ریاض میں عرب رہنماؤں کا اجلاس: ٹرمپ کی واپسی سے امید اور غیر یقینی کے درمیان جھولتا مشرقِ وسطیٰ
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سمیت عرب اور مسلم ممالک کے درجنوں سربراہان سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایک اجلاس کے لیے جمع ہوئے ہیں جہاں یہ اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا بطور امریکی صدر دوسرا دور کیسا ہو گا اور اس کے مشرق وسطیٰ کے لیے کیا معنی ہوں گے۔
یورپ میں ٹرمپ کو ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے جن کے بارے میں کوئی قیاس آرائی نہیں کی جا سکتی مگر ایسے خدشات کے برعکس خلیجی عرب ممالک انھیں ایک مستحکم رہنما سمجھتے ہیں۔
سرکاری خبر رساں ادارے عرب نیوز کے (اوپینئن) رائے کے کالم میں متحدہ عرب امارات کے ممتاز کاروباری رہنما خلف الحبطور کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی کی اہمیت سب سے بڑھ کر ہے اور اس کے تناظر میں ٹرمپ کی جانب سے اس خطے میں امریکی اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنا اور انتہا پسند قوتوں پر توجہ ہی آگے بڑھنے کا بہترین راستہ ہے۔‘
سعودی عرب میں ٹرمپ کو جو بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ نے 2017 میں بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے ریاض کا انتخاب کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں یہ آئیڈیا روپرٹ مرڈوک نے دیا تھا۔
اپنے داماد جیرڈ کشنر کے باعث ٹرمپ کے سعودی فرمانروا اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ بہترین تعلقات قائم ہیں۔
ایم بی ایس نے بائیڈن کو ان کے اس بیان کے لیے کبھی معاف نہیں کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کے پامالیوں کا جواب دینا ہو گا۔
مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ کے دورِ صدارت کے بارے میں ملے جلے تاثرات پائے جاتے ہیں۔
ایک طرف ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے اور مقبوضہ گولان پہاڑیوں پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کر کے جہاں اسرائیل کو خوش کیا وہیں اس اقدام سے انھوں نے عرب دنیا کو پریشان کر دیا۔
مگر پھر ٹرمپ نے 2020 میں ’ابراہیم معاہدہ‘ کیا جس کے مطابق متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں اور سوڈان بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوا۔
مگر ایران کے حوالے سے ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے۔
سنہ 2018 میں ٹرمپ نے امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکال لیا۔
اس معاہدے کو تاریخ کا بدترین قرار دیتے ہوئے، انہوں نے علاقے کی کئی حکومتوں کے خیالات کی عکاسی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کا مقصد ایران کے جوہری عزائم کو روکنا تھا مگر یہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کو مالی وسائل حاصل ہوئے، جنہیں انہوں نے اپنے پراکسیز کو فنڈ فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا۔
سنہ 2020 میں ٹرمپ نے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا حکم دیا، جس نے خلیجی عرب ریاستوں کو خوش جبکہ ایران کو ناراض کیا۔
لیکن آج کا مشرق وسطیٰ چار سال پہلے کے مشرق وسطیٰ سے بہت مختلف ہے، جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس چھوڑ کر گئے تھے۔
اسرائیل کی حماس اور حزب اللہ کے خلاف جنگ جاری ہے جبکہ اس نے یمن میں حوثیوں اور ایران میں ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں۔
خطے میں بائیڈن انتظامیہ کا تاثر یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس اپنے قریبی اتحادی اسرائیل کو غزہ اور لبنان کی جنگوں کے دوران روکنے میں موثر کردار ادا نہیں کر سکا۔
خیال ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپس آ جائیں تو اسرائیل کو مزید ’فری ہینڈ‘ ملے گا تاکہ وہ ایران کے تیل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکے، جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے روکا ہوا تھا۔
سابق اسرائیلی انٹیلیجنس افسر جوشوا سٹینرچ کا کہنا ہے کہ ’وہ خطے میں اہم اتحادی بن چکے ہیں کیونکہ وہ اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور ایران کی عدم استحکام کی کوششوں کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں۔ ان کی واپسی کو اس تناظر میں دیکھا جائے گا کہ اس سے ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں ہوں گی۔‘
لیکن خطے میں کچھ چیزیں بالکل بدل چکی ہیں۔
چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران نے اپنے اختلافات ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس سے سات سالہ دشمنی کا دور ختم ہوا۔ ان سات برسوں میں یمن میں جنگ ہوئی جہاں سعودی ایئر فورس نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں پر بمباری کی تھی۔
اتوار کو سعودی آرمی چیف تہران گئے اور اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کی۔ دونوں ممالک اب دفاعی اور سکیورٹی امور میں تعاون بڑھانے کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔
1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے سعودی عرب اور اس کے سنی عرب پڑوسی ایران کو خطے میں ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب میں 2019 کے دوران تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملہ خلیجی عرب ریاستوں کے لیے یاد دہانی ہے کہ وہ ایران کی طرف سے کسی حملے کی صورت میں کتنے کمزور نظر آئیں گے۔
آج جب عرب اور اسلامی سمٹ غزہ اور لبنان میں جنگوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہا ہے تو ٹرمپ کے دوسرے صدارتی دور کے دوران مشرق وسطیٰ میں تبدیلیوں کے حوالے سے امید اور غیر یقینی بھی عیاں ہے۔