کیا ٹرمپ کی نئی ٹیم کی ترجیحات میں پاکستان اور بھارت شامل ہوں گے؟
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے لیے اہم عہدوں پر تعیناتیاں شروع کر دی ہیں۔ مبصرین ان فیصلوں کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ریپبلکن صدر کی جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور خاص طور پر پاکستان کے لئے کیا پالیسی ہوگی۔
نومنتخب امریکی صدر نے اپنی کابینہ میں ایلون مسک جیسے ایکس کے مالک اور فاکس نیوز کے سابق میزبان پیٹ ہگستھ جیسی شخصیات کو بھی شامل کیا ہے۔
لیکن ٹرمپ کی ٹیم میں ایسی کئی شخصیات شامل ہیں جو ماضی میں جنوبی ایشیا -- خاص طور پر پاکستان اور انڈیا -- اور مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کے باعث خبروں میں رہی ہیں۔
اس کے باوجود، مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے یہ کہنا مشکل ہوگا کہ وہ کس معاملے پر کیا پالیسی اپناتے ہیں۔
مارکو روبیو: سیکریٹری خارجہ
امریکہ کے نومنتخب صدر نے باقاعدہ اعلان کردیا ہے کہ وہ سیکریٹری خارجہ کے اہم عہدے کے لیے سینیٹر مارکو روبیو کو نامزد کریں گے، جو کہ ماضی میں ٹرمپ کے مخالف رہے ہیں لیکن انہیں خارجہ پالیسی امور کا ایک ماہر سمجھا جاتا ہے۔
رواں برس جولائی میں سینیٹر مارکو روبیو اس وقت بھی خبروں میں آئے تھے جب انہوں نے امریکی سینیٹ میں انڈیا کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت میں ایک بل متعارف کروایا تھا۔
اس بل کا نام امریکہ، انڈیا دفاعی تعاون ایکٹ تھا، جس کا مقصد دونوں ممالک میں دفاعی شراکت داری کو بڑھانا تھا تاکہ انڈو پیسیفک خطے میں 'چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت' کو روکا جا سکے۔
اس بل میں کہا گیا تھا کہ انڈیا کو درپیش خطرات کے پیش نظر اسے سیکیورٹی تعاون فراہم کیا جائے اور اس کے ساتھ دفاعی، سول سپیس، ٹیکنالوجی اور معاشی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی تعاون کیا جائے۔
مارکو روبیو کے بل میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ 'ٹیکنالوجی کی منتقلی' کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جائے جو امریکہ جاپان، اسرائیل، کوریا اور نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ رواں رکھتا ہے۔
اس بل میں پاکستان کا ذکر بھی کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ کانگریس کو پاکستان کے 'دہشت گردی اور پروکسی گروپوں کے ذریعے انڈیا کے خلاف طاقت کے استعمال' پر رپورٹ جمع کروائی جائے۔
سینیٹ کی ویب سائٹ پر موجود بل میں کہا گیا ہے کہ 'اگر پاکستان انڈیا کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے سیکیورٹی کے اعتبار سے مدد نہ فراہم کی جائے۔'
پاکستانی حکام ماضی میں بارہا دہشتگردی کی مالی معاونت جیسے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
مارکو روبیو ایران کے حوالے سے بھی سخت موقف رکھتے ہیں اور وہ پاکستان کے پڑوسی کو ’دہشتگرد‘ ملک بھی قرار دے چکے ہیں۔
رواں برس اسرائیل پر ایرانی حملوں کے بعد مارکو روبیو نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ: ’اسرائیل کو ایران کو ویسا ہی ردِعمل دینا چاہیے جیسا امریکہ دیتا اگر کسی ملک نے ہم پر 180 میزائل داغے ہوتے۔‘
ٹرمپ کے نامزد کردہ سیکریٹری خارجہ حماس کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں کی بھی حمایت کرتے آئے ہیں۔
کیپیٹل ہِل پر سیاسی و سماجی کارکنان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ وہ (اسرائیل) حماس کے ہر عناصر کو تباہ کرے۔ یہ (حماس) جانور ہیں جنھوں نے خوفناک جرائم کیے ہیں۔‘
مارکو روبیو پاکستان کے قریب ترین اتحادی چین کے حوالے سے بھی انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔ رواں برس ستمبر میں انھوں نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ چین ’امریکہ کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ مخالف ہے۔‘
اسی برس وہ ایکس پر بھی لکھ چکے ہیں کہ: ’کمیونسٹ چین جمہوری ممالک کا نہ ابھی دوست ہے اور نہ کبھی ہو سکتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: لڑکی کی آواز سے ڈاکووں کے جھانسے میں آنے والا نوجوان کس طرح واپس آیا ؟
مائیک والٹز: قومی سلامتی کے مشیر
فلوریڈا کے رُکنِ کانگریس مائیک والٹز کو نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔
50 برس کے مائیک والٹز امریکی فوج کا حصہ رہے ہیں اور کئی بار افغانستان، مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔
گذشتہ برس انڈین چینل ویون کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے پاکستان کے حوالے بات کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ: ’دہشتگردی خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ لشکرِ طیبہ ہو یا دیگر دہشتگرد گروہ، یہ ناقابلِ قبول ہے۔‘
’پاکستانی حکومت، پاکستانی فوج اور پاکستانی انٹیلیجنس کو اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور ہم ان پر صحیح سمت اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہیں گے۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی حکام ماضی میں بارہا ان الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔
صدارتی انتخاب سے قبل رواں برس جولائی میں فلوریڈا پولیٹکس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ہمارے ایک صدر تھے جنھوں نے نام نہاد دولت اسلامیہ کو شکست دی تھی، ایران کو توڑ دیا تھا، ہمیشہ اسرائیل اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہے اور چین کو اس کے کیے پر بھرپائی کرنے پر مجبور کیا۔
’آپ نے صدر ٹرمپ کی موجودگی میں کبھی امریکہ میں جاسوس غبارے نہیں دیکھیں ہوں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: امریکی، پاکستانی و بھارتی صدور کی تنخواہ کتنی ہے؟
تُلسی گبارڈ: ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس
نومنتخب امریکی صدر نے سابق رُکن کانگریس تِلسی گبارڈ کو نیشنل انٹیلیجنس کا ڈائریکٹر نامزد کیا ہے۔
تُلسی گبارڈ امریکی فوج میں بطور لیفٹینٹ کرنل بھی خدمات سرانجام دے چکی ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق وہ اس دوران مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ میں بھی تعینات رہی ہیں۔
ماضی میں تُلسی گبارڈ بھی پاکستان پر تنقید کرتی ہوئی نظر آئی ہیں۔ سنہ 2017 میں انھوں نے پاکستان پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
اس وقت کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی ایک مقدمے پر رہائی پر بھی تُلسی نے پاکستان پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ حافظ سعید ممبئی حملوں کے ’ماسٹر مائنڈ‘ تھے جن میں چھ امریکیوں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مارچ 2019 میں انھوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’جب تک پاکستان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہے گا دونوں ممالک کے درمیان تناؤ رہے گا۔‘
’وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی رہنما انتہا پسندوں اور دہشتگردوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی پشاور جانے کی بجائے لاہور کیوں آ گئیں ؟ وجہ پتہ چل گئی
جون ریٹکلف: ڈائریکٹر سی آئی اے
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون ریٹکلف کو بطور سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کا سربراہ نامزد کیا ہے۔
ریٹکلف ٹرمپ کے پہلے دورِ صدرات میں نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چین اور ایران کے حوالے سے سخت مؤقف رکھتے ہیں۔ دسمبر 2020 میں وال اسٹریٹ جرنل میں ایک مضمون میں انھوں نے لکھا تھا کہ ’انٹیلیجنس بہت واضح ہے: بیجنگ اقتصادی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ اور پوری دنیا پر برتری چاہتا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ چین کی بڑی کمپنیاں اپنی سرگرمیوں کی آڑ میں چین کی کمیونسٹ حکومت کے لیے کام کرتی ہیں۔
سنہ 2020 کے صدارتی انتخاب سے قبل بطور نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ ریٹکلف نے ایران پر ڈیموکریٹک ووٹرز کو دھمکی آمیز ای میلز بھیجنے کا الزام لگایا تھا تاکہ ملک میں ’بد امنی‘ پھیلائی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب سے ا طالوی سفیرماریلنا ارمیلن کی ملاقات، لائیو سٹاک اور ڈیر ی پراجیکٹ میں سرمایہ کاری پر اتفاق
یہ تعیناتیاں ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کیا بتاتی ہیں؟
امریکی سیاست اور پالیسی سازوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے قبل واضح طور پر یہ کہنا مشکل ہوگا کہ وہ کس معاملے پر کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔
تاہم اکثریت کا ماننا ہے کہ پاکستان نئے امریکی صدر کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
امریکہ میں واقع تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ سے منسلک ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ اگر ہم ٹرمپ کی جانب سے عہدوں پر نامزد کی گئی شخصیات کے بیانات دیکھیں تو انھیں لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اپنے نظریات کے مطابق ہی کام کرے گی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ پالیسی سازی میں نظریات کا عمل دخل کم ہی ہوتا ہے۔ ’پالیسی سازی میں نظریات سے کام نہیں لیا جا سکتا بلکہ یہ پیچیدہ مشکلات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر کامران بخاری کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخصیات متعدد موضوعات پر سخت موقف رکھتے ہیں لیکن ’ضرورت پڑنے پر وہ کمزور آنے کے ڈر کے بغیر اپنے عملیت پسند ہونے کی گنجائش بھی پیدا کر لیتے ہیں۔‘
نو منتخب امریکی صدر کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آخرکار یہ سب صدر کی ایما پر ہی کام کرتے ہیں جو کہ کوئی نظریاتی شخصیت نہیں بلکہ ڈیل میکر ہیں اور جنگوں کے خلاف ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’جہاں تک پاکستان کی بات ہے تمام پالیسیاں پہلے جیسے ہی رہیں گی، اگر معاملات خراب نہیں ہوتے یا پاکستان کسی بڑے بحران کا شکار نہیں ہو جاتا۔‘
’پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے لیے تیسرے درجے کی ترجیحات میں ہی رہے گا یا پھر پاکستان کو نئی آنے والی انتظامیہ کے سامنے خود کو مددگار ثابت کرنا ہوگا۔‘
پاکستان اور امریکہ کی سیاست میں گہری دلچسپی رکھنے والے مبصر عزیز یونس سمجھتے ہیں کہ نئی ٹرمپ انتظامیہ کی تمام تر توجہ پہلے مشرقِ وسطیٰ اور خصوصاً ایران پر ہوگی۔
’نئی امریکی انتظامیہ کو چیلنجز کے ایک انبار کا سامنا ہے۔ پاکستان خصوصاً اس کی اندرونی سیاست اور اس کا انڈیا سے تعلق ان کی ترجیحات کی فہرست میں بہت نیچے ہوں گے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ قوی امکان یہی ہے کہ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی بنیاد ’ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ ڈالنے پر ہوگی اور ’ان کی کوشش ہوگی کہ معاہدہ ابراہیمی کو ایک مرتبہ پھر زندہ کیا جائے اور توجہ اس بات پر رکھی جائے کہ سعودی عرب اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرلے۔‘
تاہم عزیز یونس کے مطابق ایسا ہونا اس لیے مشکل ہے کیونکہ فلسطین کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔
’پاکستان واشنگٹن کے ریڈار پر نہیں ہے‘
ملیحہ لودھی ماضی میں دو مرتبہ امریکہ میں بطور پاکستانی سفیر خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ انھوں نے Uses in Urdu کو بتایا کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد امریکہ کی نگاہ میں پاکستان کی اہمیت کم ہوئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان ابھی واشنگٹن کے ریڈار پر نہیں ہے۔‘
’پاکستان اور چین کے درمیان سٹریٹجک تعلقات اور انڈیا اور امریکہ کے درمیان شراکت داری کے بیچ میں ہی پاکستان کو کوئی گنجائش نکالنا ہوگی اور امریکہ سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔‘
تاہم وہ کہتی ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیم میں چین مخالف شخصیات اگر پاکستان کو چین یا انڈیا کے لینس سے دیکھتی ہیں تو امریکہ اور پاکستان کے درمیان معنی خیز دو طرفہ تعلقات کی گنجائش مزید سُکڑ جائے گی۔
پاکستان میں موجود دیگر تجزیہ کاروں کا بھی اندازہ یہی ہے کہ نئی انتظامیہ کی پالیسی میں شاید پاکستان کے لیے کوئی خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں نہ آئے۔
اسلام آباد میں واقع قائدِ اعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر محمد شعیب نے Uses in Urdu کو بتایا کہ ’امریکی پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اور واشنگٹن میں طاقت کے ایوانوں تک اسلام آباد کو رسائی نہ دینا پاکستان کو ایک مشکل پوزیشن میں رکھنے کے لیے مناسب ہے۔‘
لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایران اور چین کے مقابلے میں پاکستان کے پاس یہ موقع زیادہ ہے کہ وہ کچھ کوششیں کرکے ٹرمپ انتظامیہ سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکے۔