘
جولی ہیملٹن نے بھی تحقیقات کی امید نہیں چھوڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے خاندانوں کو ان سوالات کے جواب مل سکیں گے جو وہ جاننا چاہتے ہیں۔