گریجویشن تک طالبعلم دوسروں کی رضامندی ہی میں پناہ ڈھونڈتا ہے، اسے مختلف احکامات اور ہدایات کے گورکھ دھندے میں الجھا دیا جاتا ہے.
مصنف اور مترجم
مصنف: ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ: ریاض محمود انجم
قسط: 48
یہ بھی پڑھیں: ایرانی ‘فتح’ میزائل اور ‘شاہد’ ڈرونز: غیر ملکی ہتھیار جو روس کی عسکری طاقت میں اضافہ کر رہے ہیں
تعلیمی نظام کی خامیاں
جب تک طالب علم ابتدائی سے ثانوی درجے تک پہنچتا ہے، اسے یہ سبق رٹا دیا جاتا ہے کہ اساتذہ کی خوشنودی و رضامندی حاصل کیے بغیر چارہ نہیں۔ مضامین کے انتخاب تک طالب علم کو اساتذہ کے احکامات کی پابندی کرنا پڑتی ہے، پھر اسے اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر عمل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے، اس لیے وہ نہایت آسانی سے اپنے متعلق دوسروں کے کیے فیصلوں پر عمل کر لیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت 3 سے بڑھاکر 5 سال کرنے کا بل منظور
کلاس روم میں سیکھنے کی صورت حال
کمرہ جماعت میں کسی بھی مضمون کے متعلق اسے وہ لکھنا پڑھتا ہے، جو اسے سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ وہ مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے اپنے ذہن سے تخلیق شدہ مواد تحریر نہیں کر سکتا، بلکہ اسے دوسروں کے اقوال اور نظریات تحریر کرنے پڑتے ہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ سیکھتا اور پڑھتا نہیں ہے تو اسے امتحان میں بہت کم نمبر دیئے جاتے ہیں، اور اساتذہ بھی اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آلودہ ترین شہروں میں لاہور سرفہرست، خطرناک سموگ خلا سے بھی نظر آنے لگی
گریجویشن کی تاثیر
جب ایک طالب علم گریجویشن تک پہنچتا ہے تو وہ اپنے متعلق اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے کیونکہ مسلسل 12 سال سے یہی بتایا جا رہا ہوتا ہے کہ اسے کس طرح سوچنا چاہیے۔ اس کے ذہن میں مسلسل یہی بٹھایا جاتا ہے کہ ہر معاملے میں اسے اپنے اساتذہ سے پوچھنا چاہیے، اور پھر گریجویشن کے دن اس کی قوت فیصلہ مفقود ہو چکی ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان نے ایشوریا کا کندھا فریکچر کیا، مجھے ملازم نے بچایا، سابقہ گرل فرینڈ سومی علی نے الزام لگا دیا
کالج کے مراحل
کالج میں بھی اس کے ساتھ یہی وتیرہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک صفحہ خالی چھوڑ کر لکھو، کھلا کھلا لکھو، صحیح ترتیب سے لکھو، بہتر یہی ہے کہ ٹائپ کروا لو۔ پہلے تعارف لکھو، پھر نفس مضمون اور پھر نتیجہ لکھو۔ یہ سب کچھ اپنے اساتذہ کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، جیسا کہ اساتذہ کی خوشی سے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 10 لاکھ روپے کرنے کے دعووں پر “بھائیو، کبھی پڑھ بھی لیا کرو” کا مشورہ
اعلیٰ تعلیم کا انتخاب
طالب علم ایک سیمینار میں شرکت کرتا ہے جہاں ایک پروفیسر اسے پیشکش کرتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے مضامین کے انتخاب میں وہ مدد فراہم کرے گا، لیکن ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ تعلیم تو آپ نے حاصل کرنی ہے، اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق حاصل کریں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف طریقوں کے ذریعے طالب علم کو اپنی مرضی اپنانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
اختتامیہ
یہ تمام طریقے وہ ہیں جن کے ذریعے ایک طالب علم کو لازمی طور پر اپنے اساتذہ کی خوشامد اور چاپلوسی کرنا پڑتی ہے، اور مروج امتحانی طریقوں کی موجودگی میں یہ رویہ اور طرزعمل قطعی حیران کن نہیں ہے۔ اس تمام عمل کا نچوڑ یہ ہے کہ طالب علم اپنے تعلیمی مراحل کے دوران ہر موڑ پر اپنے اساتذہ کی خواہش اور مرضی کے مطابق پڑھے اور سیکھے اور کامیابی کے حصول کا یہی طریقہ آسان اور محفوظ ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔