فضاء میں ہلکی ہلکی خنکی اتر آئی تھی، یکدم باہر شور مچ گیا، سب دروازے کی طرف گئے تو دیکھا گھوڑا خالی تانگے کو لے کر سرپٹ سڑک پر بھاگا جا رہا تھا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 61
الأقصر کی ایک شام
یہاں کی شام بڑی ہی شاندار تھی۔ فضاء میں ہلکی ہلکی خنکی اتر آئی تھی تاہم سردی نہیں تھی۔ احمد مجھے ہوٹل میں چھوڑ کر اپنے ٹھکانے پر واپس چلا گیا تھا اور میں ہوٹل کی لابی میں آ کر بیٹھ گیا۔ بھوک ابھی نہیں تھی، اس لئے کافی کا ایک کپ لیا اور ہلکی ہلکی چسکیاں لیتا ہوا دن بھر کی سرگرمیوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہونے لگا۔ آج کا دن واقعی ہی بڑا خوبصورت تھا۔
ہنگامہ خیز منظر
پھر یکدم باہر مرکزی سڑک پر شور مچ گیا۔ ہم سب لوگ جلدی سے باہر دروازے کی طرف گئے تو دیکھا کہ ایک گھوڑا خالی تانگے کو لے کر سرپٹ سڑک پر بھاگا جا رہا تھا اور اس پر کوئی کوچوان بھی نہیں تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ گھوڑا بدک کر بے قابو ہوا اور پوری رفتار سے بھاگ نکلا اور اب اس کو پکڑنے کے لئے جتن کئے جا رہے تھے۔ جو بھی اس تانگے کو دیکھتا ایک زور دار چیخ مار کر بلند آواز سے سامنے آنے جانے والے راہگیروں کو متنبہ کرتا۔ لوگ بھی خوفزدہ ہو کر قریبی عمارتوں کی دیواروں کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ تب ہی ایک اور تیز رفتار تانگے میں 2 افراد اس کا پیچھا کرتے نظر آئے۔ ان میں سے ایک یقینا اس بے قابو ہو جانے والے تانگے کا کوچوان تھا جو تانگے پر سامنے کھڑا ہو کر شور مچا رہا تھا اور انتہائی پریشانی کے عالم میں مسلسل اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتا جا رہا تھا۔ وہ بڑی تیزی سے ہمارے سامنے سے گزر گئے اور ظاہر ہے کہ پھر کہیں نہ کہیں تو اس بے لگام گھوڑے کو قابو کر لیا ہوگا۔ لوگ سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔
رات کا سکوت
میں کچھ دیر وہاں بیٹھا اور کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ نیند ابھی کوسوں دور تھی۔ قومی ٹیلی ویژن پر ام کلثوم اپنی سُریلی آواز میں نغمے بکھیر رہی تھی۔ وہ اب کافی ضعیف ہوچکی تھی اور کالی عینک اور ہاتھ میں سفید رومال لے کر سٹیج پر آتی تھی۔ اس کے ساتھ سازندوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی۔ اس وقت بھی وہ ایک بہت ہی افسردہ سا نغمہ گا رہی تھی۔ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا تھا لیکن دیکھنے والوں کی آنکھوں کی نمی اور سرخی بتا رہی تھی کہ نغمے کے بولوں میں کوئی بڑا ہی دکھ پوشیدہ تھا، جس کو مادام اپنی خوبصورت مگر اداس آواز سے کھول کھول کر بیان کر رہی تھی۔
خوابوں کی وادی
خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا میں نیند کی وادیوں میں اترتا ہی چلا گیا اور پھر ان فرعونوں اور ان کی خوبصورت ملکاؤں نے خواب میں بھی مجھے چین سے رہنے نہ دیا اور مجھے اپنے ساتھ لئے ادھر سے ادھر بھگاتے پھرے۔ اور یوں میری ساری شب ان کے ساتھ ہی بیتی۔ صبح اٹھا تو تھوڑی بہت تھکاوٹ تو تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ دل کو تسکین بھی بڑی ملی تھی اور اب میں اتنا کچھ جان چکا تھا کہ میں بے خوف ہو کر قدیم مصریوں کی تاریخ اور معاشرت پر گھنٹوں بحث کرسکتا تھا اور اتنا ہی لمبا لیکچر بھی دے سکتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں