کچھ لوگ خود لذتی اور آن لائن سیکس کے ذریعے مشکل جذبات سے چھٹکارا کیوں حاصل کرتے ہیں؟
پیرو سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ ژیاکومو رونکایولو بطور مصنف اپنی خامیوں پر غور کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں مختلف خیالات گردش کرتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنی قابلیت پر شک محسوس ہوتا ہے۔
اس احساس کمتری کے باوجود، انہوں نے چار سال میں ایک ناول لکھا جس کا موضوع ان کی اپنی سوچ کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول کی کہانی شدید احساس ندامت، غیر معمولی جنسی رویے، جنسی خواہش کی حد، پورنوگرافی کی لت اور ان سب میں ٹیکنالوجی کے کردار پر مبنی ہے۔
ہسپانوی زبان میں لکھے گئے ناول (The Fantastic Dream of Annihilating This) کا مرکزی کردار خائمے نامی ایک نوجوان ہے جو ورچوئل سیکس کی لت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ورچوئل سیکس سے مراد انٹرنیٹ پر ویڈیو کے ذریعے خود لذتی کرنا ہے۔ یہ کسی بھی قسم کی ویڈیوز ہوسکتی ہیں جنہیں دیکھ کر آپ میں سیکس کرنے کی خواہش بیدار ہو جاتی ہے۔
تاہم، ورچوئل سیکس میں صرف انٹرنیٹ پر موجود ویڈیوز شامل نہیں ہیں، بلکہ یہ کسی انٹرنیٹ صارف کے ساتھ براہ راست خود لذتی کرنا بھی شامل ہے۔
ناول میں خائمے اپنی گرل فرینڈ کی کم عمر کزن کی ایک ویڈیو دیکھتے ہیں جس میں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جکوزی میں نہا رہی ہوتی ہیں۔
یہ کم عمر لڑکیوں کی ویڈیو دیکھ کر انہیں کم عمر لڑکیوں کی پورن ویڈیوز دیکھنے کی لت لگ جاتی ہے، جس سے انہیں احساس ندامت محسوس ہوتا ہے۔
کچھ دن بعد، ان کی گرل فرینڈ کی کم عمر کزن غائب ہو جاتی ہے۔ لڑکی کی گمشدگی کے بعد خائمے کی اس سے رغبت جنون کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ان کا احساس ندامت مزید گہرا ہو جاتا ہے۔
مصنف ژیاکومو رونکایولو کہتے ہیں کہ ناول لکھتے وقت انہیں اپنے بارے میں کئی انکشافات ہوئے جن کے باعث انہیں اپنے اندر بھرے احساس جرم اور اپنی حد کے بارے میں جانکاری ملی۔
ژیاکومو رونکایولو نے اپنا ادبی کریئر 24 سال کی عمر میں شروع کیا تھا۔ ان کا پہلا ناول ’اموک‘ سنہ 2018 میں شائع ہوا تھا، اور انہیں لاطینی امریکہ کے ممتاز انعامات میں سے ایک ’کلرین ناول پرائز‘ کے لیے بطور فائنلسٹ بھی منتخب کیا گیا تھا۔
یہ کتاب لکھنے کا خیال کیسے آیا؟
ژیاکومو رونکایولو کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ جب میں بلوغت کی عمر میں داخل ہوا، تو مجھے ’سیریئل ایکسپیریمنٹس لین‘ نامی جاپانی اینیمیٹڈ فلمیں دیکھنے کا بے حد شوق ہو گیا تھا۔
اس سیریز میں 90 کی دہائی دکھائی گئی، جب انٹرنیٹ اور چیٹ رومز نئے نئے عام ہوئے تھے۔
سیریز میں ایک کردار اپنے سکول میں خود کشی کر لیتی ہے تاہم اسی شام یہی مردہ لڑکی چیٹ رومز کے ذریعے اپنی دوست سے رابطہ قائم کر لیتی ہے۔
مجھے یہ خیال بہت دلچسپ لگا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے زندہ لوگوں کی دنیا اور مر جانے والوں کی دنیا میں رابطہ قائم ہو سکتا ہے۔
اس سیریز میں جو تجسس پایا جاتا ہے اسی طرح ناول کی کہانی بھی سنسنی خیز ہو جاتی ہے۔
کم عمر لڑکی کی گمشدگی ایک بہت بڑا معمہ بن جاتا ہے۔ پولیس کی تفتیش میں تیزی سے انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
ناول کا مرکزی کردار خائمے بھی ایک طرح کا جاسوس بن جاتا ہے جس کی اس لڑکی میں دلچسپی جنون اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے خائمے پر بھی شک ہو جاتا ہے کہ کہیں وہ بھی اُس لڑکی کی گمشدگی میں تو ملوث نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اسرائیل کشیدگی کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا
احساس ندامت کے کس پہلو نے آپ کی توجہ حاصل کی؟
میرے خیال میں ہم یہ سوچنے کے عادی ہیں کہ احساس ندامت صرف کسی خاص عمل کے نتیجے میں محسوس ہوتا ہے، یعنی میں نے کسی کو مارا ہو اور اس لیے میں خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں۔
لیکن میرے نزدیک ہم سب میں کسی نہ کسی سطح پر یہ احساس جرم موجود ہوتا ہے۔ یہ احساس ہمارے وجود کا حصہ ہے چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں، چاہے ہم اچھے ہیں یا برے۔ ہم اسے محسوس کرنے پر مجبور ہیں۔
میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی کی گمشدگی کے معاملے میں مرکزی کردار کا جرم قدرے مبہم ہے۔
اس نے لڑکی کو چھوا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ویڈیو دیکھتے ہوئے خود لذتی کی ہوتی ہے اور اس کے باوجود کہ وہ اُس لڑکی کی گمشدگی کا ذمہ دار نہیں، وہ احساس جرم میں مبتلا رہتا ہے جیسے اس نے کچھ غلط کیا ہو۔
اس بات کا فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں کہ اس نے کتنا غلط کام کیا۔ مجھے یہ ابہام دلچسپ لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور:احتجاجی اساتذہ کے سکولوں میں رات گزارنے پر پابندی عائد
مرکزی کردار کو پورن کی لت کہاں سے لگتی ہے؟
خیامے کی طرح بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے احساسات کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر مفت پورن ویڈیوز دیکھنے کی مکمل آزادی سے آپ کو ان کے عادی ہونے میں کس طرح مدد ملتی ہے۔
شاید اسی حقیقت کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ 20 سال پہلے انٹرنیٹ نے دنیا کے تمام نوعمر لوگوں کو ایک کلک کے ساتھ ہر ایسی چیز تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دے دی تھی جو پہلے ممنوع تھی یا اس تک رسائی مشکل تھی۔
یقیناً اسی وجہ سے پورنوگرافی کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فخر زمان کیلئے مسائل بڑھ گئے، ایک اور پریشان کن خبر
آپ ورچوئل قربت کو کیسے دیکھتے ہیں؟
میرے خیال میں یہ مثبت یا منفی دونوں ہو سکتی ہے، تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اسے (آن لائن سیکس) کیسے استعمال کرتے ہیں۔
میرے خیال میں (آن لائن) جنسی رغبت جیسے کہ ایک بالغ شخص کا پورن ویڈیو دیکھنا یا ویب کیم کے ذریعے اپنی نمائش کرنا معیوب نہیں ہے، بلکہ اس حوالے سے تحقیق کرنا ضروری ہے۔
تاہم، اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، جیسے بچوں کی پورنوگرافی یا دیگر جرائم۔
انٹرنیٹ ایک بہترین جگہ ہے جہاں ہم اپنی فینٹسیز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہم انھیں معیوب نہ سمجھیں کیونکہ ان کی وجہ سے ہم میں سے کئی لوگ حقیقی زندگی میں کام کرنے کے قابل رہتے ہیں۔
تاہم مرکزی کردار چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے دیتا ہے۔۔۔ وہ اپنی گرل فرینڈ سے چھپ کر پورن ویڈیوز دیکھتا ہے جو اس کے برابر میں سو رہی ہوتی ہے۔
اس کے ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی گرل فرینڈ اسے خود لذتی کرتے ہوئے دیکھے۔
یہ خود کو تباہ کرنے کی خواہش کا ایک حصہ ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نئی ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے ذہن اس قسم کی سوچ میں مبتلا ہو گئے ہیں اور ہم ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایسی لت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔
خائمے کی طرح کئی لوگ ہیں جو خود پر قابو کھو دیتے ہیں اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
میرے خیال میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی انسان غیر معمولی جنسی رویوں میں ملوث نہیں ہوتا۔ وہ پہلے ہی سے ایسے کاموں کی طرف رغبت رکھتا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت ایسے لوگوں کے اندر موجود یہ خواہشات سامنے آ جاتی ہیں اور ہمیں ان کی سوچ دکھائی دینے لگتی ہیں۔
ٹیکنالوجی کی ترقی بہت وسیع اور آزاد طریقے سے ہوئی ہے۔ اس کی مفت رسائی سے ہم جیسے لوگوں کو بہت فائدہ ہوا ہے جو جنوبی ممالک میں رہتے ہیں۔
پیرو جیسے ممالک میں انٹرنیٹ کی وجہ سے کئی چیزیں ممکن ہو سکی ہیں خواہ وہ اچھی ہوں یا بری۔
یہاں انٹرنیٹ کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے، جیسا کہ شمال کے دیگر ممالک میں ہے۔ وہاں آپ کچھ مخصوص چیزوں کو انٹرنیٹ پر نہیں ڈھونڈ سکتے کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو پولیس آپ کے پاس پہنچ جائے گی اور آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے گی۔
انٹرنیٹ نے ہمارے اندر کافی تبدیلیاں پیدا کی ہیں، تاہم ان تبدیلیوں کا پیمانہ کیا ہے، یہ ہمیں ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ اس معاملے میں کسی نتیجے پر پہنچنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔ آنے والی نسلوں پر انٹرنیٹ کا اثر واضح ہوگا۔
ایسا کرنے کی خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے؟
میرے خیال میں اس کا تعلق احساس جرم سے ہے۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جو جنسی احساس ندامت سمیت ہر قسم کے احساس ندامت کے ساتھ جی رہا ہوتا ہے۔
اس کا تعلق اس کے خاندانی رشتوں سے بھی ہے۔ وہ اپنے خاندان سے خود کو دور کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی والدہ اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن وہ انھیں نظر انداز کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے۔
اس نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ وہ خود کو الگ تھلگ رکھتا ہے۔
وہ ایک ایسا شخص ہے جس کے صرف تین دوست ہیں، ایک اس کی بہن، دوسرا وہ شخص جس کے ساتھ وہ رہتا ہے، اور تیسری اس کی گرل فرینڈ۔
وہ اپنی والدہ کو اپنے والد اور ان کی بیماری کے ساتھ تنہا چھوڑنے کے بعد بہت زیادہ احساس ندامت محسوس کرتا ہے۔
ان تمام مسائل کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ خود کو تباہ کرنے کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
یہی کچھ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی گرل فرینڈ کی کزن کی ویڈیو دیکھ کر خود لذتی کرتا ہے حالانکہ اس کی گرل فرینڈ اس کے قریب ہی موجود ہوتی ہے۔
اس میں ایک عجیب سا احساس ندامت جنم لیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس احساس کو کسی ٹھوس وجہ سے جوڑ کر اسے ایک نام دے سکے۔
اسی وجہ سے جب وہ اپنی گرل فرینڈ کی کزن کی ویڈیو دیکھ کر خود لذتی کرتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس لیے برا ہے کہ اس نے غیر معمولی جنسی رویہ اختیار کر لیا ہے۔
اب اسے اپنے اس رویے کی بنا پر احساس ندامت محسوس ہوتا ہے۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ خائمے اپنے اندر کے خالی پن کو ورچوئل سیکس سے بھرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ورچوئل سیکس کے ذریعے اسے اپنی زندگی کا مقصد مل رہا ہے۔ وہ خود کشی کے خیالات سے خود کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
تاہم، ورچوئل سیکس صرف عارضی طور پر ہی اس کے کام آ سکتا ہے۔ کیا یہ زندگی کے مسائل کا حل پائیدار بھی ہے؟
خائمے نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس کا ایک نتیجہ ہے۔ ہاں، یہ طریقہ پائیدار تو نہیں لیکن کئی سالوں تک اس کی مدد سے وہ اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔
خائمے کو اس کے مسائل حل کرنے کے لیے کسی ماہر نفسیات کے پاس بھیجنے میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔
میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ جب کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے خود لذتی اور آن لائن سیکس کے ذریعے اپنے مقدر سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے، اور جنسیت کے ذریعے وہ آہستہ آہستہ کون سی نئی سرحدیں دریافت کرتا ہے۔
یہ واضح ہے، جیسا کہ ناول میں بھی دکھایا گیا ہے، یہ صرف عارضی فرار کی ایک شکل ہے اور کچھ نہیں۔