کوئٹہ ٹرین سٹیشن دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایاز مسیح، جو کبھی بابر اعظم جیسا کرکٹر بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے۔
نو نومبر کی صبح کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر کام کرنے والے ایاز مسیح اور ان کے ساتھی عمران وکٹر کے لیے معمول کے مطابق تھی۔ دونوں صبح چھ بجے پلیٹ فارم پر پہنچے تھے۔
ایاز مسیح کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر بطور سپروائزر سینٹری ورکرز کام کرتے تھے جبکہ وکٹر مسیح بطور سینٹری ورکر خدمات انجام دیتے تھے۔
ایاز کی ذمہ داری تھی کہ وہ مختلف سنیٹری ورکرز کو پلیٹ فارم اور سٹیشن پر صفائی کی نشان دہی کرتے اور پھر ٹرین کے پلیٹ فارم پر لگنے سے پہلے اس بات کو یقینی بناتے کہ تمام کام مکمل ہو گیا ہے۔
ریلوے سٹیشن پر عموماً صفائی کا آغاز صبح چھ بجے ہی ہو جاتا اور یہ لازم سمجھا جاتا کہ مسافروں کے آنے اور ٹرین کے پلیٹ فارم پر لگنے سے پہلے یہ کام مکمل کر لیا جائے۔
ایاز مسیح نے اس دن بھی سب کو کام سونپا اور معمول کی طرح کام کی نگرانی کر رہے تھے۔ وہ پلیٹ فارم پر عمران وکٹر کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور ایاز مسیح اور وکٹر دونوں ہی موقع پر ہلاک ہو گئے۔
یاد رہے کہ سنیچر نو نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ہونے والے دھماکے میں حکام کے مطابق 12 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک جبکہ 60 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 28 سالہ ایاز مسیح اور 35سالہ عمران وکٹر بھی شامل تھے۔
ایاز مسیح نے سوگواروں میں دو بیوائیں اور دو بچے چھوڑے ہیں جبکہ ان کی ایک اہلیہ اس وقت چھ ماہ کے حمل سے ہیں۔ عمران وکٹر کے سوگواروں میں تین بچے اور بیوہ ہیں۔
عمران وکٹر کی تدفین کوئٹہ ہی میں کی گئی جبکہ ایاز مسیح کی آخری رسومات ان کے آبائی علاقے سبی میں ادا کی گئیں۔
’پاپا کیوں لینے نہیں آئے؟‘
عمران وکٹر کے خالہ زاد بھائی اور بچپن کے دوست حضرون مسیح کا کہنا تھا کہ عمران وکٹر تقریباً 15 سال سے محمکہ ریلوے میں بطور سنیٹری ورکر خدمات انجام دے رہے تھے۔
’کئی برسوں سے ان کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے ڈیوٹی پر چلے جاتے اور پھر دوپہر سے پہلے چھٹی ہوجاتی تو اپنے بچوں کو سکول سے لینے جاتے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب ہمیں اس حملے میں ان کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو گھر میں کہرام مچ گیا اور ہم فوراً ہسپتال پہنچے اور پھر ہسپتال سے میت لے کر گھر آ گئے، ایسے میں دکھ اور پریشانی میں کسی کو یہ خیال ہی نہیں آیا کے بچوں کو سکول سے واپس لانا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ 'جب بچوں کو لینے سکول پہنچے تو انھوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ ڈیڈی کیوں نہیں آئے جس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جب بچوں کو ان کی ہلاکت کا علم ہوا تو وہ بس ایک ہی بات کرتے رہے کہ پاپا اٹھ جاؤ۔'
یہ بھی پڑھیں: شہریار کا قرآن پاک کا حافظ ہونا مجھے سب سے زیادہ بھایا، وینا ملک کا انکشاف
‘اپنی چھت کی خواہش’
حضرون مسیح کہتے ہیں کہ عمران وکٹر کا اپنا کوئی مکان نہیں تھا۔ وہ کوئٹہ میں ریلوے کالونی میں سرکاری مکان میں رہائش پذیر تھے۔ مہنگائی کے اس دور میں ایک تنخواہ پر ان کا گزارا مشکل تھا اور وہ پارٹ ٹائم کام کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ پارٹ ٹائم عمران مسیح ایک ساؤنڈ سسٹم والے کے ساتھ بھی کام کرتے تھے۔ 'صبح ریلوے سٹیشن پر ڈیوٹی کرتے اور دوپہر کو گھر والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد شام کو شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں ساؤنڈ سسٹم کا کام کرتے جہاں ان کو دیہاڑی ملتی تھی۔'
حضرون مسیح کا کہنا تھا کہ وہ عموماً گئے رات ان تقریبات سے واپس آتے اور پھر صبح سویرے ڈیوٹی پر چلے جاتے۔
'ان کی کوشش تھی کہ کچھ نہ کچھ کر کے وہ اپنا ذاتی گھر بنا سکیں اور بچوں کو بہتر تعلیم دلوا سکیں۔'
ایاز مسیح کے چچا سنتھراج نے بھی Uses in Urdu سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'ایاز کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ذاتی گھر بنا سکیں۔'
'وہ کہا کرتا تھا کہ بس ایک خواہش ہے کہ کسی طرح بچوں کے لیے اپنی چھت حاصل کر لوں۔'
اس لیے انھوں نے کوئٹہ میں قسطوں پر ایک پلاٹ لے رکھا تھا۔ کبھی وہ اس پلاٹ کی ماہانہ اقساط ادا کر پاتے اور کبھی نہیں۔
‘وہ بابر اعظم ہی بننا چاہتا تھا’
ان کے چچا ان کی زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'ایاز نے تھوڑی عمر پائی ہے مگر اس کی زندگی کی کہانی بڑی عجیب ہے۔'
ایاز مسیح کے چچا سنتھراج نے بتایا کہ وہ کرکٹ کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ خود بھی ایک اچھے کھلاڑی تھے، انھوں نے اپنے آبائی علاقے سبی میں ایاز کاؤنٹی کلپ کے نام سے ایک کرکٹ کلب بھی قائم کر رکھا ہے۔
ایاز مسیح کے دوست اور ایاز کاونٹی سبی کی ٹیم کے رکن ناصر جاوید کہتے ہیں کہ سبی میں کھیلوں کا شائق کوئی ایسا نہیں ہوگا جس نے ایاز مسیح اور ایاز کاؤنٹی کا نام سن نہ رکھا ہو یا اسے کھیلتے ہوئے نہ دیکھا ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ایاز مسیح بچپن ہی سے زندگی سے بھرپور اور کھیلوں کا شوقین تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک وہ کرکٹ اور فٹ بال دونوں کھیلا کرتا تھا۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ فٹ بال کا اتنا اچھا کھلاڑی تھا کہ بلوچستان اور سبی کے تمام بڑے کھلاڑی اس کی تعریف کرتے اور اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے تھے۔ مگر پھر اس نے فٹ بال پر توجہ کم کردی اور کرکٹ کھیلنا شروع کردی۔
ناصر جاوید کہتے ہیں کہ 'وہ ایک شاندار آل راؤنڈر تھا۔ بیٹنگ کرنے آتا تو چوکے چھکے لگاتا اور بولنگ کرنے آتا تو وکٹیں اڑاتا دیتا۔'
وہ بتاتے ہیں کہ 'ایک موٹر سائیکل حادثے میں ایاز کی ٹانگ پر ایسا فریکچر آیا جو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی ٹھیک نہ ہوا، جس کا انھوں نے بہت اثر لیا اور انھیں کرکٹ چھوڑنی پڑی۔ ایاز کے آئیڈیل پاکستانی کرکٹر بابر اعظم تھے۔ وہ بابر اعظم بننا چاہتا تھا مگر اس حادثے نے سب کچھ تبدیل کردیا۔'
'ان کا کرکٹ کلب بھی بند ہوگیا اور ان کے دوستوں نے بھی کرکٹ چھوڑ دی۔'
ناصر جاوید کہتے ہیں کہ اس حادثے نے انھیں ڈپریشن کا شکار کر دیا۔
ناصر جاوید کہتے ہیں کہ 'اس کے بعد ہم دوستوں نے اس صورتحال پر غور کیا اور ایک بار پھر ایاز کاؤنٹی کلب کو بحال کیا اور ایاز کو دوبارہ میدان میں بلایا۔'
ناصر بتاتے ہیں کہ 'جب ایاز گراونڈ میں واپس آیا تو اس کی شخصیت پر اس کا بہت مثبت اثر ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک ٹانگ کے سہارے کھیلنا سیکھ لیا۔'
ناصر جاوید کہتے ہیں کہ ایاز کے لیے ایک اور مسئلہ سبی میں سنیٹری ورکر کے طور پر اپنے فرائض ادا کرنا تھا۔ 'وہ ایک ٹانگ میں خرابی کے باعث صفائی ستھرائی کا کام نہیں کرسکتا تھا جبکہ سبی میں خصوصی افراد کے لیے کوئی کوٹہ موجود نہیں تھا جس پر اس کا تبادلہ کوئٹہ کر دیا گیا تھا۔'
وہ بتاتے ہیں کہ ایاز کوئٹہ جا کر بھی کرکٹ کھیلتے رہے مگر پھر وقت کے ساتھ ان کی ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور وہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہنے لگے۔
'وہ اکثر کہتے تھے کہ میں کوشش کروں گا کہ میرے بچے پڑھ لکھ جائیں اور مستقبل میں انھیں میری طرح سنیٹری ورکر نہ بننا پڑے۔'