جال کہیں گہرا نہ ہوجائے۔۔۔
معروف اصطلاح: "ڈو اینڈ ڈائی"
”ڈو اینڈ ڈائی“ کا اردو ترجمہ کچھ ایسا ہو گا ”مارو یا مر جاؤ“۔ یہ اصطلاح عام طور پر کرکٹ مقابلوں کیلئے استعمال کی جاتی ہے اور ہر بڑے ٹورنامنٹ میں قومی کرکٹ ٹیم ضرور ایسی صورتحال سے دوچار نظر آتی رہی ہے، جہاں فیصلہ کن ”میچ“ پر ہی سب منحصر ہوتا ہے۔ اس بار سیاسی ”داؤ پیچ“ لڑانے کیلئے اس جملے کا استعمال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں انصاف کی دیوی کو ساڑھی کیوں پہنائی گئی؟
علیمہ خان کا پیغام
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے میڈیا کو بتایا کہ بانی کا پیغام ہے کہ ”میرے پاکستانیو! میں نے جتنا ہو سکا، ملک و قوم کی خاطر قربانی دی اور انشاء اللہ خون کے آخری قطرے تک آپ کی حقیقی آزادی کیلئے لڑتا رہوں گا لیکن یہ جنگ صرف عمران خان کی نہیں، پوری قوم کی ہے۔ آج میں احتجاج کی فائنل کال دے رہا ہوں۔ 24 نومبر کو آپ نے اسلام آباد پہنچنا ہے“۔
یہ بھی پڑھیں: روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ
مطالبات
4 مطالبات بھی سامنے رکھ دیئے گئے۔
- 26 ویں ترمیم کا خاتمہ
- جمہوریت اور آئین کی بحالی
- مینڈیٹ کی واپسی
- تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی
یہ بھی پڑھیں: شہبازشریف اور اسحاق ڈار نجکاری میں یقین نہیں رکھتے، مفتاح اسماعیل
عمران خان کی گرفتاری
بانی پی ٹی آئی عمران خان کو گزشتہ برس 9 مئی 2023ء کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا۔ اس دن اور اس کے بعد سے اب تک ملک بھر میں بے تحاشا احتجاج اور مظاہرے کیے گئے۔ خان صاحب ”باہر“ نہ آئے۔”جیل سے رہائی سیریز“ کا آخری احتجاج 4 اکتوبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہوا۔ خیبرپختونخوا سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے والا قافلہ راستے میں رکاوٹوں اور آنسو گیس کی شدید شیلنگ کے باعث حسن ابدال تک ہی پہنچ سکا۔
یہ بھی پڑھیں: خانیوال، مدرسے سے واپس گھر جانیوالی 12 سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی
احتجاج کی صورتحال
4 اکتوبر کی رات گئے تک قافلے کی جانب سے باہتر انٹرچینج عبور کرنے کی کشمکش جاری رہی تاہم قافلہ باہتر انٹرچینج سے پہلے ہی پھنس کر رہ گیا۔ پارٹی رہنما عمر ایوب، بابر سلیم سواتی، کامران بنگش، تیمور سلیم جھگڑا، فیصل ترکئی، شوکت یوسف زئی سابق ڈپٹی سپیکر محمود جان، فضل الٰہی، سمیع اللہ سمیت دیگر رہنما احتجاج میں پیش پیش رہے۔
یہ بھی پڑھیں: تین بہادر بھائیوں کا حیرت انگیز قصہ: بہادری، اتحاد اور محبت کی مثال
قافلے کی مشکلات
پارٹی فیصلے کے مطابق رہنما اور کارکنان نے ہر حال میں اسلام آباد پہنچنے کی کوشش کی، مختلف مقامات پر رکاوٹیں بھی ہٹائیں لیکن ”ڈی چوک“ محفوظ رہا۔ پنجاب کی حدود میں انتظامیہ نے جڑواں شہروں کو ملانے والی تمام شاہراہیں کنٹینر رکھ کر بند کر دیں، راولپنڈی، فیض آباد اور ملحقہ علاقوں میں حالات کشیدہ رہے، پی ٹی آئی کارکن شام ڈھلتے ہی ٹولیوں کی صورت میں باہر نکلے جن کو دیکھتے ہی پولیس نے شیلنگ کا آغاز کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: محمد رضوان کے کپتان بننے پر شعیب ملک کا رد عمل
گرفتاریاں اور سیکیورٹی صورتحال
اتنی سخت سیکیورٹی اور رکاوٹوں کے باوجود بانی پی ٹی آئی کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان ڈی چوک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اور انہیں تین دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی ایکسپریس وے پہنچے تو پولیس نے پکڑنے کیلئے آگے بڑھی تو نقوی صاحب کار میں بیٹھ کر نکل گئے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں آئینی بنچز کے قیام کی قرارداد متفقہ طور پر منظور
پنجاب کی صورت حال
لاہور سے کسی کو نکلنے ہی نہیں دیا گیا، تقریباً 600 کارکن گرفتار کیے گئے اور کوئی بھی ڈی چوک تو دور گوجرانوالہ نہ پہنچ سکا۔
یہ بھی پڑھیں: ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (جمعرات) کا دن کیسا رہے گا؟
آنے والی احتجاج کی کال
بانی پی ٹی آئی نے 24 نومبر کے احتجاج کی ”فائنل کال“ 13 نومبر کو دی۔ پاکستان تحریک انصاف کے مصدقہ ذرائع کے مطابق سینئر رہنماؤں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ ”بانی“ آج یا کل ”کال“ دینے والے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دیگر ٹیمیں پاکستان آ سکتی ہیں تو بھارت کو کیا مسئلہ ہے، پی سی بی نے بھارت کے آنے سے انکار پر آئی سی سی کو خط لکھ دیا
حکومتی و قیادت کی صورتحال
اسلام آباد کے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد یہی سب سے بہتر موقع ہے کہ ایک ”بھرپور اور جاندار“ احتجاج کیا جائے۔ دوسری طرف بانی کی فائنل کال سے حکومتی صفوں میں کھلبلی کے بجائے پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں دراڑیں پڑتی نظر آ رہی ہیں۔
ختم ہوتا ہوا وقت
بانی نے ”فائنل کال“ کی ”چال“ تو چل دی ہے مگر حالات ”سازگار“ نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی میں یکسوئی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی ”چال“ چلنا چاہتا ہے۔