’اس شخص نے پولیس لائن مسجد میں دھماکے کی سہولت کاری کے دو لاکھ روپے وصول کیے۔ اس دھماکے میں 90 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ساتھی کی جان کا سودا اس نے دو ہزار روپے میں کیا۔‘
آئی جی پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات نے گذشتہ روز محمد ولی نامی ’شدت پسند‘ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا جن پر الزام ہے کہ وہ مبینہ طور پر 2023 میں پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ملوث تھے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ محمد ولی خود ایک پولیس اہلکار رہے ہیں لیکن پھر کالعدم تنظیم ’جماعت الاحرار‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔
چند روز پہلے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے کارروائی کے دوران پشاور کے جمیل چوک سے محمد ولی کو گرفتار کیا اور ان کے پاس سے دو خود کش جیکٹس برآمد ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
انسپیکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات نے بتایا کہ دوران تفتیش ملزم نے پولیس لائن پشاور کی مسجد میں خود کش حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے انکشافات کیے۔
یاد رہے کہ گذشتہ برس 30 جنوری کو پشاور کے انتہائی حساس اور اہم مقام پولیس لائن کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران زور دار دھماکہ ہوا تھا۔ اس حملے میں لگ بھگ 90 افراد ہلاک اور 249 زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے بعد تفتیش کاروں کو پیش نظر سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ حملہ آور انتہائی سکیورٹی زون میں واقع پولیس لائن تک بارودی مواد کے ہمراہ پہنچنے میں کیسے کامیاب رہا اور انھیں شک تھا کہ پولیس لائن میں موجود کسی ’مبینہ سہولت کار‘ نے حملہ آور کی مدد کی ہے۔
آئی جی خیبرپختونخوا کے دعوے کے مطابق یہ شکوک درست ثابت ہوئے ہیں کیوں کہ پولیس کی تفتیش اور محمد ولی کے بیان کے مطابق حملہ آور کو پولیس کی وردی پہنا کر پولیس لائن میں داخل ہونے میں مدد فراہم کی گئی۔
اس حملے کے بعد ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر عمر خراسانی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ افغانستان میں مارے گئے ان کے ساتھی خالد خراسانی کا بدلہ ہے۔
اس کے بعد کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا کہ وہ مساجد اور عام لوگوں پر حملے نہیں کرتے۔
پولیس اہلکار شدت پسند تنظیم کا حصہ کیسے بنا؟
آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا کہ محمد ولی کا رابطہ ’جماعت الاحرار‘ کے ایک رکن جنید سے سوشل میڈیا پر ہوا اور اس طرح جنید ان کی ذہن سازی کرنے لگا۔
آئی جی خیبر پختونخوا کی اس پریس کانفرنس میں جب محمد ولی کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تو ان کے ہاتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور چہرے پر کالا کپڑا تھا۔ اس دوران محمد ولی کے ہاتھ مسلسل کانپ رہے تھے۔
محمد ولی کو کوئی بات نہیں کرنے دی گئی لیکن پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں ان کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔
پریس کانفرنس کے دوران بتایا گیا کہ یہ ویڈیو محمد ولی کا اقبالی بیان ہے۔
اس بیان میں محمد ولی بتاتے ہیں کہ جنید نے ذہن سازی کی تو انھوں نے ’جماعت الاحرار‘ میں شمولیت کا ارادہ کر لیا۔
اس کے بعد 3 فروری 2021 میں وہ افغانستان میں جلال آباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات ’جماعت الاحرار‘ کے رہنما امیر مکرم خراسانی اور جنید سے ہوئی اور اس کے بعد انھوں نے ملا یوسف کے ہاتھ پر بیعت کی۔
محمد ولی کے اعترافی بیان کے مطابق اس موقع پر انھیں 20 ہزار روپے بھی دیے گئے اور جب وہ واپس پاکستان آ رہے تھے تو افغان پولیس نے انھیں گرفتار بھی کیا لیکن جنید کے کہنے پر انھیں چھوڑ دیا گیا۔
’جماعت الاحرار‘ کی جانب سے ہر ماہ 50 ہزار روپے بھیجے جاتے
محمد ولی کے بیان کے مطابق وہ جنید سے ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے بات چیت کرتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ’جنید نے مجھے جنوری 2023 میں ٹیلی گرام پر میسج کیا کہ ہم نے کوئی بڑا کام کرنا ہے۔ پھر میں نے پولیس لائن کی تصویریں اور نقشہ ٹیلی گرام کے ذریعے جنید کو بھیجیں۔‘
’اس کے بعد باڑہ میں ایک مسجد گیا جہاں سے ایک شخص کو لا کر خیبر روڈ اور پولیس لائن کا دورہ کرایا اور پھر کچھ دن بعد میں اسی مسجد پہنچا تو وہی بندہ پولیس وردی اور جیکٹ سمیت موجود تھا۔‘
’اس کو رحمان بابا کالونی میں وردی پہنائی اور پھر پشاور میں پیر عبدالطیف پل کے پاس چھوڑا اور خود گھر چلا گیا۔‘
’کچھ دیر بعد پولیس لائن میں دھماکہ ہوا اور اس کی اطلاع جنید کو بھی دی گئی۔ اس سہولت کاری پر مجھے دو لاکھ روپے دیے گئے اور یہ رقم میں نے ہنڈی حوالہ کے ذریعے وصول کی تھی۔ مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ کارروائی ہم اپنے امیر خالد خراسانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کر رہے ہیں۔‘